ججزفیصلہ آئین وقانون کے مطابق دیتے ہیں،نظرثانی سے فرق نہیں پڑتا،چیف جسٹس،پی سی اوججز کے خلاف فیصلے پر نظرثانی سمیت پاکستان بارکونسل کے دیگر تحفظات کافیصلہ آئین وقانو ن کی روشنی میں کیاجائیگا،کسی بھی ادارے کا مقررہ حدور سے تجاوز جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے،عدلیہ ،انتظامیہ، مقننہ کو حدود میں کام کرنا ہوتا ہے،ریفرنس سے خطاب، پی سی اوججز پر عدالت فیصلے پرنظرثانی کرے،احسن بھون،فضل حق عباسی،سلمان بٹ کا خطاب،جسٹس سرمد جلال عثمانی کی خدمات کوسراہا

منگل 13 اکتوبر 2015 09:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13اکتوبر۔2015ء )سپریم کورٹ کے جج جسٹس سرمد جلال عثمانی کی ریٹائرمنٹ پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ پی سی اوججز کے خلاف فیصلے پر نظرثانی سمیت پاکستان بارکونسل کے دیگر تحفظات کافیصلہ آئین وقانو ن کی روشنی میں کیاجائیگا،ججزاپنافیصلہ آئین وقانون کے مطابق دیتے ہیں ان کے فیصلے پرنظرثانی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،ہماری روایات میں ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں پرتبصرہ کرتے ہوئے محتاط رہناچاہیے کسی بھی ادارے کی جانب سے اپنی مقررہ حدور سے تجاوز جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے،ریاست کے تینوں ستون عدلیہ ،انتظامیہ اور مقننہ کو اپنی حدود کے اند رہتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے،جبکہ چیئرمین ایگزیکٹوپاکستان بارکونسل احسن بھون نے خطاب کے دوران مطالبہ کیاکہ پی سی اوججز کے حوالے سے عدالت اپنے فیصلے پرنظرثانی کرے اوران ججزکے نام بھی ججز تقرر کے کمیشن کے روبروپیش کیے جانے چاہیں ،بنچ اور بارکے درمیان باہمی احترام کے رشتے سے ہی عام آدمی کوانصاف کی فراہمی ممکن ہے جبکہ صدر سپریم کورٹ بارفضل حق عباسی نے کہاہے کہ سپریم کورٹ نے ایک جج کے وکیل کے خلاف سخت فیصلے پرنظرثانی کرکے اچھی روایت قائم کی ہے جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان سلمان بٹ نے جسٹس سرمد جلال عثمانی کی خدمات کوسراہا،پیرکے روزسپریم کورٹ میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں معاشی ترقی عوام کی خوشحالی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں عدل و انصاف امن اور قانون کی حکمرانی ہو،،ایسا جب ہی ممکن ہے جب ہر ادارہ اپنا کام آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق مکمل فرض شناسی کے ساتھ انجام دے،، کسی بھی ادارے کی جانب سے اپنی مقررہ حدور سے تجاوز جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے،،ریاست کے تینوں ستوں عدلیہ ،انتظامیہ اور مقننہ کو اپنی حدود کے اند رہتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے،آئین پاکستان نے عدلیہ پر بھاری ذمہ داریاں عائد کی ہیں،،آئین میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے،جناب جسٹس عثمانی بطور جج ایسے بینچزمیں بھی شامل رہے ہیں جنہوں نے بہت سے اہم آئینی اور قانونی امور میں قابلِ ذکر فیصلے صادر کیے۔

(جاری ہے)

آپ بہت سے اہم آئینی معاملات کا فیصلہ کرنے والے لارجر بینچوں کا حصہ بھی رہے۔ ان میں پی سی او 2007ء کیس (سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بنام فیڈریشن آف پاکستان-پی ایل ڈی 2009سپریم کورٹ879)،پی سی او نظرثانی کیس(پرویز مشرف بنام ندیم احمد-پی ایل ڈی 2014 سپریم کورٹ585)،توہین عدالت قانون کیس (باز محمد کاکڑ بنام فیڈریشن آف پاکستان - پی ایل ڈی 2012سپریم کورٹ 923) زیادہ نمایاں ہیں۔

یہاں پر میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ پی سی او2007ء کے بعد جناب عثمانی صاحب کو ستمبر 2008ء میں پی سی او کے تحت نامزد کردہ چیف جسٹس کی سفارش پر سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا اورآپ 31جولائی 2009ء تک بطور جج سپریم کورٹ اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے مگر 31جولائی کو آپ نے خود ہی اس فیصلہ کی حمایت کی جس میں یہ کہا گیا کہ پی سی او کے تحت مقرر کردہ چیف جسٹس کی سفارش پر تعینات کیے گئے ججز کی تقرری غیرآئینی ہے۔

اس طرح آپ نے آئین و قانون کی بالادستی کی خاطراپنے عہدے کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ جس کے نتیجے میں آپ کو سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیااور اس طرح آپ کا سپریم کورٹ میں تقدم مجروح ہوا مگر آپ نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ اس کے علاوہ جناب جسٹس عثمانی صاحب نے بہت سے دیگر گراں قدر فیصلے بھی صادر کیے ہیں۔ اس وقت آپکے تمام فیصلوں کا ذکر کرنا تو ممکن نہیں ہے مگر میں یہاں ان چند اہم فیصلوں کا حوالہ دینا ضرروری سمجھتا ہوں جن سے آپ کی قانونی مہارت اور علمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

میاں خالدروف بنام چوہدری محمد سلیم (پی ایل ڈی 2015سپریم کورٹ 348) میںآ پ نے یہ قرار دیا کہ کریمنل لاء ترمیمی ایکٹ 1958 کے سیکشن 10(2)کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ کسی بھی خصوصی عدالت کے جج کی جانب سے مجرم کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف متعلقہ ہائی کورٹ میں اپیل داخل کرے۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ صوبائی حکومت اور دیگر اشخاص کو اپیل داخل کرنے کا حق نہ ہے ۔

نہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلکہ مجرم یا مدعی مقدمہ بھی ہائی کورٹ میں اپیل داخل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔شاہد سرفراز بنام سرکار (پی ایل ڈی 2014سپریم کورٹ809) میں آپ نے قرار دیا کہ اگرچہ جرم کرتے وقت مجرم کی نیت یہ نہ ہو کہ اس سے حکومتی یا عوامی حلقوں میں خوف و ہراس پیدا ہو مگر اس سے زیادہ اور کیا سنگین جرم ہو گا کہ پہلے تو ایک نہتے لڑکے کو گولی ماری گئی اور پھر اس کی التجا کے باوجود کہ اُسے ہسپتال لے جایا جائے اسے وہیں پر مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔

یقینا اس بے رحمانہ اقدام سے عوام میں خوف و ہراس اور احساسِ عدم تحفظ پیدا ہوا لہٰذا مجرم کو درست طور پر دہشت گردی کے قانون کے تحت سزا دی گئی۔ غلام عباس بنام فیڈریشن آف پاکستان (2014 سپریم کورٹ منتھلی ریویو849) میں آ پ نے قرار دیا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افواج کے کسی مختار افسر کے حکم کو اگر وہ خلاف ضابطہ یا بدنیتی پر مبنی یا بغیر اختیار ِسماعت کے صادر کیا گیا ہو تو ایسے حکم کو پرکھنے کے لیے ہائی کورٹ کے اختیار سماعت کے سلسلے میں آئین کے آرٹیکل 199(3) میں بیان کی گئی ممانعت کا اطلاق نہ ہوگا اورایسے حکم کو خلاف ضابطہ یا بدنیتی پر مبنی ہونے کی وجہ سے تو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا البتہ شہادت کی عدم دستیابی کی بنا پر جس امر کو اختیار سماعت نہ ہونے کے مساوی قرار دیا جاسکتا ہے ،کی بنیاد پر چیلنج کیا جاسکتا ہے اور ایسی صورت میں عدالت ،چاہے وہ آئین کے تحت یا پاکستان آرمی ایکٹ کی سیکشن 84(a)کے تحت قائم ہو، کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسے اختیار سماعت نہ ہے۔

امجد قدوس بنام چیئرمین نیب (2014 سپریم کورٹ منتھلی ریویو1567) کے کیس میں اس سوال کے جواب میں کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 227(2)میں انکم ٹیکس افسران کو دیے گئے تحفظ کی موجودگی میں نیب آرڈیننس 1999ء کا اطلاق ہوگا یا نہیں، آپ نے قرار دیا،کہ دونوں قوانین میں پائی جانے والی non obstante clausesکی موجودگی کے باوجود نیب آرڈیننس کا اطلاق ایسے افسران پر ہوگا کیونکہ انکم ٹیکس آرڈیننس ایک عام قانون ہے جبکہ نیب آرڈیننس ایک خاص قانون ہے۔

سی بھی معاشرے میں معاشی ترقی ،عوام کی خوشحالی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں عدل و انصاف ، امن اور قانون کی حکمرانی ہو۔ ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب ہر ادارہ اپنا کام آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق مکمل فرض شناسی کے ساتھ انجام دے۔ کسی بھی ادارے کی جانب سے اپنی مقررہ حدود سے تجاوز نہ صرف جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ اسکے عوامی بہبود پہ شدید منفی اثرات پڑتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آئینِ پاکستان میں مختلف اداروں میں تقسیم کار کا اصول وضع کیا گیا ہے جس کے تحت ریاست کے تینوں بنیادی ستونوں عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کو اپنی مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے۔ اور اسکے ساتھ ساتھ آئین کی بالا دستی کو یقینی بنا نا ہوتا ہے۔ آئین پاکستان نے عدلیہ پربنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نہ صرف عدلیہ کو انتظامیہ اور مقننہ سے الگ رکھا گیا ہے بلکہ آئین میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے پر بھرپور زور دیا گیا ہے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ عدل و انصاف کا عمل ملک میں وحدت اور اخوت کا باعث ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اختلاف یا غیر یقینی صورت حال میں تمام اداورں اور عوام کی نظریں ہمیشہ عدلیہ پر رہتی ہیں۔ عدلیہ نے اپنے طور پر حالات کے مطابق ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے عوامی بہبود میں ایسا فیصلہ صادر کیا جائے جس سے غیر قانونی اقدامات کی حوصلہ شکنی ہو اور معاشرے میں امن و انصاف کو فروغ ملے تاکہ جمہوریت اور ریاستی بنیادوں کو مضبوط کیا جاسکے۔

عدلیہ کے فرائض کی بطریقِ احسن ادائیگی میں بار کاہمیشہ اہم کردار ہوتا ہے۔ بار کی اعلیٰ معاونت کے بغیر جج صاحبان اپنی ذمہ داری سے بہتر طور پرعہدہ برا نہیں ہو سکتے۔ اسی بنا پر ملک میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بینچ اور بار میں مکمل ہم آہنگی اور تعاون کی فضا قائم ہو۔ انصاف کی گاڑی کے یہ دو پہیے ساتھ ساتھ چلیں اور اپنی مشترکہ منزل ِ مقصود ، یعنی فریقینِ مقدمہ کے مابین آئین و قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی ، کو پالیں ۔

خطاب کے آخر میں چیف جسٹس نے پاکستان بارکونسل کے چیئرمین ایگزیکٹواحسن بھون کے تحفظات کابھی جواب دیاجس میں انھوں نے کہاکہ تما م معاملات کاپہلے ہی جائزہ لیاجارہاہے قانون کے مطابق ان کافیصلہ کیاجائیگا۔اس موقع پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اپنے پورے دور میں کوشش کی کہ تمام فیصلوں میں قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کر سکوں ،،اعلی عدلیہ میں بطور جج خدمات انجام دینے میں ساتھی ججز کا شکر گزار ہوں۔

متعلقہ عنوان :