وزیراعظم رواں ماہ 20 سے 23 اکتوبر تک امریکہ کا سرکاری دورہ کرینگے، صدر اوبامہ سمیت امریکی عہدیداروں سے ملاقات کرینگے،وزیراعظم نے حریت رہنما سید علی گیلانی کو دورہ پاکستان کی باضابطہ دعوت دی ہے،امید ہے بھارت روکاوٹ نہیں ڈالے گا،پاکستان، بھارت سے بات چیت کشمیر ایجنڈے کو شامل کرنے پر ہو سکتی ہے، پاکستان کے اندر داعش کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی برداشت کیا جا سکتا ہے، پاکستان ہمیشہ انٹرا افغان مذاکرات کی حمایت کرتا ہے‘ افغانستان کے اندر پاکستان کی مداخلت کے الزامات بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں،ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ

جمعہ 16 اکتوبر 2015 09:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔16اکتوبر۔2015ء) دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف رواں ماہ 20 سے 23 اکتوبر تک امریکہ کا سرکاری دورہ کرینگے‘ صدر اوبامہ سمیت امریکی عہدیداروں سے ملاقات کرینگے‘ وزیراعظم نے حریت رہنما سید علی گیلانی کو دورہ پاکستان کی باضابطہ دعوت دی ہے،امید ہے کہ بھارت ان کے دورے میں روکاوٹ نہیں ڈالے گا، بھارت سے بات چیت کشمیر ایجنڈے کو شامل کرنے پر ہو سکتی ہے‘ پاکستان نے بھارت میں پاکستانی تقریبات میں رکاوٹیں ڈالنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے‘ پاکستان کے اندر داعش کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی برداشت کیا جا سکتا ہے‘ پاکستان نے اسرائیلی آبادکاریوں اور اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام پر بھی شدید مذمت کی ہے‘ ترکی کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں اور بہت سارے شعبوں میں تعاون کیا جا رہا ہے پاکستان ہمیشہ انٹرا افغان مذاکرات کی حمایت کرتا ہے‘ افغانستان کے اندر پاکستان کی مداخلت کے الزامات بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔

(جاری ہے)

ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کے روز ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف 20 سے 23 اکتوبر تک امریکہ کا سرکاری دورہ کرینگے اور اس دورے میں امریکی صدر باراک حسین اوبامہ سے ملاقات کرینگے اس کے علاوہ دیگر اہم عہدیداروں کے ساتھ بھی ملاقات ایجنڈے میں شامل ہے جن میں امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیداران اور پاکستان اور امریکہ کے بزنس کمیونٹی سے بھی ملاقاتیں کرینگے۔

وزیراعظم اپنے دورہ امریکہ میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے اندر مداخلت اور لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کے متعلق بھی امریکہ کو اعتماد میں لیں گے۔ دوطرفہ تعاون‘ دہشتگردی اور خطے کی صورتحال پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ وزیراعظم کے ساتھ جانے والے وفد کے متعلق ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم جیسے ہی وفد تشکیل دے دیا جائے گا تو میڈیا کو بھی آگاہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اوفا ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق پاکستان بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی‘ دہشتگردی کے واقعات کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر بات چیت ہو گی تاہم بھارت کی جانب سے بار بار کشمیر کو ایجنڈے سے نکالنے کی بات کی جا رہی ہے جس پر پاکستان نے ہمیشہ واضح الفاظ میں کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ جب بھی مذاکرات ہونگے کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہو گا۔

پاکستان نے بھارت کی جانب سے ملک کے اندر افراتفری اور دہشت گردی پھیلانے کے تین دستاویزات تیار کی ہیں جسے اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا۔ پاکستان میں زیادہ تر دہشت گردی کے واقعات بھارت کی طرف سے ہوئے ہیں عالمی برادری اس بات کا نوٹس لے۔ بھارتی لڑکی گیتا کی واپسی کے حوالے سے تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں اس حوالے سے بھارتی ہائی کمیشن کے جواب کا انتظار ہے۔

سمجھوتہ ایکسپریس دوبارہ بحال کر دی گئی ہے۔ بھارت کے اندر پھنسے 33 پاکستانیوں کو وطن واپس لایا گیا ہے یہ مرحلہ دو حصوں میں مکمل کیا گیا ہے۔ پہلی بار 19 اور دوسری بار 14 پاکستانیوں کو واپس لایا گیا ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس کی بحالی پر پاکستان نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندر داعش کا کوئی وجود نہیں یہ بات پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان داعش کی کارروائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی داعش کا وجود پاکستان کے اندر برداشت کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ کچھ کالعدم تنظیمیں اگر داعش کے ساتھ رابطے میں ہوئیں تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ داعش کے حامی گروہوں کو کسی بھی سطح پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے چند گروہ داعش سے رابطہ کرنا چاہ رہے ہوں لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ داعش کو پاکستان کے اندر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان پر یہ الزام لگانا سراسر زیادتی ہے کہ پاکستان افغانستان کے اندر طالبان کو مضبوط کر رہا ہے بلکہ پاکستان نے ہمیشہ افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ پر امن مذاکرات کے لئے راہ ہموار کی ہے اور اب بھی پاکستان یہی چاہے گا کہ طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئیں۔ افغان حکومت چاہے تو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کروانے کے لئے پاکستان تیار ہے۔

افغانستان کے اندر کسی گروہ کی طرف سے بذریعہ طاقت افغانستان کے کسی علاقے پر قبضے کی مذمت کرتے ہیں۔ بھارت کے اندر پاکستانی فنکاروں اور سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کی تقریبات پر قدغن لگانا سراسر زیادتی ہے۔ پاکستان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور بھارتی حکومت کے ساتھ یہ معاملات بھی اٹھائے ہیں اور حکومت کی یہ کوشش ہو گی کہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

ترجمان نے عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ وزیراعظم کے دورہ امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملات کاعلم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے اندر یہودی آباد کاریوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت کی ہے۔ عالمی برادری سے ہمیشہ فلسطین کاز پر اپنا مضبوط موقف دیا ہے۔ ترکی کے ساتھ برادرانہ اور انتہائی قریبی تعلقات ہیں پاکستان ترکی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ دفاعی معاملات‘ تعلیم اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کا سوچ رہا ہے اور مستقبل قریب میں ترکی کے ساتھ مزید تعلقات مضبوط ہونگے۔