مذاکرات کیلئے آنا ہے تو صرف دہشت گردی پر بات ہوگی ، دوسرا فریق شامل نہیں کیا جائیگا، بھارت کی دوشرائط،دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے ،پاکستان شملہ معاہدے پر عمل کرے،کوئی تیسرا فریق مذاکرات کا حصہ نہیں ہوگا ،سشماسوراج ،اسلام آباد یا نئی دہلی میں ہر بات چیت کو جامع مذاکرات نہیں کہا جا سکتا،جنگ نہیں مذاکرات ہی مسئلے کا حل ہیں ، پاک بھارت رشتوں کا سفر کھڈوں بھری سڑک پرچل رہا ہے،کبھی ہچکو لے اورکبھی ٹائرپنکچرہوتے ہیں،مذاکراتی عمل چلیں گے ،رکیں گے اور پھر چلیں گے،بھارتی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس

اتوار 23 اگست 2015 09:09

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23اگست۔2015ء) بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے شرائط پیش کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ اگر مذاکرات کیلئے بھارت آنا ہے تو صرف دہشت گردی اور ایل او سی پر امن وامان سے متعلق بات چیت ہوگی نہیں تو پھر پاکستان کو بھارت آنے کی کوئی ضرورت نہیں،پاکستان شملہ معاہدے پر عمل کرے ،جب بھی مذاکرات ہوں گے صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی ہوں گے کسی تیسرے فریق کو شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی،اسلام آباد یا نئی دہلی میں ہر بات چیت کو جامع مذاکرات نہیں کہا جا سکتاہے۔

ہفتہ کے روز بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم بار بار کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں ہو سکتی اور بامعنی بات چیت دہشت گردی کے ماحول میں ممکن نہیں۔

(جاری ہے)

‘ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پر بات چیت کے بعد ہی پاکستان کے ساتھ دوسرے مسائل پر بحث ہوگی۔سشما سوراج نے ملاقات میں کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا نہیں ہوگا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اوفا میں طے ہوا تھا کہ بات چیت پہلے دہشت گردی کے معاملے پر ہو گی اور باقی مسائل پر بات بعد میں کر لی جائے گی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی کسی بھی بات چیت کو مذاکرات نہیں کہا جا سکتا۔۔۔اوفا میں جب نواز شریف اور نریندر مودی ملے تو مذاکرات کی بحالی نہیں ہوئی۔ حریت رہنماوٴں کا ذکر کرتے ہوئے سشما سوراج نے کہا، ’جو بھی بات چیت ہوگی، اس میں کوئی تیسری پارٹی شامل نہیں کریں گے۔

‘ان کا کہنا تھا کہ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان طے پایا تھا کہ ایک بات چیت دہشت گردی کے موضوع اور ایک سرحد پر کشیدگی کے حوالے سے کی جائے۔بھارتی وزیرِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی کسی بھی بات چیت کو مذاکرات نہیں کہا جا سکتا۔انھوں نے کہا کہ اوفا میں جب نواز شریف اور نریندر مودی ملے تو مذاکرات کی بحالی نہیں ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ بھارت ، پاکستان میں ہونے والی ہر بات چیت کو مذاکرات نہیں کہا جا سکتا۔ 1998 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔پاکستان کے ساتھ 8 نکات پر جامع مذاکرات ہو چکے ہیں، مسئلہ کشمیر پاکستان بھارت جامع مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہے ، دہشتگردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ 2010ء میں مذاکراتکی بحالی کا عمل شروع ہوا۔

ممبئی حملوں کے بعد مذاکرات کا سلسلہ رک گیا، انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان مذاکرات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اوفا معاہدے کے بعد نواز حکومت پر دباؤ بہت بڑھ گیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان کو23جولائی کو بھیجے والے ملاقات کے دعوت نامے کا جواب 14 اگست کو موصول ہوا اور اس سے قبل ڈی جی ایم اوز کی ملاقات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا، سشما سوراج نے کہا کہ اگر سرتاج عزیز حریت رہنماؤں سے ملاقات اور مسئلہ کشمیر پر بات نہ کریں تو انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں،انہوں نے کہا کہ جنگ کسی مسئلے کاحل نہیں ،دنیا کے ہر بڑے مسئلے کا حل مذاکرات ہی ہیں ،پاکستان اور بھارت کے رشتوں کا سفر گڑھوں بھری سڑک پر ہورہاہے، مذاکراتی عمل چلیں گے ،رکیں گے اور پھر چلیں گے ، پاکستان قومی سلامتی کی سطح پر مذاکرات سے بچنا چاہتا ہے،اگر مذاکرات کے لئے پاکستان نے ہماری 2 شرائط نہ مانیں تو بات چیت کسی صورت نہیں ہوگی،پاکستان کو جواب دینے کے لیے صرف آج کی رات ہے،پاکستان کامذاکرات کو بے نتیجہ سمجھنے کا مطلب ہے کہ انہوں نے آنا ہی نہیں تھا،بھارت مذاکرات سے نہیں بھاگ رہاہے کشمیر پر اس باربات چیت نہیں ہوگی،ہم چاہتے ہیں کہ ایل او سی اور دہشت گردی پر پہلے بات چیت ہو اس کے بعد مسئلہ کشمیر پر بھی بات چیت ہوگی ، پاکستان اوفابات چیت کی پاسداری کرتے ہوئے صرف دہشتگردی پربات کرنی ہے توآپکااستقبال کرینگے، ،بھارت میڈیا کے ذریعے سفارت کاری نہیں کررہاہے،یہ بات چیت دہشت گردی پر ہونی ہے ،ہونے دیجئے،میں کہتی ہوں کہ بات چیت صرف دہشتگردی پر ہونی چاہیے،بات چیت کا نتیجہ کبھی زیادہ اور کبھی کم نکلتا ہے،پاکستان قومی سلامتی کی سطح پر مذاکرات سے بچنا چاہتا ہے،انہوں نے کہا کہ 24جولائی کو ڈی جی بارڈرسکیورٹی فورس،ڈی جی ایم اوکی میٹنگ کیلئے بھیجا،پاکستان جامع مذاکرات سے بچ کر صرف کشمیر پر بات کرنا چاہتا ہے،23 جولائی کومذاکرات کیلئے قومی سلامتی کے مشیروں نے پاکستان کو خط بھیجا لیکن اس خط کو پاکستان 22دن تک خط لے کر بیٹھا رہا، پاکستان جامع مذاکرات نہیں چاہتا ،پاکستان نے خط کے جواب میں جامع مذاکرات کا ایجنڈا بھیج دیا،شملہ سمجھوتے کے تحت حریت کانفرنس یا کسی تیسرے کو فریق نہ بنایا جائے ،اوفا معاہدے کے تحت معاملہ دہشتگردی پر بات چیت تک محدود رہنا چاہیے، جب بھی پاکستان ، بھارت میں بات چیت ہوگی کوئی تیسرا فریق نہیں ہوگا،کشمیرسمیت تمام مسائل پربات چیت ہوگی مگراس وقت ہوگی جب دہشتگردی ختم ہو گی،بھارت مذاکرات سے بھاگنانہیں،ماحول بناناچاہتاہے جس میں مذاکرات ہوں،ممبئی حملوں کے بعد جامع مذاکرات کا سلسلہ رک گیا،1998 میں پاکستان اور بھارت میں جامع مذاکرات ہوئے ،1998 میں پاکستان اور بھارت میں جامع مذاکرات ہوئے ، ممبئی حملوں کے بعد مذاکرات کا سلسلہ رک گیا، نواز مودی ملاقات میں جامع مذاکرات کی بحالی کی بات نہیں ہوئی تھی ، مذاکرات 8 نکات پر ہوئے تھے ،پاکستان میں ہونیوالی بات چیت کومذاکرات نہیں کہا جاسکتا ، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے، قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات میں دہشت گردی کے خاتمے پربات ہونی تھی،اوفا ملاقات میں طے ہوا تھا بات چیت کے لیے پرامن ماحول بنایا جائے گا ،شملہ سجھوتے میں طے ہوا تھا کہ مذاکرات میں کوئی تیسرا فریق نہیں ہوگا ، پاکستان سے سرحدی امور،انسداددہشت گردی پربات چیت ہوگی ،دیکھتے ہیں سرتاج عزیزکیا جواب دیتے ہیں ، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ،حل بات چیت سے ہی نکلے گا ، آگرہ میں مشرف سے بات چیت بھی بے سود رہی ، پاک بھارت رشتوں کاسفر،کبھی ہچکو لے اورکبھی ٹائرپنکچرہوتے ہیں،