حکمرانوں نے غریب کسانوں، مزدوروں سے ان کا حق چھین لیا ہے‘ حکومت غلط پالیسیاں بنا رہی ہے ‘ بلاول بھٹو زرداری،آج میری خوشی کا دن ہے کہ میں لاہور میں کھڑے ہو کر اپنے پنجاب کے جیالوں سے مخاطب ہوں‘ (ن) لیگ کی حکومت سرمایہ داروں کی حکومت ہے، یہ لاہور شہر جو زندہ دلوں کا شہر ہے‘ پاکستان کا دل ہے‘ جمہوریت پسندوں کا شہر ہے اور ترقی پسندوں کا شہر ہے اور جو داتا کی نگری ہے ، لاہور کو رجعت پسندوں اور آمریت کے حوالے کر دیا گیا‘ ہماری فوج ایک طرف سرحدوں پر ان دشمنوں کو للکار رہی ہے دوسری جانب وہ دہشت گردوں سے لڑ رہی ہے، آپ ہمیں میٹرو بس دکھا رہے ہیں، اورنج لائن دکھا رہے ہیں میں کسانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ بلاول بھٹو زرداری آپ کے ساتھ کھڑا ہے، حکومت کسانوں کو ان کی اجناس کی صحیح قیمت ادا نہیں کر سکتی تو ان کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں‘ بلاول ہاؤس لاہور میں پیپلز ورکرز کنونشن سے خطاب

اتوار 13 ستمبر 2015 10:07

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13ستمبر۔2015ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آج میری خوشی کا دن ہے کہ میں لاہور میں کھڑے ہو کر اپنے پنجاب کے جیالوں سے مخاطب ہوں۔ یہ لاہور شہر جو زندہ دلوں کا شہر ہے‘ پاکستان کا دل ہے۔ جمہوریت پسندوں کا شہر ہے اور ترقی پسندوں کا شہر ہے اور جو داتا کی نگری ہے مگر اس لاہور کو رجعت پسندوں اور آمریت کے حوالے کر دیا گیا۔

ہماری فوج ایک طرف سرحدوں پر ان دشمنوں کو للکار رہی ہے دوسری جانب وہ دہشت گردوں سے لڑ رہی ہے۔ ان حکمرانوں نے غریب کسانوں، مزدوروں سے ان کا حق چھین لیا ہے۔ حکومت غلط پالیسیاں بنا رہی ہے اگر حکومت کسانوں کو ان کی اجناس کی صحیح قیمت ادا نہیں کر سکتی تو ان کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔

(جاری ہے)

آپ ہمیں میٹرو بس دکھا رہے ہیں، اورنج لائن دکھا رہے ہیں میں کسانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ بلاول بھٹو زرداری آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔

(ن) لیگ کی حکومت سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔ میاں صاحب! آپ نے کہا تھا کہ اگر ہم نے 6 ماہ میں بجلی بحال نہ کی تو میرا نام بدل دینا۔ بتائیں میاں صاحب اب آپ کو کس نام سے پکاروں۔ نندی پور پاور پروجیکٹ میں کرپشن پر نیب کو ہاتھ نہیں ڈالتی۔ کیا اب اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں یا پھر ان کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ اب فیصلہ کیا گیا جب ہمارے مستقبل کو قتل کیا گیا، ہمارے بچے سکول گئے اور واپس نہ آئے۔

وہ سارے شہید میرے شہید ہیں جو لڑتے ہوئے سرحدوں اور وزیرستان میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور آج ہم پر دہشت گردی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ہمیں دہشت گردوں کے ساتھ مت ملاؤ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جو مرضی کرو مگر عدل کے ساتھ اور قانون کے دائرے میں۔ میرے نانا کو شہید کیا گیا اور میری ماں کو شہید کیا گیا لیکن آج تک ان کے ریفرنس نہیں کھلے۔

ان خیالات کا اظہار بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز بلاول ہاؤس لاہور میں پیپلز ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ غریب کو اس کی محنت کا حق نہیں مل رہا۔ آج کسان کے بارے میں عوام دشمن پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔ اگر آج آپ کسانوں کو ان کی اجناس کی صحیح قیمت نہیں دے سکتے تو پھر آپ کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ میٹرو بس دکھا رہے ہو، اورنج لائن دکھا رہے ہو، یہ سب دکھا رہے ہیں حکمرانوں کو کہتا ہوں کہ اپنی سمت درست کر لو۔ اس کے بعد انہوں نے علامہ اقبال کا شعر پڑھا:
جس کھیت سے میسر نہ ہو کسان کو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
بلاول بھٹو نے کہا کہ (ن) لیگ کی پالیسی اور پیپلز پارٹی کی پالیسی میں کیا فرق ہے۔

محترمہ کے عوامی دور میں جب انہوں نے کہا کہ مجھے اگر یہ آلو سمندر میں کیوں نہ پھینکنا پڑیں میں اپنے کسانوں کو اس کی قیمت پوری دوں گی۔ یوں انہوں نے آلو کسانوں سے خریدا اور اس پر کسان خوش ہو گیا کیونکہ وہ اپنے کسانوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ بلاول نے کہا کہ ناقص پالیسیوں کی وجہ سے خادم اعلیٰ تو اچھے خادم ہیں اور نہ ہی اچھے حکمران۔

ہماری حکومت میں چاول اور گندم کی قیمت اچھے داموں خریدی جاتی تھی اور اب یہ اجناس مہنگی ہو گئی ہیں۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس کا فائدہ عوام کو نہیں مل رہا۔ پٹرول ایک لیٹر پر 3 روپے کمی ہوئی جبکہ یہاں فرق نہیں پڑا۔ تاجر جو محنت سے کماتا ہے وہ (ن) لیگ والے لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ تاجر دوست حکومت ہے لیکن آج وہ تاجر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔

میاں صاحب میٹرو بسوں سے ملک نہیں ہوتا ملک عوام سے ہوتا ہے۔ ترقی عوام سے ہوتی ہے۔ آج غریب اور امیر میں فرق بڑھتا جا رہا ہے اور یہ سب حکومت کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ کشکول تورنے والے آج پھر کشکول تھامے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے کسی علاقہ کو آپ نے بجلی سے منور نہیں کیا۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ 6 ماہ میں بجلی لانے کا اور اگر بجلی نہ آئی تو میرا نام بدل دینا لہٰذا میاں صاحب اب میں آپ کو کس نام سے پکاروں۔

80 ارب کی رقم آپ نے بغیر بجلی کے بجلی گھر والوں کو دے دی۔ نندی پور پاور پروجیکٹ کا کیا ہوا جس کا افتتاح بڑی دھوم دھام سے کیا گیا تھا۔ نندی پور پاور پلانٹ 21 ارب سے 81 ارب میں کیسے بنا۔ نیب اس کی انکوائری کیوں نہیں کر رہی۔ اب اس کے ہاتھ پاؤں کیوں لرز رہے ہیں اور ٹانگیں کیوں کانپ رہی ہیں۔ آپ نے عوام سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ادارے کا سربراہ میرٹ پر لگایا جائے گا اور پھر اس وقت تک ان اداروں میں تعیناتی نہیں ہو سکتی جب تک میاں صاحبان کو اپنا کوئی رشتہ دار یا دوست نہ مل جائے۔

کئی ادارے بغیر سربراہ کے کام کر رہے ہیں۔ پی آئی اے اور سٹیل ملز کا حال دیکھ لیں۔ ہم یہ سب نہیں ہونے دیں گے۔ میرے دوستو یہ کہا جا رہا ہے کہ ضرب عضب اب شروع ہواحالانکہ ضرب عضب تو سات برس قبل شروع ہو گیا تھا۔ اب کہا جاتا ہے کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں میں کہتا ہوں کہ آپ اب میرے پیج پر آئے ہیں۔ میں نے دہشت گردوں کو اس وقت للکارا تھا اور یہ اسوقت کہا تھا کہ ان پر یقین نہ کرو اب فیصلہ کیا جب ہمارا مستقبل قتل ہوا۔

ہمارے بچے سکول گئے اور واپس نہیں آئے۔ ہم پہلے بھی اپنے بچوں کے ساتھ تھے اور آج بھی ہیں۔ وہ سارے شہید میرے ہیں جو لڑتے لڑتے شہید ہوئے اور آج ہم پر دہشت گردی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ بلاول نے کہا کہ میں بلاول بھٹو شہیدوں کا وارث ہوں۔ مجھے دہشت گردوں کے ساتھ مت ملاؤ۔ قانون کے تقاضے پورے کرو اور دشمنوں کو پکڑو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ جو کرنا ہے کرو لیکن عدل کے ساتھ، میں تو صرف انصاف مانگتا ہوں۔

جب میرے نانا اور میری ماں کو قتل کیا گیا میں صرف انکا انصاف مانگتا ہوں۔ اب سے نہیں اس وقت سے جب وہ دونوں وزیراعظم شہید ہوئے۔ اس وقت سے قائد عوام کے ریفرنس سرد خانے میں پڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سیاست غریبوں، مزدوروں، کسانوں اور پسے ہوئے لوگوں کے ساتھ ہے۔ 1997ء میں شہید بھٹو نے سرمایہ داروں کے خلاف نعرہ بلند کیا تھا۔ سرمایہ داروں کا نظام نہیں چلے گا۔ جو کسان کا دشمن ہے اس سے کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ آخر میں بلاول بھٹو نے بھٹو دے نعرے وجن گے کا نعرہ لگایا جس پر جیالوں نے بھی نعرے لگائے اور سارا پنڈال نعروں سے گونج اٹھا۔