پنجاب،سندھ میں بلدیاتی انتخابات موخر کرنے کی ٹھوس وجوہات بتائیں؟سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے جواب طلب کر لیا،صوبے،الیکشن کمیشن جواب 18 اگست تک جمع کروائیں،سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے 15 سماعتیں کر چکی اس کے باوجود انتخابات نہیں کرائے جا رہے،نجاب نے ناکامی تسلیم کر لی، سندھ حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں، دونوں حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر عوام سے معافی مانگیں،جسٹس جواد خواجہ

جمعہ 14 اگست 2015 09:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14 اگست۔2015ء) سپریم کورٹ نے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد بارے اب تک کئے گئے اقدامات اور انتخابات موخر کرنے کی ٹھوس وجوہات پر مشتمل جواب الیکشن کمیشن آٰف پاکستان سے طلب کیا ہے اور ہدایت کی ہے صوبے اور الیکشن کمیشن اس سلسلے میں اپنے جوابات 18 اگست تک جمع کروائیں جبکہ تین رکنی بینچ کے سربراہ اور نامزد چیف جسٹس پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اب تک 15 سماعتیں کر چکی ہے مگر اس کے باوجود بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے ہیں ۔

الیکشن کمیشن کے مجوزہ شیڈول میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں ، پنجاب نے ناکامی تسلیم کر لی ۔ سندھ حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔

(جاری ہے)

دونوں حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر عوام سے معافی مانگیں ۔ صاف صاف کہہ دیں کہ لوگوں کو ان کے حقوق نہیں دینے اور یہ بھی عوام کو بتا دیں کہ ہم انتخابات کرانے کو تیار نہیں ۔ ایم کیو ایم کے استعفوں کا معاملہ سیاسی ہے اس میں نہیں پڑیں گے ۔

انتخابات میں تاخیر کیوں ہوئی ایک ایک دن کا حساب دینا پڑے گا ۔جسٹس جواد ایس خواجہ کا مزید کہنا تھا کہ ایران نے حالت جنگ میں رہنے کے باوجود انتخابات کرائے ۔ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے ۔ دوران سماعت سندھ حکومت کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ فتح محمد نے عدالت کو بتایا کہ ان کا صوبہ بہت مشکل ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا سیاستدانوں کی نااہلی ہے فی الحال بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بہت ہی مشکل ہے اور اگر ایم کیو ایم کے اراکین کے استعفے منظور ہو جاتے ہیں تو سندھ حکومت کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی ۔

منیر پراچہ نے کہا کہ جس طرح کے حالات چل رہے ہیں انتخابات نہیں کرائے جا سکتے ۔ جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ حکومت عوام سے معافی مانگے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہمارا صوبہ بہت مشکل ہے معافی شہریوں سے مانگنی ہے یا دیہاتیوں سے ۔ اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ صوبہ مشکل ہے تو صاف کہہ دیں کہ ہم انتخابات نہیں کرا سکتے ۔ استعفوں کا معاملہ سیاسی ہے اس میں نہیں پڑیں گے عدالت نے اس دوران سپریم کورٹ آفس سے معلومات حاصل کیں کہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق مقدمے کی اب تک کتنی بار ہو چکی ہے اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ 15 بار سماعت کی جا چکی ہے اس کس باوجود عدالت کے حکم پر عمل نہیں ہورہا ہے ۔

اس پر عدالت نے صوبوں اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ اب تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد بارے جتنی پیش رفت اور اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں ان کی تفصیل دے اور علاوہ ازیں بلدیاتی انتخابات موخر کرنے کی ٹھوس وجوہات بھی عدالت کو بتائی جائیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 18 اگست تک ملتوی کر دی ۔