این اے قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے فوجداری قانون میں ترامیمی بل کی منظوری دیدی، بچوں کو ورغلا کر ویڈیو و تصاویر بنانے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ، بچوں کے ساتھ جان بوجھ کر تشدد اور نازیبا حرکت پر تین سال قید اور پچاس ہزار تک جرمانہ ہو گا ، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر عمر قید کی سزا کی بھی منظوری ، اب بچوں سے زیادتی کے مرتکب افراد کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا اور گرفتاری بھی ناقابل ضمانت ہو گی ،قائمہ کمیٹی کا جلاس ، فوجداری قانونی ترمیمی بل 2015 پر غور

جمعہ 21 اگست 2015 08:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21اگست۔2015ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے فوجداری قانون میں ترامیم کے بل کی منظوری دے دی ہے بل کے مطابق بچوں کو ورغلا کر ویڈیو و تصاویر بنانے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا بچوں کے ساتھ جان بوجھ کر تشدد اور نازیبا حرکت پر تین سال قید اور پچاس ہزار تک جرمانہ ہو گا جبکہ کمیٹی نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر عمر قید کی سزا کی بھی منظوری دے دی ہے اب بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکے گا اور گرفتاری بھی ناقابل ضمانت ہو گی ۔

جمعرات کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین بشیر محمود ورک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں فوجداری قانونی ترمیمی بل 2015 پر غور و خوص کیا گیا اجلاس میں وزارت قانون و انصاف کی جانب سے بچوں کو جرم ذمہ دار قرار دینے کی کم از کم عمر دفعہ 82 کے تحت سات سال سے بڑھا کر دس سال کرنے اور دفعہ 83 کے تحت 12 سے بڑھا کر 14 سال بالغ تصور کرنے کی تجویز پیش کی گئی جس پر جماعت اسلامی کی عائشہ سید نے تحفظات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اب تک دھماکوں میں ملوث جتنے بھی افراد کو پکڑا گیا ہے ان کی عمریں 8 سے 10 سال کے درمیان تھیں بل کو منظور کرنے سے پہلے ملک کے امن و امان کی صورت حال کو بھی سامنے رکھنا ہو گا ۔

(جاری ہے)

جسٹس(ر) افتخار چیمہ نے کہاکہ 12 سے 14 سال کا بچہ بالغ ہو جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ بالغ بچوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہیں قانون میں اس ترمیم سے اس کا استعمال خطرناک طریقے سے شروع نہ ہوجائے اس لئے بل کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہوں ۔معین وٹو نے کہا کہ اس بل پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس بل پر بیرون ملک سے بھی تجویز آئی تھی اور ہم بین الاقوامی اداروں سے علیحدہ نہیں تجویز آئی تھی اور ہم بین الاقوامی اداروں سے علیحدہ نہیں رہ سکتے ۔

ڈائریکٹر جنرل قانون و انصاف محمد حسین منگی نے کہا کہ ملک میں بچوں کے ساتھ تو زیادتی ہو رہی ہے پشاور کے سینما گھروں ، ہائی ویز اور سٹریٹ چلڈرن سمیت پیرودھائی اڈے پر بچوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اس لئے بل کا منظور ہونا اہم ہے بل کے مطابق بچوں کو ورغلاء کر جنسی زیادتی میں شامل کرنے ، فلم یا وڈیو یا کمپیوٹر کے ذریعے تیار کی گئی پر سزا ایک سے سات سال قید اور جرمانہ ایک سے پانچ لاکھ روپے کرنے کی تجویز پیش کی جسے کمیٹی نے ضابطہ فوجداری قانون میں ترامیم کے بل کو منظور کر لیا ترامیم کے بعد بل کے مطابق بچوں کو ورغلاء کر ویڈیو یا تصاویر بنانے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔

بچوں کے ساتھ جان بوجھ کر تشدد فحاش حرکت پر تین سال قید اور 50 ہزار تک جرمانہ ہو گا جبکہ کمیٹی کی بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکے گا اور ایسے افراد کی گرفتاری ناقابل ضمانت ہو گی اس کے علاوہ قانون و انصاف میں بچوں کے حقوق کے لئے کمیشن بنانے کی تجویز بھی وزارت نے پیش کی کہ اقوام متحدہ کا پاکستان ممبر ہے انہوں نے کمیشن بنانے کا کہا جس پر جماعت اسلامی کی عائشہ سید نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی وزارت میں انسانی حقوق کے لئے کام ہونا نظر نہیں آتا ہے اور پھر سے نیا کمیشن بنا کر بجٹ میں اضافہ کرنا ہو گا ۔

این سی ایس ڈبلیو پہلے خواتین کے حقوق کو دیکھ رہا ہے تو اس میں بچوں کو بھی شامل کر دیا جائے جس پر چیئرمین نے کہا کہ ہمارے قانون میں انسانی حقوق کے لئے قوانین موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ادارے نوٹس نہیں لیتے ہیں جبکہ محمود بشیر ورک نے فوجی عدالتوں کے فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ملٹری کورٹس کو برقرار رکھنے کے فیصلہ قابل ستائش ہے ۔ سپریم کورٹ کے رویئے میں کافی تبدیلی آئی اور سپریم کورٹ نے فوجداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ملٹری کورٹس کو برقرار رکھا ہے ۔