سپریم کورٹ کا این اے 154 لودھراں میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم،صدیق بلوچ الیکشن لڑنے کی اجازت،صدیق بلوچ کی درخواست جزوی منظور، نااہلی کے حوالے سے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم ،ضمنی انتخابات کیخلاف حکم امتناعی بھی ختم ،کسی شخص کو مستند ڈگریاں ہونے کے باوجود لکھنا پڑھنا نہیں آتا تو کیسے کہہ دیں وہ صادق اور امین نہیں، جسٹس ثاقب نثار

جمعرات 29 اکتوبر 2015 09:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29اکتوبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے این اے 154 لودھراں میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دے دیا یہ حکم جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مسلم لیگ (ن) کے صدیق خان بلوچ کی جانب سے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر بدھ کے روز اپنے مختصر فیصلے میں دیا ہے۔ عدالت نے صدیق خان بلوچ کی درخواست جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے اس کی نااہلی کے حوالے سے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی ہے عدالت نے ضمنی انتخابات کے خلاف جاری حکم امتناعی بھی ختم کردیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ دھاندلی کے معاملات پر فیصلہ نہیں دیا جارہا۔ درخواست گزار نے اس حوالے سے آرٹیکل 170 پر اپنے دلائل واپس لے لئے ہیں۔

(جاری ہے)

تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ صرف اس بات پر ایک شخص کومیٹرک سے بی اے تک تعلیمی مستند ڈگریاں حاصل ہونے کے باوجود لکھنا پڑھنا نہیں آتا‘ کیسے کہہ دیں وہ صادق اور امین نہیں ہے۔

صادق اور امین ہونے کے معاملے کے بارے میں بہت زیادہ محتاط ہیں۔ جس یونیورسٹی اور بورڈ نے ڈگریاں جاری کیں ان کو قصور وار قرار دیا جائے یا ڈگریاں حاصل کرنے والے کو۔ یہ قومی المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں بغیر پڑھے لکھے ڈگریاں مل جاتی ہیں۔ زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ دوسرے دن میڈیا میں ہیڈ لائن بن جاتی ہے۔ کیا ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ جس کی بنیاد پر ہم ایک شخص کو جھوٹا اور دھوکے باز قرار دے سکیں۔

ہمارے قلم میں یہ طاقت نہیں کہ کسی کو اتنی آسانی سے دھوکے باز قرار دے سکیں۔ جبکہ جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ آپ بار بار امید ‘ اعتماد اور دوسری باتیں کررہے ہیں کیا آپ کو بنچ کے کسی معزز رکن پر اعتماد نہیں ہے۔ یونیورسٹی کی جانب سے ڈگری جاری کرنے بارے عدالتی دائرہ کار کیا ہے ہم یہاں ڈگریوں کی چھان بین کرنے نہیں بیٹھے ہوتے اور نہ ہی ہم یونیورسٹی والا کام کر سکتے ہیں۔

دوران سماعت صدیق خان کے وکیل شہزاد شوکت نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل اردو انگریزی پڑھ سکتے ہیں ان کی ڈگری کو متنازعہ قرار نہیں دیا گیا اس کے مستند ہونے پر جہانگیر ترین نے سوالات نہیں اٹھائے بی اے کرنے والے کو کچھ نہ کچھ انگریزی اور اردو آنی چاہیے۔ ممکن ہے کہ ان کے موکل بھلکڑ ہوں۔ جبکہ مخدوم علی خان نے کہاکہ یہ قومی المیہ ہے کہ ایک شخص اپنے حلقے کی عوام و دھوکہ دے رہا ہے کہ وہ بی اے ہے اس نے انگریزی میں 100 نمبر حاصل کئے ہیں مگر اسے انگریزی اور سندھی کے ابتدائی الفاظ تک نہیں آتے۔

ایک شہری اور کورٹ آفیسر ہونے کے ناطے کہوں گا کہ یہ بہت شرمساری کا مقام ہے کہ ایک شخص کو پوتا اسے کہہ رہا ہے کہ آپ کی ڈگری جعلی ہے جس سے وہ شرمندہ ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ آپ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ پنڈورہ بکس کھول دیا تو نااہلی کے حوالے سے کئی مقدمات میں فیصلے دینا پڑیں گے۔ کسی کو جھوٹا قرار دینا اتنا آسان نہیں ہے یہ عمر بھر کی بدنامی کس طرح سے ہم کسی کی جھولی میں ڈال دیں بعد ازاں فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے مشاورت کے لئے پانچ منٹ کا وقت لیا اور بعد ازاں آکر فیصلہ سنا دیا۔