سپریم کورٹ کے پاس بندوق نہیں کہ احکامات پر عملدرآمد کرا سکے ،چیف جسٹس ،سپریم کورٹ 408 تحصیلوں میں خود جا کر لبر افسران کی سرزنش کرکے مقرر کردہ کم از کم اجرت پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی، عملدرآمد کرانا حکومتوں کا کام ہے، صوبائی حکومتوں کا کام ہے کہ وہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹس کے ذریعے کم از کم اجرت پر عملدرآمد کرائیں، وفاق اور صوبے لاء اینڈ جسٹس کمیشن میں مشترکہ اجلاس منعقد کریں، صوبوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اگر آپ سب صوبائی خود مختاری پسند نہیں کرتے تو وفاق کو بتلا دیں کہ یہ ہمیں نہیں چاہئے،جسٹس قاضی فائز عیسی،سماعت ملتوی

جمعرات 27 اگست 2015 09:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔27اگست۔2015ء)سپریم کورٹ نے مزدور کو کم از کم اجرت دلانے کے معاملے پر کہا ہے کہ اس کے پاس بندوق نہیں ہے کہ وہ اپنے احکامات پر عملدرآمد کرا سکے۔ صوبائی حکومتوں کا کام ہے کہ وہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹس کے ذریعے کم از کم اجرت پر عملدرآمد کرائیں۔ وفاق اور صوبے لاء اینڈ جسٹس کمیشن میں مشترکہ اجلاس منعقد کریں اور مزدوروں کے حوالے سے اب تک کے کیے گئے اقدامات اور مزدوروں کے اعداد و شمار اکٹھے کریں اور ایک ہفتے میں عدالت میں پیش کئے جائیں یہ حکم چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز جاری کیا ہے ۔

چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ 408 تحصیلوں میں خود جا کر لبر افسران کی سرزنش کرتے ہوئے مقرر کردہ کم از کم اجرت پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی ۔

(جاری ہے)

عملدرآمد کرانا حکومتوں کا کام ہے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر صوبے صوبائی خود مختاری پسند نہیں کرتے تو وفاق کو بتلا دیں ۔ صوبے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کریں اور خواہ مخواہ میں وفاق پر سب کچھ نہ ڈالیں انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔

کم از کم اجرت کے مقدمے میں چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتوں نے کاغذ پر کم از کم اجرت مقرر کر دی ۔ مزدوروں کے لئے مقرر کی گئی کم اجرت میں عام آدمی کا گزارہ مشکل ہے ۔ بلوچستان کی طرف سے بتایا گیا کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ نے 300 لوگوں کے اس لئے چالان کئے ہیں کہ وہ مقرر کردہ اجرت نہیں دے رہے تھے اگر مزدور کی اجرت بنک کے ذریعے ادا کی جائے تو اعداد و شمار حاصل کئے جا سکتے ہیں مزدور کے انگوٹھے لگوانا کوئی مشکل کام نہیں ۔

کے پی کے نے کہا کہ کم از کم اجرت 15 ہزار روپے مقرر کی گئی لیکن ہائی کورٹ نے حکم امتناعی جاری کر دیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک اعداد و شمار نہیں ہوں گے اس وقت تک معاملات بہتر نہیں کئے جا سکتے ۔وہاڑی کے ایک مزدور نے بتایا کہ عدالت کی وجہ سے ہمیں پریشان کیا جا رہا ہے ۔ 3500 روپے دیتے تھے اب وہ بھی نہیں دیئے جا رہے مجھے تھپڑ مارے گئے ، پولیس ہماری نہیں سنتی کس کے پاس جائیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے حقوق بھی ہیں آپ خود تنظیم بنائیں اور منظم ہو جائیں ۔ ہم اب آپ کے ساتھ جا کر وہاڑی میں تین لوگ جا کر 408 تحصیلوں میں لیبر افسر کی سرزنش کریں ایسا ممکن نہں نہ ہی وہ ہمارا کام ہے اور نہ ہم کریں گے ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ مارچ 2016 میں مردم شماری ہو جائے اور اعداد و شمار آ جائیں تو کم از کم اجرت پر عمل کرایا جا سکتا ہے ۔

اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا ۔سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن سرور نے بتایا کہ بیورو آف عداد و شمار کا جمع کردہ ڈیٹا ہمارے کام آ سکتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبوں نے ابھی تک معلومات کیوں نہیں دی ۔ ہمیں لیٹر دیر سے ملا ہے اس وجہ سے جواب نہیں دے سکتے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اتنے خطوط آئے ہیں کہ بتا نہیں سکتے ۔ نظام لاگو کرنا ہو گا صرف تین ججز کچھ نہیں کر سکتے ۔

کے پی کے نے بھی وقت مانگا ہے ۔ رزاق اے مرزا نے بتایا کہ ہم ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مردم شماری تو بڑی بات ہے مگر ڈیٹا تو اکٹھا ہونا چاہئے ۔ ہمیں اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے 8 ماہ گزر گئے ہیں اور ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا گیا ۔یہ اعداد و شمار تو سائنسی ووٹنگ کا اعداد و شمار تو سب دے دیتے ہیں مزدوروں کا کیوں نہیں دیتے ۔ 2000 افراد کا سروے کر کے بھی آپ مزید اقدامات تجویز کر سکتے ہیں ۔

سندھ کو تو اس کا پتہ تک نہیں ہے ۔ سندھ سے قاضی شہریار نے بتایا کہ حکومت کو اس حوالے سے خط لکھا تھا ۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ وفاق کا نہیں صوبوں کا کام ہے ۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کام نہیں کر رہے ہیں ۔ صوبوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اگر آپ سب صوبائی خود مختاری پسند نہیں کرتے تو وفاق کو بتلا دیں کہ یہ ہمیں نہیں چاہئے ۔جب تک یہ خود مختاری نہیں ملی تھی آپ باتیں کرتے تھے اب آپ کو یہ سب ملا ہے تو اب آپ اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں اور سارا کچھ وفاق پر ڈال رہے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کچھ عملی طور پر بتائیں ۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ ہمارا ڈیٹا تیار ہے ۔ 31 اگست کو ہماری میٹنگ ہے اس کے بعد یہ حتمی شکل میں پیش کر دیا جائے گا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کو اگلے ہفتے رکھتے ہیں ۔عدالت نے آرڈر لکھوایا اور کہا کہ 6 اگست 2015 کو آرڈر جاری کیا تھا اس پر عمل نہیں ہوا سب صوبے حاضر ہوئے ہیں اور بتایا گیا کہ لیٹر تاخیر سے ملا تھا اس لئے جواب نہیں دے سکتے ہیں ۔

13 اگست 2015 کو بھی جواب دینا تھا نہیں دیا گیا تھا اور وہ اعداد و شمار پیش نہیں کر سکے تھے ۔صوبوں کو اطلاع وقت پر نہیں مل سکی ۔ معاملے کی سماعت کی اس دوران ہم ہدایت کرتے ہیں اسلام آباد اور صوبے کے متعلقہ حکام مشترکہ اجلاس لاء اینڈ جسٹس کمیشں میں کریں ۔ سیکرٹری بھی شرکت کریں اور صوبے متعلقہ جواب داخل کرائیں اور اس حوالے سے اپنے صوبائی ادارہ شماریات سے رابطہ کریں یہ بھی بتایا گیا کہ کم از کم اجرت نہیں دی جا رہی ہے ۔

کم از کم مقررہ کردہ اجرت دی جائے ۔قانون ہم نے نہیں بنانا ۔ یہ کام حکو متوں کا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے 4 ستمبر 2015 کو لاء اینڈ جسٹس کمیشن اور قومی جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے اجلاس طلب کئے ہیں پہلے بھی ایک اجلاس منعقد کر چکے ہیں ۔ان اجلاسوں میں تمام چیف جسٹس صاحبان اور دیگر متعلقہ حکام شرکت کریں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے قانون بنا دیا ہے اب سرکار کی ذمہ داری ختم ۔

کیونکہ سزا مقرر کر دی گئی ہے یہ نہیں دیکھنا کہ اس پر کتنا عمل ہو رہا ہے ۔عدالت نے آرڈر میں مزید کہا کہ قانون موجود ہے ۔ وفاق اور صوبے اس پر عملدرآمد یقینی بنائے ۔ اعداد و شمار دیئے جائیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس بندوق کا آپشن نہیں ہے کہ اس سے ہم دوسروں کو ہینڈ اپ کرا سکیں ۔ صوبوں نے اپنا اپنا کچھ کام کیا ہوا ہے ۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی اس کا بھی سٹیٹ بینک کے ذریعے کارڈ بنایا جائے اس سے معاملات واضح ہو جائیں گے تاہم عدالت نے سماعت ملتوی کر دی ۔