سلمان تاثیر قتل کیس، تحفظ ناموس رسالت قانون کسی کو توہین کرنیوالے شخص کو کس طرح سزا دینے کی اجازت ہے؟سپریم کورٹ ، اللہ کے نبیﷺ نے گستاخی کرنے والوں کے خلاف جو حکم دیا یا گستاخوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو سراہا تو آج یہ حکم دینے کا اختیار کس کو حاصل ہے ،کیا فرد واحد یہ اختیار استعمال کر سکتا ہے؛جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس،اگر فرد واحد کو اس طرح کے اقدامات کی اجازت دے دی گئی تو پھر معاشرے میں بدامنی پھیل جائے گی، اس قانون کے استعمال میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، 3 رکنی بنچ کے ریمارکس ، گستاخان رسول کی سخت سے سخت سزا رکھی گئی ہے، ایسے لوگ فسادی ہیں،قرآن میں نبی اکرم کی آواز سے آواز بلند کرنے سے بھی روکا گیا ہے،حکومت ایکشن نہ لے تو اللہ کا اپنا نظام حرکت میں آکر گستاخوں کو سزا دیتا ہے؛ممتاز قادری کے وکیل کے دلائل

بدھ 7 اکتوبر 2015 09:32

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7اکتوبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل میں ملوث ممتاز قادری کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت آج (بدھ) تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل میاں نذیر اختر کو ہدایت کی ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ تحفظ ناموس رسالت قانون ہونے کے باوجود کسی انفرادی شخص کو توہین کرنے والے شخص کو کس طرح سزا دینے کی اجازت ہے؟ اللہ کے نبیﷺ نے گستاخی کرنے والوں کے خلاف جو حکم دیا یا گستاخوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو سراہا تو آج یہ حکم دینے کا اختیار کس کو حاصل ہے ،کیا فرد واحد یہ اختیار استعمال کر سکتا ہے۔

عدالت فتویٰ نہیں دے سکتی تاہم ہائی کورٹ نے آپ کے اسوہ حسنہ کے واقعات کو سنت نہیں مانا تو اس کو فیصلے سے الگ کر سکتی ہے،شرعی فیصلے کیلئے شریعت اپیلٹ بنچ سے رجوع کرنا ہو گا۔

(جاری ہے)

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر فرد واحد کو اس طرح کے اقدامات کی اجازت دے دی گئی تو پھر معاشرے میں بدامنی پھیل جائے گی۔

اس قانون کے استعمال میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ۔ممتاز قادری کے وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گستاخان رسول کی سخت سے سخت سزا رکھی گئی ہے۔ ایسے لوگ فسادی ہیں نبی اکرم کی آواز سے آواز بلند کرنے سے بھی روکا گیا ہے اس کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ شان رسالت ﷺ کے خلاف بات کرنے والوں کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں۔

جسٹس آصف نے کہا کہ آیت کریمہ اور ترجمہ کے بعد لکھے گئے الفاظ کس کے ہیں کیا یہ کسی عالم کے ہیں اس پر وکیل نے کہا جی ہاں یہ عالم دین اور مفکر کے الفاظ ہیں۔ وکیل نے ممتاز قادری کا پورا بیان پڑھ کر سنایا۔ حضرت سعد بن عبادہ لوگوں کی زبان سے آپ ﷺ کیلئے راعنا کا لفظ سن کر دکھی ہو گئے اور کہا کہ جس نے یہ لفظ استعمال کیا میں اسے قتل کر دوں گا جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی اور کہہ دیا کہ راعنا نہ کہا جائے بلکہ ”انظرنا“ کہا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے انظرنا کا لفظ بھی خود عطا فرما دیا۔ نیت کے ایشو پر ہائی کورٹ میں بحث ہی نہیں کی گئی 8 صفحات لکھ ڈالے یہ شریعت کورٹ کے فیصلے سے یہ الفاظ لیا گیا تھا حالانکہ شریعت کورٹ میں ایشو ہی اور تھا۔ اسلام میں عمر قید کی سزا نہیں بلکہ سزائے موت ہے یہ قانون باقی انبیاء پر بھی قرار دیا گیا ہے اس کے علاوہ کوئی اور فیصلہ نہیں دیا۔ وکیل نے ایک اور آیت کا مفہوم بیان کیا اور کہا کہ بے شک جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں ان کے لئے اللہ نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

وکیل نے کہا کہ اس سزا کا اطلاق صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا کی سزا بھی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس کا اطلاق تو مستقبل کے لئے ہے۔ دنیا کے حوالے سے کیسے اطلاق ہو گا۔ وکیل نے کہا کہ اس کا اطلاق وہاں کے لئے بھی ہے کیونکہ اس لغت کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ سزا سے بھی زیادہ سخت بات ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ اس ایت میں اللہ کو تکلیف دینے کی بات ہے۔ بڑی اہم ہے وگرنہ انسان کس طرح سے اللہ کو تکلیف دے سکتا ہے اللہ کی تخلیق اس کو کیسے ایزاء دے سکتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ ملعون جہاں ملیں ان کو قتل کر دیا جائے۔ یہ سزا پہلی امتوں کے لئے بھی مقرر تھی۔ حضرت عمر فاروق کو فاروق کا لقب ایک ایسے نام نہاد مسلمان کو قتل کرنے پر دیا گیا جس نے آپﷺ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ جسٹس آصف نے کہا کہ جتنی آیات آپ نے پیش کی ہیں وہ سب آپ کی شان اقدس کے حوالے سے ہیں مگر کسی مفسر نے ان آیات کو ناموس رسالت سے جوڑا ہے۔

یہ انسانی تشریح ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مفسر کا نتیجہ صحیح ہو ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر یہ انسانی تشریح ہے۔ مفسرین کا علم ہم سے ہزار گنا زیادہ ہے ان کی تفسیر سر آنکھوں پر ہے۔ وکیل نے کہا کہ آیت میں کہا گیا ہے جو اللہ کے رسول سے نعوذ باللہ مذاق کرتے ہیں وہ مسلمان ہونے کے باوجود کافر ہو چکے ہیں۔ اللہ اور رسول کی مخالفت کرنے والوں کے لئے سخت عذاب ہے۔

مخالفت کرنے والوں کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ حضرت علی نے روایت کی ہے اللہ کے نبی نے فرمایا جس نے انبیاء میں سے کسی کو گالی دی اس کو قتل کر دو صحابی کو گالی دی اس کو کوڑے مارے جائیں۔ قاضی ایاز اندلس کے چیف جسٹس تھے انہوں نے الشفا کتاب لکھی۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ اللہ نے اپنے نبی کو فیصلے کا اختیار دیا تو انہوں نے قتل کرنے کا حکم دیا یہ اختیار اللہ کے نبی کے پاس تھا موجودہ سوال یہی ہے کہ قانون موجود ہے اپنے ہاتھ میں فیصلہ لے لینا یہ اختیار کہاں سے آتا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے کیا ہر شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو قتل کر دے وکیل نے کہا کہ حضرت عمر نے اپنے طور پر ایکشن لیا تھا اگر اللہ کے نبی روکنا چاہتے تو روک دیتے مگر اللہ نے آیت اتار دی اور آپ نے عمر کو فاروق کا لقب عطا فرما دیا۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اس اختیار کی وضاحت تو ہونی چاہئے اگر اس طرح کی اجازت دے دی جائے تو کیا معاشرے میں ہر شخص اپنا فیصلہ اور عمل درآمد شروع کر دے تو معاشرہ خراب ہو جائے گا۔ وکیل نے کہا کہ یہ ایک مفروضہ ہے ہر الگ الگ حالت کے لئے قانون نہیں ہوتا 14 صدیاں گزر گئیں 80 کے قریب ریاست نے سزا دی 40 افراد کو از خود مارا گیا۔ امت کا رویہ یہ ہے عملاً رب کریم خود کنٹرول فرماتا ہے ہر بندے کو اس کی اجازت بھی نہیں دی۔

اہانت کرنے والے کو قتل کرنا مذہبی فریضہ ہے۔ ریاست فوری طور پر کارروائی کرے تو بہتر وگرنہ اللہ نے اپنا ایک نظام رکھا ہے ایک سبب بنا اور ممتاز قادری نے یہ قتل کر دیا۔ عدالت نے کہا تھا کہ اگر آپ کو اجازت دیں تو قیاس ہو گا۔ حالانکہ اس کی اجازت 14 صدیاں قبل دے دی تھی۔ کئی لوگوں کو انفرادی طور پر مارا گیا تھا۔ جسٹس دوست نے کہا کہ کیا یہ سب آیات مدنی ہیں اگر یہ مدنی ہیں تو اس وقت منافقین کی تعداد زیادہ تھی۔

4 بڑی ایک چھوٹی جنگ بھی لڑی گئی اس کے بعد میثاق ہو گیا صلح حدیبیہ ہو گیا۔ قانونی اہمیت بھی دیکھنی ہو گی۔ مفتی اور مفسر نے جتنی باتیں کہیں ملزم کو خود معلوم نہ تھیں یہ باتین ان کو لکھ کر دی گئیں۔ کیا ملزم کو یہ علم حاصل تھا کہ جس کی بناء پر اس نے کارروائی کی۔جسٹس دوست نے کہا کہ یہ تو قدرتی ہے ہم رسول اللہ کی شان کے خلاف کس طرح کوئی بات برداشت کر سکتے ہیں قرآن مجید میں آپ کی تعریف بیان کی گئی ہے۔

وقوعے کے وقت ملزم کے پاس یہ علم نہیں تھا۔ وکیل نے کہا کہ بنیادی علم تو حاصل تھا۔ دعوت اسلامی کے درس سنتے تھے جس کو بعد میں دعوت اسلامی نے تسلیم نہیں کیا۔ بحرین میں ایک چرچ تھا اس کے قریب بچے ہاکی کھیل رہے تھے گیند پادری کو لگ گئی وہ غصے ہو گئے انہوں نے گیند دینے سے انکار کر دیا۔ بچوں نے آپ کا واسطہ دیا مگر پادری نے گستاخی شروع کر دی جس پر بچوں نے ان کو لکڑیوں سے مار دیا۔

حضرت عمر کے روبرو قصاص دیت کا مطالبہ کیا تو آپ نے مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ بچوں کے اقدام سے بہت خوش ہیں اتنی جنگ کی فتح سے خوش نہیں ہوئے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ جو جرم امریکہ میں کر رہا ہے یہاں تو لوگوں کو سزا نہ دی جائے۔لوگ اس طرح کے معاملات میں جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔جسٹس آصف نے کہاکہ آپ کی نظر میں بہت سے واقعات گزرے ہوں گے کہ فلاں شخص نے توہین کر دی لوگ اکٹھے ہو گئے گھر جلا دیتے ہیں بوٹیاں نوچ لیتے ہیں کیا ہر ایک کو لائسنس حاصل ہے کہ وہ جو مرضی آئے کرتا پھرے۔

اللہ نے بلا تحقیق کے بات آگے پھیلانے سے روکا ہے۔ ممتاز قادری کے پاس کیا اطلاع تھی کہ سابق گورنر نے گستاخی کی تھی سب چیزیں دیکھی تھیں۔ اگر اس کے پاس ٹھوس معلومات نہیں تھیں کیا ہر شخص کے پاس لائسنس ہے کہ بات درست پہنچے یا غلط کیا اس کو قتل کرنے کا اختیار ہے۔ وکیل نے کہا کہ اگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے تو شاید اس کی ضرورت نہ تھی عدالت نے کہا کہ کیا کسی نے ریاست سے رجوع کیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ پہلی ریاست کی ذمہ داری ہے اگر وہ نہیں کرتی تو کوئی اور اقدام کرتا ہے تو اس کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی اس کو رہا بھی کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ ریاست کے اہم تین ستون ہیں انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ ہیں۔ کیا کسی عدالت سے رجوع کیا گیا۔ وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ عدالت نے کہا تھا گورنر کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہو سکتا تھا اس کے خلاف نظرثانی درخواست دائر نہیں کی گئی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ ایک سیکیورٹی ادارے کا ملازم کو تو قانون بھی پتہ ہے وہ بھی رجوع کر سکتا تھا۔ جسٹس دوست نے کہا کہ گورنر اگر جیل گیا تھا اس وقت تو چند لوگ ساتھ ہوں گے۔ آمر نے قانون شہادت نافذ کیا تھا۔ وکیل نے کہا کہ پریس کانفرنس کی گئی تھی۔ جسٹس آصف نے کہا کہ اس کو سماعت میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اینٹوں کے بھٹے میں شادی شدہ جوڑے کو جلا دیا تھا آپ نے کہا کہ چند مقدمات ہیں 40 مقدمات سے زائد ہیں کئی مقدمات تو رپورٹ نہیں ہوئے۔

کئی مقدمات کو ہم نے خود ڈیل کیا ہوا ہے جائیداد کے تنازعے پر بھی توہین کا الزام لگوا کر ایک شخص کو سزائے موت دلوائی گئی بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک صوبے کا گورنر ہے۔ قانون کے غلط استعمال بارے وہ اپنے تحفظات بیان کر سکتے تھے۔ وکیل نے کہا کہ انہوں نے الفاظ بولتے ہوئے احتیاط نہیں کی بہت آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے ان الفاظ کی تردید تک نہیں کی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ ہم نے ہر ایک چیز کا جائزہ لینا ہے کہ اگر کیس کا یہ فیصلہ کیا تو اس کے یہ نتائج ہوں گے اور اگر یہ کیا تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ آپ نے جتنے واقعات بیان کئے ان میں گواہ موجود تھے۔ موجودہ واقعہ کو اس کے ساتھ کیسے نسبت دی جا سکتی ہے اللہ کے رسول کا اللہ سے براہ راست تعلق تھا۔ ہم تو گناہگار ہیں لیڈی ڈاکٹر نے نرس کے کاروبار سے تنگ آ کر اس کو بھی اس طرح کے مقدمے میں پھنسایا۔

بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ وکیل نے کہا کہ اللہ نے اپنی اطاعت بھی رسول اللہ کی اطاعت سے مشروط کی ہے۔ بعض مقدمات میں آپ نے معاف بھی فرمایا مگر ان کے وصال کے بعد کس طرح معافی دی جا سکتی ہے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ ریاست کی عملداری چھوڑ کر ہر شخص کو اجازت دے دیں تو فساد پھیل جائے۔ ہمارے ہاں بھی فرقہ بندی ہے اسی طرح سے معاشرے میں بھی تفریق آ چکی ہے اب قائد اعظم کا پاکستان نہیں رہا۔

جب ملک بنا تھا سب ان کے پرچم تلے جمع تھے۔ اب ایسا نہیں ہے غیر مسلم کو پھنسانے کے لئے اس کا غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ قانون کے غلط استعمال کا معاملہ الگ ہے۔ تاہم قانون و سنت سے بنائے گئے قانون کے بارے کوئی کس طرح سے یہ الفاظ بول سکتا ہے۔ تمام مسالک نے اس کو غلط قرار دیا۔ سیکیورٹی گارڈ کو آخر کیسے یہ جرات ہوئی، سیکیورٹی گارڈ نے آخر کیوں اس کو مارا، کسی نے اس وقت ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

جسٹس دوست نے کہا کہ وقوعے کے وقت باقیوں کا خاموش رہنا اس کے حق میں رہنا ہے یہ ہم نے نوٹ کیا ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ اللہ کے نبی تو حاکم بھی ہیں ان کی مثالوں کو کیسے اپنایا جائے۔ آج کون حکم کرے گا؟ وکیل نے کہا کہ پہلی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ حکومت کا مفتی اعظم مقرر ہونا چاہئے اس فتوے پر عمل ہونا چاہئے وہ نہ ہو تو پھر قاضی کے سامنے پیش کر کے اس کو سزا دی جاتی۔

اگر ریاست کچھ نہیں کرتی تو پھر کیا ہو گا؟ جسٹس آصف نے کہا کہ آپ کے قول و فعل سے معاملات سامنے آ چکے ان کو ہم حق اور سچ سمجھتے ہیں۔ جسٹس دوست نے کہا کہ آپ ایک الگ سے اسلامی بورڈ بنانے کے لئے ریاست سے رجوع کیا جائے جو حکومت کے اثرات سے باہر ہو وہی اس طرح کے معاملات کا فیصلہ کرے۔ اس حوالے سے قانون میں ترمیم کی جاتی۔ وکیل نے کہا کہ ہم نے جو سرکار کی جو مثالیں دی ہیں ان کو ہائی کورٹ نے اسوہ حسنہ اور سنت نہیں مانا عدالت نے کہا کہ ہائی کورٹ کو اس کا اختیار نہیں تھا اور یہ اختیار صرف وفاقی شرعی عدالت کو ہے آرٹیکل 203(G-G) کے تحت ہائی کورٹ اس بارے فیصلہ نہیں دے سکتی تھی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ شریعت بارے تو کچھ نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی میرا یہ دائرہ کار ہے فوجداری مقدمے کی حد تک فیصلہ کرنا ہمارا فریضہ ہے ہم صحیح سے صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے شریعت کے فتوے نہیں دے سکیں گے۔ملزم نے ایک مجلس میں شرکت کی تھی اس کا بھی حوالہ دیا تھا۔ ملزم کے جذبات کو دیکھتے ہوئے آج کے معاشرے کی سکیم میں کہاں فٹ کر سکتے ہیں ہم نتیجہ پر جانا چاہتے ہیں فتویٰ اگر مانگیں گے تو یہ غیر موثر ہو گا۔ اسلامی پوزیشن پر تعلیم نہیں دے پائیں گے اس کے لئے آپ کو شریعت اپیلٹ بنچ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ آپ اپنے دلائل بھی مکمل کریں۔

متعلقہ عنوان :