کھرب 80ارب کے گردشی قرضوں کے آڈٹ کے حوالے سے کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا جا ئے گا،آڈیٹر جنرل آف پاکستان ،آڈیٹر جنرل آفس کی جانب سے حکومت کو آئی پی پیز کو ادائیگیوں کے حوالے سے کلین چٹ نہیں دی گئی ہے ،آڈٹ اعتراضات کی چھان بین کے موقع پر عالمی معیار کو مد نظر رکھا جائے گا، اعلامیہ

جمعہ 23 اکتوبر 2015 10:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23اکتوبر۔2015ء ) آڈیٹر جنرل پاکستان کے دفتر سے گردشی قرضوں اور آئی پی پیز کو ادائیگی کے حوالے سے حکومت سمیت کسی بھی ادارے کو کلین چٹ نہیں دی گئی ہے، سرکلر ڈیٹ کے 4 کھرب 80 ارب روپے کے سپیشل آڈٹ رپورٹ کو درست انداز میں پیش نہیں کیا گیا ہے ،آڈٹ اعتراضات کے حوالے سے مذکورہ فریق اور پرنسپل اکاؤنٹس آفیسر کی رائے کے بغیر واضح صورتحال بیان نہیں کی جا سکتی ہے ۔

آڈیٹر جنرل آفس سے جاری ہونے والے اعلامئے کے مطابق ایک خودمختار اور آئینی ادارہ ہونے کی حیثیت سے ہم فریق بنے بغیر عالمی معیار کے مطابق بامقصد آڈٹ کرتے ہیں ہمارا کام آڈٹ کے لیے پیش کردہ ریکارڈ میں موجود حقائق کو ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ یہ عالمی اصول ہے کہ آڈٹ رپورٹ فریق ثانی کے ادارے اور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کو اپنے موقف بیان کرنے کا موقع دے کر تیار کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

اے جی پی آفس نے یہ بات نمایاں انداز میں بیان کی ہے کہ جس ادارے کا آڈٹ کیا جاتا ہے اس کا موقف شامل کئے بغیر آڈٹ رپورٹ ڈرافٹ کی شکل میں موجود رہتی ہے اور یہ کسی بھی شعبے کو جاری نہیں کی جاتی۔ اور یہی معاملہ سرکلر ڈیٹ کے چار سو اسی ارب روپے کے خصوصی آڈٹ رپورٹ کے ساتھ ہوا ہے۔جہاں تک سرکلر ڈیٹ کا تعلق ہے اس وقت کے آڈیٹر جنرل نے جولائی 2013ء میں پہلی مرتبہ سپیشل آڈٹ کا حکم جاری کیا تھا۔

ڈائریکٹر جنرل آڈٹ واپڈا نے دسمبر 2013ء میں آڈٹ رپورٹ کا پہلا ڈرافٹ جمع کرادیا تھات۔ اس وقت کے آڈیٹر جنرل آڈٹ رپورٹ کے مندرجات سے مطمئن نہیں ہوئے تھے اور انہوں نے ڈی جی آڈٹ واپڈا کو دوبارہ اس رپورٹ کی شفافیت اور 480 ارب روپے کی ادائیگی کی شکل کے حوالے سے دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا۔ ڈی جی واپڈا آڈٹ نے نظر ثانی شدہ رپورٹ دوبارہ پیش کی مگر یہ رپورٹ بھی اس وقت کے آڈیٹر جنرل کو صدر دفتر میں بار بار جائزہ لینے کے باوجود مطمئن نہ کر سکی۔

اس طرح اے جی پی کی طرف سے ڈی جی واپڈا آڈٹ کو ہدایت کی گئی کہ وہ سو فیصد آڈٹ کر کے دسمبر 2014 تک رپورٹ پیش کر دیں۔مزید وضاحت کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل آفس نے بتایا کہ سو فیصد آڈٹ سابق آڈیٹر جنرل کے دور میں مکمل نہ ہوسکا اور وہ آڈٹ رپورٹ ڈرافٹ شکل میں جولائی 2015 میں جمع کرائی گئی۔ ہیڈ آفس میں اس رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ڈی جی آڈٹ واپڈا کو ہدایت کی گئی کہ وہ پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر پانی و بجلی محکمہ کے سیکریٹری کے ساتھ محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس منعقد کریں۔

مزید تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل آفس نے کہا کہ ڈی اے سی اجلاس وزارت پانی و بجلی کے کمیٹی روم میں اسی ماہ کی 7 تاریخ کو منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں کل 42 آڈٹ پیروں پر بحث کی گئی اور اس میں سے ایک کروڑ سترہ لاکھ اور 32 ہزار روپے مالیت کے محض 2 پیرے پیش کئے جانے وال ریکارڈ کی بنیاد پر طے کرلیے گئے۔ جبکہ اس کے علاوہ مزید دو پیرے اس لئے حذف کر لیے گئے۔

چونکہ وہ پہلے ہی گزشتہ سالوں کی آڈٹ رپورٹ میں پرنٹ ہوچکے تھے۔ محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کی کاروائی پر ڈی جی واپڈا آڈٹ کے ساتھ ساتھ پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کے دستخط کرا لیے گئے ہیں اور یہ ڈرافٹ رپورٹ چند دنوں بعد ہیڈ آفس میں جمع کرا دی جائے گی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اس رپورٹ کا جائزہ لیں گے اور محکمے کے سینئر افسران کی طرف سے کوالٹی اشورنس کے بعد اس پر دستخط کر دیں گے۔آخر میں آڈیٹر جنرل آفس نے ان حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح کی ہے کہ 4 کھرب 80 ارب روپے کے سرکلر ڈیٹ کی سپیشل آڈٹ رپورٹ کو حتمی شکل دینے میں نہ تو جان بوجھ کر تاخیر کی گئی ہے اور نہ ہی اے جی پی کا محکمہ کسی دباؤ کو خاطر میں لائے گا۔

متعلقہ عنوان :