سپریم کورٹ نے انسانی سمگلنگ سمیت دیگر معاملات کا جائزہ لینے کے لئے دو الگ الگ کمیشن مقرر کر دیئے،سربراہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار جبکہ کمیشنز میں کے پی کے‘ بلوچستان کے لاء افسران‘ کسٹم‘ ایف ائی اے کے حکام شامل ہو ں گے ،کمیشن چمن اور طورخم بارڈر کے ذریعے ہونے والی انسانی سمگلنگ اور پاکستان چھوڑ کر جانے والے پاکستانیوں بارے تفصیلات اکٹھی کر کے تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کریں گے،عوام الناس کی اکثریت حکومتی اقدامات سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے ملک سے باہر جانا چاہتی ہے، چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ، ملک کی سالمیت اور بقاء کے لئے ہمیں اپنی سرحدوں سے انسانی سمگلنگ کو روکنا ہو گا،جسٹس دوست محمد

ہفتہ 22 اگست 2015 08:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22اگست۔2015ء) سپریم کورٹ نے چمن اور طورخم بارڈر کے ذریعے ہونے والی انسانی سمگلنگ سمیت دیگر معاملات کا جائزہ لینے اور پاکستان چھوڑ کر جانے والے پاکستانیوں بارے تفصیلات اکٹھی کرنے کے لئے دو الگ الگ کمیشن مقرر کر دیئے ہیں جن کی سربراہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کریں گے۔ دونوں کمیشنز میں کے پی کے‘ بلوچستان کے لاء افسران‘ کسٹم‘ ایف ائی اے حکام شامل ہوں گے۔

جو یکم ستمبر تک دونوں بارڈرز کا دورہ کر کے تفصیلی رپورٹ تیار کر کے معہ فوٹو گراف عدالت میں پیش کریں گے۔ ان کمیشنز کی ٹرم آف کنڈیشن سمیت دیگر معاملات طے کر دیئے جائیں گے۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بادی النظر حکومت کے عملی اقدامات اور بیانات میں گیپ نظر آتا ہے۔

(جاری ہے)

عوام الناس کی اکثریت حکومتی اقدامات سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے ملک سے باہر جانا چاہتی ہے اور کئی اس میں اپنی جانیں تک گنوا چکے ہیں۔

حکومت نے تو اقدامات کرنے نہیں۔ بنیادی انسانی حقوق‘ زندگی اور آزادی کا تحفظ کرنا اور اس بارے اقدامات کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ نفاذ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایف آئی اے کا بجٹ ناکافی ہے جس میں اضافہ ناگزیر ہے طورخم اور چمن بارڈر سے آنے جانے والوں کا کوئی ریکارڈ نہیں‘ سمگلنگ‘ انسانی سمگلنگ‘ منی لانڈرنگ تک آسانی سے کی جا رہی ہے اور کوئی روکنے والا نہیں ہے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چمن بارڈر کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔

فاٹا میں ایف آئی اے کو کارروائی کا اختیار نہیں ہے۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ ملک کی سالمیت اور بقاء کے لئے ہمیں اپنی سرحدوں سے انسانی سمگلنگ اور دیگر معاملات کو روکنا ہو گا‘ حکومت کو اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز دیئے ہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ ایف آئی اے بجت بارے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو متعلقہ حکام پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ 29 مئی 2013ء کو ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

معاون گواہوں کی گواہی ستمبر تک مکمل ہو جائے گی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر گواہی ریکارڈ کر لی گئی۔ اظہر اقبال اور علی رضا‘ ولید رضا کی شہادت ریکارڈ کر لی گئی ہے۔ ولید ابھی تک یونان میں ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کے پاس تو کافی فنڈز ہیں آپ نے اس کی گرفتاری کے لئے کیا کیا ہے۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں دو فارن آفس بھی اس میں مصروف ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ 50 سے 60 ہزار درہم دیکھ کر فیس بھی ادا کرنا پڑے گی۔

یہ کیسے باہر گیا۔ آیف آئی اے افسر نے بتایا کہ اس وقت پورا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ تفتیشی کے پاس فائل ہے جسٹس جواد نے کہا کہ ڈھائی سال میں کوئی خاطر خواہ پراگرس نہیں ہوئی۔ آپ کے پاس تو پیسہ بہت ہے آپ کا تفتیشی یونان گیا ہے کیا پولیس کے ساتھ روابط قائم کئے ہیں۔ یہ تو آپ فیصلہ کر لیں گے ٹرائل مکمل ہوتا ہے 4 گواہوں پر جرح ہونی ہے۔ عدالت نے کہا کہ آپ بیان تو دیں جسٹس جواد نے کہا کہ 11 ہزار مقدمات میں یہی صورتحال ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانیون کو بیرون ملک جانے کا بہت شوق ہے اور وہ بھی غیر قانونی طور پر شہری کئی کئی سالوں سے غائب ہیں۔ قونصلیٹ سے رابطہ کرنا چاہئے تھا۔ یورپ میں پاکستانیوں کی جانے کی تعداد زیادہ ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ میں ترکی میں گیا۔ ایک پوائنٹ … دیا ہے جہاں سے پاکستانی کشتیوں کنٹینروں میں بند ہو کر جاتے ہیں۔

وہاں سے بارڈر قریب پڑتا ہے۔ لوگ پاگلوں کی طرح جاتے ہیں 18 ارب ڈالرز بیرون ملک سے تارکین وطن بھجواتے ہیں آپ کے اس پیسہ ہے۔ انہوں نے ایک تصویر دکھائی اور کہا کہ ایف آئی اے اس طرح کے مقدمات میں کیا کر رہی ہے 60 سے 70 مقدمات ضرور ایف آئی اے کو پک اپ کرنے چاہئیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی ناک نیچے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو اس طرح کے معاملات میں ملوث ہیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل معاملات یہاں سے ہو رہے ہیں یہان سے لوگوں کو ورغلا کر لے جایا جاتا ہے۔

لوگوں کا یہ تاثر ہے کہ یہاں سے بھاگو کہ یہاں کا جہاز ڈوبنے کو ہے جان جاتی ہے جائے مگر یہاں سے نکلو۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایف آئی اے اس طرح کے مقدمات میں نجانے کیا کر رہی ہے۔ چمن میں بارڈر کام نہیں کر رہا ہے 500 یارڈ کے علاقے میں بھی آپ کسی کو نہیں آنے دیں گے۔ اس طرح سے دوسرے ممالک کیسے جانے دیں گے۔ ہم آپ کو بطور کمیشن کے کیوں نا چمن بھجوا دیں کہ آپ خود جا کر جائزہ لیں لوگ کس طرح سے بارڈر کراس کر رہے ہیں ان کو کوئی روکنے والا نہیں نا پاسپورٹ ہے نہ شناختی کارڈ چیک ہوتے ہیں۔

مانیٹرنگ سسٹم نہیں ہے چمن کی صورتحال کو سب جانتے ہیں کچھ کرنا چاہیئے یا نہیں ایف آئی اے کے افسر نے بتایا کہ یہ سب کرنا چاہئے۔ وہ افسر صرف جاتے ہیں جو بیرون ملک جانے کے متمنی ہوتے ہیں۔ جسٹس فائز نے کہا کہ باردر کراس کرنا انتہائی آسان ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اب تو رینٹ اے کار بھی مل جاتی ہیں۔ آپ کے پاس پیسہ بہت ہے۔ طورخم میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔

امیگریشن کے حوالے سے کمیشن کیوں نا مقرر کر دیں اور وہ ہمیں ان چیمبر رپورٹ دے دیں کہ بارڈرز پر کیا صورتحال ہے کتنے لوگ مر رہے ہیں۔ ایرانی تفتان بارڈر دیکھ لیں یہ بہت بری بحث ہے اس ملک کا ہر شہری جس میں آدھے شہری یہ کہتے ہیں کہ کس طرح سے یہاں سے بھاگیں جسٹس فائز نے کہا کہ صومالیہ سے بہت سے لوگ آئے ہوئے ہیں سمگلنگ دنیا بھر کے تمام ممالک میں ہوتی ہے یہاں بھی ہوتی ہے۔

یونان جانے والوے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ چمن میں جا کر چھٹی منائیں آپ کو سب کچھ پتہ چل جائے گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ بہت مستعد ہیں وہ کل ہی پتہ چل گیا تھا بیان اور رپورٹ دے دیں۔ ایف آئی اے حکام نے جواب اور رپورٹ داخل کرائی جسٹس دوست نے کہا کہ طورخم بارڈر پر صورتحال انتہائی خراب ہے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ فاٹا میں ہمارے دائرہ کار کو نہیں پڑھایا گیا۔

ایف آئی اے کے حکام نے بتایا کہ ایف آئی اے کو رسائی نہیں ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا مجھے چیک پوسٹ پر چیک کیا جائے گا۔ ایف آئی اے کے حکام نے بتایا کہ پولیٹیکل ایجنٹ ہی سارا کام کرتے ہیں وہی اجازت دیتے ہیں ایف سی حکام نے سب دیکھنا ہوتا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے پیش ہوئے اور بتایا کہ افغانستان سے آتے ہوئے پاکستان میں 500 میٹر تک چیک نہیں کیا جاتا۔

اگر لوگ اپنا رخ تبدیل کرتے ہیں تو ان کو چیک کیا جاتا ہے۔ یہ دو سال قبل کی بات ہے آجکل کیا ہو رہا ہے یہ معلوم نہیں ہے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ آپ بغیر پاسپورٹ ویزہ کے افغانستان جا سکتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کس کو کہتے ہیں داخلے کے پوائنٹس پر چیک کیوں نہیں ہے پہلے تو پہاڑی باشندے پہاڑوں کے اوپر سے چلے جاتے تھے۔

بلوچستان کے کوئی وکیل ہیں تو وہ بتا دیں کہ وہاں کیا صورتحال ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم روزانہ سن رہے ہیں کہ لوگوں کو پاکستان افغانستان آنے جانے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ قانونی طریقے سے ہی لوگ داخل ہو سکتے ہیں جسٹس دوست نے کہا کہ طورخم بارڈر پر لاکھوں روپے پولنگ ایجنٹ کو دے دیئے جاتے ہیں۔ جسٹس فائز نے اے جی سے کہا کہ کیا آپ کمیشن کے سربراہ بننا پسند کریں گے جسٹس جواد نے کہا کہ صرف دو بارڈرز چمن اور طورخم کو چیک کرانا چاہتے ہیں۔

ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ لاقانونیت کہاں تک بڑھ چکی ہے اور کیوں بڑھی ہے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ ملک کی سالمیت کے لئے ان بارڈرز کو محفوظ بنانا ضروری ہے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ خیال رکھئے گا کہ کہیں معاملات لپیٹ نہ دیئے جائیں اور آپ کے بارڈرز تک جانے سے قبل سب اچھا ہو جائے کیا یہ ملکی سالمیت کے لئے ضروری ہے یا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ساجد بھٹی کو مقرر کر دیں جسٹس فائز نے کہا کہ آپ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے اور بلوچستان ساتھ رکھ لیں فوٹو گراف ساتھ ساتھ لیں۔

پاکستان میں آنے والوں کا معاملہ ایف آئی اے کو دیکھنا ہے وہ کیا لاتے ہیں لے جاتے ہیں انہیں کسٹم دیکھتا ہے اگر اسلام آباد ائرپورٹ پر لاکھوں ڈالرز پکڑے گئے ہیں تو کنٹینروں سے اربوں ڈالرز بھی باہر جا سکتے ہیں۔ مگر اس سے قبل ججز نے کافی دیر تک کمیشن کے قیام بارے تفصیل سے مشاورت کی جسٹس دوست نے کہا کہ 100 سے زیادہ بار امیگریشن حکام اور جانے والوں کے درمیان ٹکرا ہوا ہے۔

اعظم سواتی نے بتایا کہ 10 سے 15 سال ہو گئے ایک ہی بار چمن گیا تھا ناظم الدین ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان ہیں۔ عدالت نے عمر فاروق آدم ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے سے کہا کہ آپ پھر چمن جانا چاہیں گے اس پر انہوں نے کہا کہ اگر آپ کہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہمیں کسٹم اور دیگر حکام کی ضرورت ہو گی ایڈیشنل اٹارنی جنرل مین سے کسی ایک کو مقرر کرنا ہو گا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ رانا وقار کو بھجوا دیں۔ عدالت نے حکم تحریر کرایا۔ یہ مقدمہ کچھ عرصے سے زیر سماعت ہے ہم نے کل بھی کچھ سماعت کی تھی ہم نے نوٹ کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے ہمیں زیادہ امیگریشن معاملات‘ انسانی سمگلنگ اور دیگر معاملات میں عدم دلچسپی ہے اور بھی بہت سے معاملات ہیں جن کو سننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زیادہ تر اقدامات صرف کاغذوں کی حد تک ہیں عملی طور پر کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔

سیکرٹری داخلہ سے اس کی وجہ پوچھی تھی۔ ایف آئی اے سمیت دیگر فورسز کو استعمال کرنے کی ذمہ داری داخلہ پر ہے ایف آئی اے کے حوالے سے پتہ چلا تھا کہ ان کے پاس ناکافی فنڈز ہیں سیکرٹری داخلہ نے فنانشل اعداد و شمار دیئے تھے اور کہا تھا کہ ان کے پاس کافی ذرائع ہیں ہم ان کو غلط قرار دیتے ہیں جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں اس کے مطابق مکمل بجٹ جو ایف آئیا ے کا ہے 22 کروڑ ہے جس سے انہوں نے تفتیش کرنا ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ ایف آئی اے کو تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں 22 کروڑ کے بجٹ میں 11 ہیڈز پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے سارے سال کے لئے ملک بھر میں تفتیش کے لئے صرف 16 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۰ سیکرٹری داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ اصافی رقم بھی حاصل کر سکتے ہیں اور بھی ہیڈز ہیں جن سے یہ رقم حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسرے ہیڈز کو بھی تفتیش میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ہیڈ آف اکاؤنٹس وظائف‘ کیش ایوارڈز وعیرہ شامل ہیں۔

مزید تفصیلات ہمیں بتائی ہیں کہ بجث ناکافی ہے۔ ہم جس مقدمے کو بھی اٹھاتے ہیں اس میں یہ نظر آتا ہے کہ لوگ پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں اور باہر جانا چاہتے ہیں اس کے لئے وہ لانچز‘ کنٹینرز استعمال کر تے ہیں اس حوالے سے وہ پاک افغان سرحد اور چمن استعمال کرتے ہیں۔ ان پاکستانیوں کی زندگیوں کو محفوظکرنا ضروری ہے۔ جو غیر قانونی طور پر پاکستان سے جانا چاہتے ہیں۔

عابد حسین کے مقدمے میں میڈیا اور دیگر اخبارات میں آئے روز خبریں چھپتی ہیں اور قانون کی عملداری کی کمی ہے۔ اس طرح کے مقدمات میں اس وقت تک کچھ نہیں کیا جا سکتا جب تک معاملات کی تہہ تک نہ پہنچا جائے۔ اگر ایف آئی اے جو وزارت داخلہ کے ساتھ منسلک ہے ایف آئی اے اپنے قوانین پر عملدرآمد کرائے۔ دہشت گردی‘ سمگلنگ کے خلاف بھی انہوں نے کام کرنا ہوتا ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستانی سرحدوں پر قانون کی عملداری نظر نہیں آٹی فاٹا میں ایف آئی اے کو کارروائی کا اختیار نہیں ہے اسی طرح کی ملتی جلتی صورتحال چمن کی بھی ہے جو افغانستان بارڈر پر واضح ہے۔ یہ بارڈر بھی بغیر آیف آئی اے کے ہے۔ اگرچہ بتایا گیا ہے کہ ایک پوسٹ واقع ہے تاہم ان کے پاس داخل ہونے اور جانے والوں کے کوئی اعداد و شمار کا ریکارڈ نہیں ہے۔

طورخم اور چمن میں مانیٹرنگ کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ پاکستان میں داخل ہونا اور ان سرحدوں سے باہر جانا مشکل نہیں ہے۔ بادی النظر میں ہمیں حکومت کے عملی اقدامات اور بیانات میں گیپ نظر آتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس بارے لوکل کمیشن بنایا جائے جو بنیادی حقوق‘ انسانی زندگی اور آزادی کے لئے لازم ہیں کے تحفظ کے اقدامات کئے جائیں۔

ہم درج ذیل کمیشن مقرر کرتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا محمد وقار‘ عمر فاروق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے‘ ڈائریکٹر ایف آئی اے ظفر شاہ‘ کسٹم افسر چمن کے لئے بطور کمیشن کام کریں گے۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شاہد‘ کشم اور دیگر حکام شامل ہوں گے دو کمیشن وزٹ کریں گے طورخم اور چمن کا اور تفصیلی رپورٹ مرتب کریں گے فوٹو گراف بھی بنائے جائیں گے۔

ریفرنس کے قواعد و ضوابط اور سرائط بھی بتا دیں گے۔ دونوں کمیشن اپنی رپورٹس 2 ہفتوں میں دیں گے۔ یکم ستمبر کو رپورٹ دیں گے جسٹس جواد نے کہا کہ آگ لگی ہوئی ہے عابد کا بھائی امجد حسین سمندر میں مر گیا۔ وہ اس ملک سے جا رہاتھا۔ اڑھائی سال گزر گئے امجد کی بہنیں بھائی اور بچے بھی ہیں۔ اس سرکار نے تمہارے لئے کچھ نہیں کرنا اس لئے وہ جا رہا تھا۔