ملک میں سستااورفوری انصاف کسی کونہیں مل رہا،جسٹس جواد خواجہ،ایسا نظام جو سستا اور فوری انصاف مہیا نہیں کر رہا اسے بدلنا حکومت، ریاستی اداروں اور معاشرے کے ہر فرد بشمول وکلاء اور ججوں کے لئے ضروری ہے، دعویٰ عدالت میں دائر ہونے سے لے کر سپریم کورٹ میں اُس کا حتمی فیصلہ ہونے تک اوسطاً پچیس سال لگ جاتے ہیں،سبکدوش چیف جسٹس کا فل کورٹ سے خطاب

جمعرات 10 ستمبر 2015 09:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10ستمبر۔2015ء )چیف جسٹس جوادایس خواجہ نے اپنی ریٹائرمنٹ پر ہونے والے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں موجودہ عدالتی اورانصاف کے نظام پر سوالات اٹھادیے ہیں اورکہاہے کہ تسلیم کرتاہوں اس ملک میں سستااورفوری انصاف کسی کونہیں مل رہا ۔ہمیں اس بات کا اقرار کرنے میں تأمل نہیں ہونا چاہئیے کہ ایسا نظام جو سستا اور فوری انصاف مہیا نہیں کر رہا اسے بدلنا حکومت، ریاستی اداروں اور معاشرے کے ہر فرد بشمول وکلاء اور ججوں کے لئے ضروری ہے۔

جس قوم کے افراد عدل و انصاف کے قائل نہ ہوں اور وہ خود جھوٹ بولیں ، رشتے دار، عزیز ، ہمسائے کا حق ماریں اور یہ برائیاں ساری قوم کی سوچ میں سرایت کر جائیں تو پھر انصاف کی فراہمی ممکن نہیں اور انصاف کی توقع بھی عبث ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ چار دہائیوں میں رائج نظام میں بہتری نہیں بلکہ بتدریج انحطاط واقع ہوا ہے۔ ان اداروں کو اور خود معاشرے اور سماج کو شعوری طور پر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسی خود نگری اور احساس زیاں ہی بہتری کی طرف پہلا قدم ثابت ہوتے ہیں۔

ایک دعویٰ کے عدالت میں دائر ہونے سے لے کر سپریم کورٹ میں اُس کا حتمی فیصلہ ہونے تک اوسطاً پچیس سال لگ جاتے ہیں یہ اوسط ہے۔ بہت سے دعوے تو تین تین پشتوں تک کھنچ جاتے ہیں۔بے لاگ خود احتسابی کے بغیر ہم نظام کو بہتر نہیں بنا سکتے۔ پولیس، وکلاء اور عدالتوں سے ہی متلاشیان انصاف کو کوئی خاص ہمدردانہ رویہ نہیں ملتا۔ بعض اوقات میں نے عدل کے ایوانوں میں خوف کے کئی روپ دیکھے ۔

اس خوف کا سبب کہیں دھونس اور دباؤ تو کہیں پیسے والوں یا اثر رسوخ والوں کی ناراضگی کا خوف ۔ یہ عوامل ماضی قریب کی تاریخ میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ایوانِ عدل کی رونق بے خوف چہروں سے ہی ہوتی ہے۔اس چمک کو نکھارنے کے لئے معاشرے کے ہر فرد پر اور بلخصوص وکلاء اور ہم ججوں پر لازم ہے کہ ہم سب مل کراور بے خوف ہو کر اس پیشہ وارانہ بد عملی اوربے راہ روی کا مقابلہ کریں انھوں نے مزید کہاکہ دید ومروت“ عدلیہ کے لئے بہت خطرناک چیز ہے کیونکہ یہ ہمیں بے باک اور دلیرانہ فیصلے کرنے سے روک سکتی ہے اور یوں نظامِ عدل میں انحطاط کا سبب بن سکتی ہے عدلیہ کو انصاف مہیا کرنے میں بے حسی حائل ہے ، اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں میں یکم جنوری 2014ء سے لے کر دسمبر 2014ء تک 50 سے زیادہ ہڑتالیں ہوئیں۔

یعنی عدالتی سال کے تقریباً ہر چوتھے دن وکلاء ہڑتال پر تھے۔ ان ہڑتالوں کی وجہ سے یا دیگر وجوہ پر التوا سے تقریباً 50 فیصد مقدمات موٴخر ہو تے رہے کیونکہ عدالتی معاونت کے لئے ایک یا دونوں فریقین کے وکیل غیر حاضر رہے۔اسی طرح وکلاء کی جانب سے حیلے بہانے بنا کر التواء لینے کی روش بھی آج ہماری عدالتوں میں عام ہے۔ جوجج مقدمات کے التواء میں اس امر سے تغافل برتے گا وہ اپنے کار ہائے منصبی کی ادائیگی سے وفا دار نہیں اور یہ تغافل جج میں بہت بڑی خامی ہے۔

ضابطہٴ اخلاق کے اس فریضے کی بجا آوری جج اکیلا نہیں کر سکتااس کام کے لئے بہر حال ہمارے نظامِ عدل میں وکلاء کی نیک نیتی، تن دہی اور فرض شناسی لازمی ہے۔ آج سے 40 سال قبل جب میں نے وکالت کا آغاز کیا تھا تو اس ملک کی عدالتوں میں ہڑتال نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ مگر آہستہ آہستہ ہڑتالوں کا وبال ہر طرف پھیل گیا۔ گزشتہ سال مرتب کی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اور حقیقت یہ ہے کہ اس پیشے کے کچھ معتبر نام بھی ایسی روش سے باز نہیں آتے۔

ظاہر ہے کہ وکلاء کے اس رویے کا نتیجہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی صورت میں نکلتا ہے۔ نظامِ عدل کی تباہی میں جہاں ججوں اور وکیلوں کا ہاتھ ہے تو وہیں ساتھ ساتھ اِس کی ذمہ دار حکومت یا انتظامیہ بھی ہے۔ دیوانی عدالتوں میں مقدمات کا لا متناہی سلسلہ صرف اس لئے آ رہا ہے کیونکہ سرکاری اور نیم سرکاری ادارے شہریوں کو ان کا حق دینے سے قاصر ہیں اور فوجداری مقدمات میں اگر معصوموں کو سزا اور مجرموں کو ڈھیل مل رہی ہے تو اِس کی ذمہ داری زیادہ تر پولیس اور استغاثہ کے محکموں پر عائد ہوتی ہے۔

عدالت کیا عدالت سے باہر بھی اپنے گھروں کی چار دیواری سے باہر نکل کر کسی بھی جگہ برملا سچ بولنے والے لوگوں کا فقدان ہے۔میرے لئے یہ بہانہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ سچ کی گواہی دینا آج کل بہت خطرناک ہے۔ سچ کہنا آج سے نہیں ازل سے ایک خطرناک عمل رہا ہے۔ سقراط نے حق گوئی و بے باکی کے عوض زہر کا جام پیا اور اس وجہ سے گو وہ جہانِ فانی سے 2000 سال قبل رخصت ہو گیامگراس کا نام آج تک اور رہتی دنیا تک حق گوئی کی بناء پر زندہ و جاوید رہے گا۔

حضور سرورکائناتنے سنگ زنی برداشت کی اور اپنے دندان ِ مبارک میدانِ جنگ میں شہید کروائے تھے اور قافلہِ شوق کے ، امام حسین نے توخون کا نذرانہ پیش کر دیا تھا مگرحق بات پر خاموشی اختیار نہ کی۔ وہ تحقیقاتی نظام جو دُنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے اورجو اسلامی روایتِ داد رسی وقضاسے قریب ترہے اُس کو اپنانا ہمارے لئے مفید ہو۔ تحقیقاتی نظام میں ہر شہری کی شکایت پر داد رسی خود ریاست کا ذمہ بن جاتی ہے۔

پھر خواہ وہ مفلس ونادار ہویا پیسے والا ہو۔ دونوں صورتوں میں اُسے انصاف دینا ریاست کا فرض ہوتا ہے۔اصل میں ساری بات جرات و حق کی ہے۔معاشرے میں وہ بے خوفی اور دردمندی کیسے لائی جائے جس کی ہمیں ضرورت ہے؟ اس سوال کا حتمی جواب میرے پاس نہیں مگرمیں نے اپنی زندگی کے تجربے سے دیکھا ہے کہ انسان میں بے خوفی حقیقی ایمان سے آتی ہے اور درد مندی حضور کی سُنت پر عمل کرنے سے ، جنہوں نے ہر موقع پر اور ہر غریب اور مفلس کے لئے مساوی انصاف فراہم کیا۔

وکلاء کے نظامِ احتساب میں کلیدی تبدیلیاں لائی جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی نظام کا نتیجہ ہے کہ احتساب کی روایت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے جب اِس معاملے کا نوٹس لیا تو معلوم ہوا کہ عوام الناس گزشتہ چند سالوں میں وکلاء کے خلاف بار کاؤنسلوں سے 7500 سے زائد شکایات کر چکے ہیں۔ مگر بار کاؤنسلوں نے ان میں سے کسی شکایت کی نہ تو کماحقہ تحقیق کی ہے اور نہ ہی کسی کو سزا وار ٹھہرایا ہے۔

وکلاء کے احتساب کے لئے منتخب بارکونسلوں کو اپنا طریقہٴ کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تا کہ جن فریقین مقدمہ کو وکلاء کے خلاف شکایات ہوں اُن کی داد رسی جلد اور آسان طریقے سے ہو سکے اور بد عملی میں ملوث وکلاء کے خلاف قانون کے مطابق تادیبی کارروائی ہو سکے۔ وکلاء کی اکثریت فرض شناس ہے اور نظامِ عدل میں معاونت کی خواہشمند ہے۔ اگر ہمیں پاکستان میں سستا اور فوری انصاف مہیا کرنا ہے تو وکلاء کو مستعد ہو کر اپنی صفوں میں موجود بے عملوں پر گرفت کرنی ہو گی۔

جج اپنے منصب کے حوالے سے اُس مچھلی کی مانند ہے جو شفاف شیشے کے چلو بھر پانی میں تیرتی ہے۔ ہر دیکھنے والا اس کی طرف اشارہ کر سکتا ہے ، انگلی اٹھا سکتا ہے اور اسے بُرا بھلا بھی کہہ سکتا ہے۔ لیکن وہ مچھلی ان سب باتوں کا جواب نہیں دے سکتی۔ ججوں کے ضابطہٴ اخلاق میں آرٹیکل 5 بھی شامل ہے،جس کے تحت یہ بات ضابطے کا حصہ ہے کہ وہ کھلی عدالت میں اور عوام کے سامنے اپنے فرائض کی انجام دہی کرتا ہے۔

مگر جج کے عدالت سے باہر بیانات دینے پر پابندی عائد ہے ۔ایک جج کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ عوام میں اس وقت بھی اپنی صفائی میں کچھ کہہ سکے، جب اس کے یا عدلیہ کے ادارے کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے بیانات جاری کیے جا رہے ہوں۔جج تنقید کے عادی ہوتے ہیں اور ان کے فیصلوں پر عوام اور میڈیا کو رائے دینے کا حق ہے۔ابتدامیں ازخود نوٹس لینے کامخالف تھامگر لوگوں کے مسائل ایک عام درخواست میں دیکھ کر اس کاحامی بنایہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اُس وقت میں نہ صرف سابق چیف جسٹس کی طرزِ عمل کا ناقد تھا بلکہ ذاتی طور پر اُن سے واقف نہیں تھا۔

اگر اُن سے میری ملاقات ہو جاتی تو میں تو ضرور اُنہیں پہچان لیتا لیکن وہ شاید مجھے نہ پہچان پاتے کیونکہ اپریل 2007ء سے پہلے میں اُنہیں کبھی نہیں ملا تھا۔ میں نے مارچ 2007 میں جب عدالتِ عالیہ لاہور کو خیر باد کہا تو اس کا سبب صرف یہ تھا کہ اِس عدالت کی ساکھ اور وقار پر ایسا غیر آئینی حملہ کیا گیا تھا جو عدلیہ کے سربراہ کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک کی شکل میں سامنے آیا اور یہ میری برداشت سے باہر تھا۔

ایک عدالتی سال میں سپریم کورٹ میں تقریباً 20,000 نئے مقدمات دائر ہوتے ہیں۔ عدالتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کسی بھی سال میں 30 سے زائد از خود (سووموٹو) نوٹس نہیں لئے گئے۔ لہٰذا یہ تاثر قائم کرنا کہ ایسے مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہے ، بے بنیاد ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی قلیل تعداد کے مقدموں پر نہ تو زیادہ عدالتی وقت خرچ ہوتا ہے نہ پیسہ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہی وہ مقدمات ہیں جن کی بناء پر سپریم کورٹ کو نشانہ ِ تنقید بنایا جاتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ اِس کی وجہ کم علمی ہو مگر یہ بھی ممکن ہے کہ 184(3) کے تحت گنے چنے مقدمات کی سماعت ہمارے سماج کے اُن طبقوں کو بہت گراں گزرتی ہے جو اِس نظامِ عدل کی زبوں حالی کے ذمہ دار بھی ہیں اور اس کے طفیلی بھی۔شبِ ظلمات میں جلتا ہو ایہ چھوٹا سا دیا۔ کچھ لوگوں کی آنکھوں میں شاید صرف اس لئے کھٹکتاہے کیوں کہ اِس سے اُن محروموں کی امیدیں وابستہ ہیں، جنہیں ورنہ انصاف کی کوئی بھی امید نہیں۔

انگلستان کی (Equity) عدالتوں کا تجربہ اور ارتقاء ہمارے سامنے ہے جس سے یہ عیاں ہے کہ ان عدالتوں کو اپنے اصول و ضوابط طے کرنے میں تین صدیاں لگیں۔ ہماری اپنی آئینی تاریخ میں رٹ کا اختیارِ سماعت 1956ء کے آئین میں عدالتوں کو سونپا گیا اور ساٹھ سال تک اس اختیارِ سماعت کے اصول و ضوابط طے ہوتے گئے۔ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا تو صحیح استعمال ہی 1988ء میں ہوا۔

اس وقت سے لے کر آج تک اس اختیارِ سماعت کے اصول روز بروز نظائر کی شکل میں وضع ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آخر میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میرے لئے گزشتہ سولہ سال سے زائد کے عرصے کاہر لمحہ صبر آزما اور ایک ایک گھڑی آزمائش کی گھڑی رہی ہے۔ کیونکہ یہ عہدہ اور یہ منصب میری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ عوام الناس کی امانت ہے اور بطور امین، میں عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔

آج سے سولہ سال پہلے جب میں نے پہلی بار مسندِ قضا کو قبول کیا اُس وقت میں نے پاکستان کے آئین کے تحت ایک حلف اُٹھایا تھا یہاں پر اُس آئینی حلف کے ایک جملے کو دہرانا چاہتا ہوں۔ اُس حلف میں لکھا تھا:”میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف و رعایت و بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا“۔ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عدلیہ کے ایوانوں میں بے باکی اور بے خوفی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی علم و فضل اور پارسائی کی۔

ایوانِ عدل کی رونق بے خوف چہروں سے ہی ہوتی ہے۔اس چمک کو نکھارنے کے لئے معاشرے کے ہر فرد پر اور بلخصوص وکلاء اور انصاف کی فراہمی کے لیے ایسا دل درکار ہے جو خود غرضی کی قید سے آزاد ہوجواپنوں کے علاوہ غیروں کا درد بھی محسوس کرتا ہو۔ سورة النساء کی آیت نمبر 135)کی طرف توجہ دیں۔ جس آیت کا ترجمہ درج ذیل ہے۔ ”اے ایمان والو۔ انصاف پر خوب قائم ہو جاؤ۔

اللہ کے لئے گواہی دیتے رہو۔ چاہے اِس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا فقیر ہو۔ بہرحال اللہ کو اِس کا سب سے زیادہ اختیار ہے۔ خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ ہو جاؤ۔ اگر تم ہیر پھیر کرو گے یا منہ پھیرو گے تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے“۔موجودہ نظام میں بہت مرتبہ نظر آتا ہے کہ بہت سے لوگ اس آیت کی لغویت اور معنویت سے منکر ہیں۔

متعلقہ عنوان :