ملکی معاشی حالات میں بہتری؛اسٹیٹ بنک نے آئندہ دو ماہ کیلئے شرح سود 50پیسے کم کر کے 6.0فیصد مقرر کر دی، امن و امان کی بہتر صورت ِحال کے باعث سرمایہ کار اور صارف کا اعتماد بڑھ رہا ہے ،مالی سال 16 میں مزید معاشی سرگرمیوں کی امید ہے،چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت انفراسٹرکچر کی ترقی اور توانائی کے منصوبوں پر عملدرآمد سے سرمایہ کاری کے ماحول میں اور بہتری آئے گی،مرکزی بنک کا اعلامیہ

اتوار 13 ستمبر 2015 10:07

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13ستمبر۔2015ء)بینک دولت پاکستان نے ملکی معاشی حالات میں بہتری کے پیش نظر پالیسی ریٹ میں 50بی پی ایس کم کرکے 6.0فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بینک دولت پاکستان کا کہنا ہے کہ امن و امان کی بہتر صورت ِحال کی باعث سرمایہ کار اور صارف کا اعتماد بڑھ رہا ہے ،مالی سال 16ء میں مزید معاشی سرگرمیوں کی امید ہے جبکہ توانائی کی فراہمی میں بہتری سے ہونے کے باعث بڑے پیمانے پر اشیاء سازی کی نمو میں مزید اضافے کی توقع ہے،چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت انفراسٹرکچر کی ترقی اور توانائی کے منصوبوں پر عملدرآمد سے سرمایہ کاری کے ماحول میں اور بہتری آئے گی ،اگست 2015 ء میں سال بسال مہنگائی کم ہوکر 1.7فیصد ہوگئی اور تازہ ترین سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ آئندہ مہینوں میں گرانی کی توقعات میں کمی آئے گی تاہم ٹیکسٹائل کے شعبے میں ساختی (structural) رکاوٹیں اور اجناس کی کم عالمی قیمتی برآمدات کے لیے بدستور بڑا خطرہ ہیں ۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ہفتہ کو آئندہ دوماہ کے لئے جاری کی گئی مانیٹری پالیسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست 2015 ء میں سال بسال گرنی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) کم ہوکر 1.7فیصد ہوگئی جبکہ اگست 2014ء میں7.0فیصد تھی۔ گذشتہ کئی ماہ کے دوران کمی کے اس رجحان کے بعد اگست 2015ء میں بارہ ماہ کی حرکت پذیر اوسط (moving average)گرانی بلحاظصارف اشاریہ قیمت کم ہوکر 3.6فیصد ہوگئی جبکہ اگست 2014ء میں8.4فیصد تھی۔

اگست 2015ء میں دیگر اظہاریے بھی کم ہوئے جیسے قوزی گرانی (core inflation)کے پیمانے۔ گرتی ہوئی گرانی کی بڑی وجوہات سازگار رسدی دھچکے اور طلب کے انتظام کی پالیسیاں ہیں۔ موجودہ سست رفتاری کا سبب زیادہ تر تلف پذیر (perishable) غذائی اشیا کی مناسب طور پر فراہمی اور تیل کی گرتی ہوئی بین الاقوامی قیمتوں کی صارفی قیمتوں کو منتقلی ہے۔مانیٹری پالیسی رپورٹ کے مطابق موجودہ رجحانات کے تسلسل کے ہمراہ مجموعی طلب میں کسی قدر اضافہ مالی سال 16ء میں گرانی کی راہ کا تعین کرے گا۔

قدرتی اور فشردہ قدرتی گیس (compressed natural gas) کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور ان کے دورِ ثانی (second round) کے ممکنہ اثرات کی تیل کی پست عالمی قیمتوں سے تلافی ہوجائے گی جو ابھی تک پست ترین سطحپر نہیں پہنچی ہیں۔ چنانچہ مالی سال 16ء کے لیے گرانی بلحاظصارف اشاریہ قیمت کے حوالے سے اسٹیٹبینک کی پیش گوئی تبدیل نہیں ہوئی اور وہ 4.5سے 5.5فیصد کی حدود میں ہے جو 6فیصد کے سالانہ منصوبے کے ہدف سے کم ہے تاہم اس پیش گوئی میں اضافے کے دوخطرات ہیں حکومت کا بجلی پر زر اعانت میں کمی کے ساتھ اس کے نرخوں میں اضافے کا منصوبہ اور کم غذائی قیمتوں کے فصلوں کی پیداوار پر ممکنہ منفی اثرات۔

پیش گوئی میں کمی کے خطرات میں تیل سمیت اجناس کی عالمی قیمتوں کی بحالی کا کم امکان شامل ہے۔ موجودہ رجحانات اور پیش گوئیوں کے تناظر میں کمی کے خطرات اضافے کے خطرات سے زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ ستمبر 2015ء کے تازہ ترین آئی بی اے اسٹیٹبینک سروے سے پتہ چلا ہے کہ آئندہ مہینوں میں گرانی کی توقعات میں کمی آئے گی۔مانیٹری پالیسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 16ء کے آغاز میں بیرونی جاری کھاتے (external current account ) کی صورتِ حال پچھلے مالی سال کے آخر سے زیادہ مختلف نہیں۔

جولائی 2015ء میں برآمدات میں پھر کمی آئی تاہم تیل کی درآمدی ادائیگیوں اور کارکنوں کی ترسیلات ِزر کے باعث بیرونی جاری کھاتے کے خسارے میں تھوڑی بہتری دکھائی دی۔ ان متغیرات کے سازگار رجحانات کی وجہ سے آخر مالی سال 15جتنا جاری کھاتے کا خسارے رواں مالی سال میں قابل انتظام معلوم ہوتا ہے۔ اس بات کومالی سال 16ء میں سرمایہ و مالی کھاتے کے متوقع فاضل سے تقویت ملتی ہے جس کا سبب یورو،صکوک بانڈکی مجوزہ آنے والی رقوم، سرکاری رقوم اور ای ایف ایف پروگرام کے تحت آئی ایم ایف کی بقیہ فنڈنگ ہے۔

اس سے نہ صرف مجموعی توازن ادائیگی کا فاضل پیدا ہوگا بلکہ پچھلے دو سال کے دوران زر ِمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کا سلسلہ برقرار رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔مانیٹری پالیسی رپورٹ کے مطابق بیرونی شعبے کی پائیداری کے لیے برآمدات اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاریوں میں اضافے ازبس ضروری ہیں۔ اس حوالے سے امن و امان کی صورت ِحال میں حالیہ بہتری اور معاشی استحکام کے تسلسل کی وجہ سے طویل مدتی بیرونی سرمایہ آنے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔

مزید برآامریکی معاشی بحالی اور یورپی یونین کی جی ایس پلس اسکیم سے مزید فوائد کے ذریعے پاکستانی برآمدات کو تقویت مل سکتی ہے جس کی بہت ضرورت ہے تاہم خصوصاً ٹیکسٹائل کے شعبے میں ساختی (structural) رکاوٹیں اور اجناس کی کم عالمی قیمتیبرآمدات کے لیے بدستور بڑا خطرہ ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یکم جولائی سے 28اگست 2015ء کے دوران زر ِوسیع (M2)میں سکڑاؤ زیادہ تر بینکاری نظام کے خالص ملکی اثاثوں میں کمی کا نتیجہ تھا۔

جدولی بینکوں سے حکومتی قرض میں اضافے کی تلافی اس مدت کے دوران اسٹیٹبینک کو رقوم کی واپسی اور پاکستان انوسٹمنٹبانڈز (PIBs)کی میعاد پوری ہونے کی وجہ سے ہوگئی۔ جولائی مالی سال 16ء مینجی شعبے کے کاروباری اداروکی اکثریت کی جانب سے جاری سرمائے کی واپسی قرضے کے معمول کے سائیکل کے مطابق ہے۔ توانائی کی پیداوار و تقسیم، کیمیکلز اور خدمات کے شعبوں کی جانب سے معینہ سرمایہ کاری(fixed investment ) قرضے کا استعمال آئندہ مہینوں میں ن کی پیداواری سرگرمیوں میں ممکنہ اضافے کا اشارہ ہے۔

چنانچہ آئندہ دنوں میں قرضے کے استعمال میں مزید استحکام کی توقع ہے۔مزید یہ کہ زری حالات نرمی کے باوجود ابھی تک کڑے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ قرض گاری (lending) کی حقیقی شرحیں دسمبر مالی سال 15ء سے 4فیصد کے آس پاس ہیں۔ مالی بازاروں میں سیالیت (liquidity) کی مجموعی صورتِ حال جولائی 2015ء کے بعد کی زری پالیسی کی مدت میں دباؤ میں رہی۔ کمرشل بینکوں سے حکومتی قرضوں، عید کے موقعے پر نکلوائی گئی رقوم اور موسمی عوامل کے باعث بینکوں سے بعض امانتوں کے نکلوائے جانے سے مالی بازار ِزر میں سیالیت کی کمی بڑھ گئی۔

سیالیت کی قلّت کے پیش نظر اسٹیٹ بینک مارکیٹ کو تقویت دیتا رہا اور بازار ِزر کی شبینہ شرحکو حدود میں رکھاتاہم امن و امان کی بہتر صورت ِحال کی بنا پر سرمایہ کار اور صارف کا اعتماد بہتر ہورہا ہے۔ بڑے پیمانے پر اشیا سازی (Large-scale Manufacturing ) کی نمو 3.3فیصد درج کی گئی تھی، اب توانائی کی فراہمی بہتر ہونے کے باعثمزید بڑھنے کی توقع ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ بالا معاشی حالات کے پیش نظر اسٹیٹبینک کے مرکزی بورڈآف ڈائریکٹرز نے ایس بی پی پالیسی ریٹ6.5فیصد سے 50بی پی ایس کم کرکے 6.0فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔