اگر طالبان کی پالیسیاں پسند نہیں تو پاکستان بے شک قندھار پر بمباری کر یں، امریکی محکمہ خارجہ نے ملا عمر اور سابقہ مشرف حکومت کے درمیان بات چیت سے متعلق خفیہ مراسلہ جاری کر دیا

اتوار 6 ستمبر 2015 10:15

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6ستمبر۔2015ء) مرحوم طالبان رہنما ملا عمر نے مشرف حکومت سے کہا تھا کہ اگر اسے طالبان کی پالیسیاں پسند نہیں تو وہ بے شک قندھار پر بمباری کر یں۔ امریکا کے محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک خفیہ مراسلے کے مطابق پاکستان کے سابق چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف نے یہ بات 26 مارچ 2000 کواسلام آباد میں ایک ملاقات کے دوران سابق امریکی انڈر سیکریٹری سٹیٹ تھامس پکرنگ کو بتائی تھی۔

ملاقات میں جنرل مشرف نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی محمود کے دورہ قندھار کا حوالہ دیتے ہوئے پکرنگ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ طالبان سے نمٹنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔مشرف کے مطابق ملا عمر نے جنرل محمود سے کہا کہ وہ معذرت خواہ ہیں کہ طالبان کی پالیسیاں پاکستان کیلئے مشکلات کا سبب بن رہی ہیں اور یہ کہ اگر اسلام آباد کو ان کی پالیسیاں پسند نہیں تو وہ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ آئے اور قندھار پر بمباری کر دیں۔

(جاری ہے)

جب مشرف نے امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست رابطوں پر زور دیا تو پکرنگ نے انہیں بتایا کہ امریکا مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں طالبان کے ساتھ واشنگٹن، نیو یارک اور اسلام آباد میں براہ راست بات چیت کرتا رہا ہے۔پکرنگ نے کہا ’یہ حقیقت امریکا کیلئے خاص تشویش کا باعث ہے کہ پاکستان طالبان کا سب سے بڑا حامی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارا اچھا دوست ہمارے سب سے بدترین دشمن کا بہترین دوست ہے‘۔

پکرنگ کے مطابق، یہ ہمارے تعلقات پر ایسا پھوڑا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہوتا جائے گا۔پکرنگ نے کہا کہ امریکا کو معلوم ہے کہ آخر کیوں مشرف ٹھوس نتائج یقینی بنائے بغیر قندھار نہیں جانا چاہتے۔’تاہم، یہ ان (مشرف) کیلئے ضروری ہے کہ وہ سمجھیں کہ اسامہ بن لادن کا مسئلہ پاک-امریکا تعلقات کو کھا رہا ہے‘۔اس پر مشرف نے جواب دیا کہ وہ امریکی تشویش سے پوری طرح آگاہ ہیں اور یہ کہ وہ ذاتی طور پر تین بڑے مسائل پر طالبان کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔

پہلا مسئلہ دہشت گردی کے تربیتی کیمپ اور افغان سرزمین پر طالبان کی جانب سے پاکستانی دہشت گردوں اور مجرموں کو ٹھکانے فراہم کرنا۔ دوسرا مسئلہ امن اور تیسرا اسامہ بن لادن ہے۔مشر ف نے پکرنگ کو بتایا کہ اسامہ بن لادن کے مسئلہ پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔سابق چیف ایگزیکٹیو نے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں دورے پر آئے طالبان کے وزیر داخلہ سے ملاقات کی۔

مشرف کے مطابق، وزیر نے اس مسئلہ پر معمولی لچک دکھاتے ہوئے بن لادن کے خلاف شواہد پر غور کیلئے سعودی عرب ، پاکستان اور ممکنہ طور پر او ائی سی پر مشتمل ایک علما کونسل بنانے کے امکان کا عندیہ دیا۔مشرف نے کہا کہ طالبان بن لادن کے جرائم کے ثبوت دیکھنے پر اصرار جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس پر پکرنگ نے کہا کہ امریکا نے حال ہی میں اسامہ کے خلاف شواہد پر مبنی ایک مکمل پریزنٹیشن پاکستان کے حوالے کر دی ہے۔

پکرنگ نے کہا کہ امریکا کے خیال میں وہ پاکستان کی مدد کے بغیر اسامہ کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ ’اگر طالبان کو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا تو وہ ہماری بھی کسی بات کو سنجیدگی سے سننے میں ہچکچائیں گے‘۔جنرل محمود اور امریکی سیکیورٹی حکام کے درمیان ملاقاتوں سے پہلے پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے واشنگٹن کو بھیجے گئے ایک اور خفیہ مراسلے میں اسلام آباد کی افغان پالیسی کا مختصر جائزہ موجود ہے۔

’ اسلام آباد افغانستان میں ایک مخلص، دوستانہ، ایران اور انڈیا کی مخالف، پشتون اکڑیت اور پاکستان کے خلاف علاقائی ملکیت کے دعووٴں میں دلچسپی نہ رکھنے والی حکومت قائم کرنے کیلئے پر عزم ہے‘۔ مراسلے سے یہ بھی معلو م ہوتا ہے کہ اس پالیسی پر امریکی ردعمل میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔مراسلے میں امریکی حکام پر زور دیا گیا کہ وہ جنرل محمود سے پوچھیں کہ آیا پاکستان طالبان کا کوئی ایسا متبادل سوچ سکتا ہے جو واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں کے مفادات پورے کر سکے۔

مراسلے میں امریکی حکام سے کہا گیا کہ وہ جنرل محمود کو واضح کر دیں کہ طالبان کے اندر قیادت میں تبدیلی امریکا کے اطمینان کیلئے کافی ہو سکتی ہے۔’ہمیں جنرل محمود کو یہ عندیہ بھی دینا چاہیے کہ اگر پاکستان ہماری مدد نہیں کر سکتا تو ہم مدد کیلئے کسی اور جانب دیکھیں گے۔ اس حوالے سے امیدواروں (انڈیا، روس اور ازبکستان) کے نام ظاہر کرنا ضروری نہیں‘۔