ریاستی اداروں کو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہو گا،چیف جسٹس ناصر الملک،عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر اداروں پر چیک رکھے۔ جمہوریت آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے ضروری ہے۔ انصاف سب کے لئے کا خواب بنچ اور بار کے تعاون سے ہی پورا ہو سکتا ہے‘ تشدد اور جبر سے لوگ بے گھر ہو رہے ہیں جبکہ عالمی برادری خاموش اور ہم اس دور میں زندہ ہیں۔ عدلیہ کا سب سے اہم فریضہ کسی کے انسان ہونے کے حق کا تحفظ کرنا ہے۔ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب،جج کا عہدہ پھولوں کی سیج نہیں،جج آئین کے دفاع اور تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں پر رائے زنی عوام کا حق ہے ،نامزد چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ، عدلیہ نے ماضی میں جمہوریت اور آئین کا تحفظ کیا، اٹا رنی جنرل

جمعہ 14 اگست 2015 08:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14 اگست۔2015ء) چیف جسٹس ناصر الملک نے فل کورٹ ریفرنس سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ عوام کے حقوق کا تحفظ جاری رکھے گی‘ تمام ریاستی اداروں کو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ عدلیہ آئین کی محافظ ہے اور آئین شکنی کرنے یا کوئی کوشش جو بھی ادارہ کرے گا اس کو روکتی رہے گی۔ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر اداروں پر چیک رکھے۔

عدلیہ نے اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جا رہی اور قانون کی حکمرانی ہے۔ سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھی فیصلے دیئے۔ جمہوریت آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے ضروری ہے۔ انصاف سب کے لئے کا خواب بنچ اور بار کے تعاون سے ہی پورا ہو سکتا ہے‘ امید کرتے ہیں کہ جمہوریت طاقت کے مرکز سے نکل کر عوام تک پہنچے گی اور جمہوری طاقتیں طاقتور لوگوں کا احتساب کر سکیں گی۔

(جاری ہے)

آئینی ذمہ داری ہونے کی وجہ سے ایک سال سے بلدیاتی انتخابات بارے مسلسل فیصلے دے رہے ہیں‘ تشدد اور جبر کے ذریعے لوگ بے گھر ہو رہے ہیں جبکہ عالمی برادری خاموش اور ہم اس دور میں زندہ ہیں۔ عدلیہ کا سب سے اہم فریضہ کسی کے انسان ہونے کے حق کا تحفظ کرنا ہے۔ فخر ہے کہ ہم نے اقلیتوں کے حقوق‘ عبادت گاہوں‘ ثقافت کے تحفظ کے لئے بروقت فیصلے دیئے۔

ایسے معاشرے جہاں آمریت اور سیاسی ذمہ داری کا احساس نہ ہو ناکام ہو جاتے ہیں۔ جبکہ نامزد چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ جج کا عہدہ پھولوں کی سیج نہیں حدیث مبارکہ ہے کہ قاضی کے منصب پر فائز ہونا الٹی چھری سے ذبح ہونے کے مترادف ہے۔ عدالتین آئین و قانون کی پابند ہوتی ہیں عدالتوں کے جج آئین کے دفاع اور تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں پر رائے زنی عوام کا حق ہے مگر بعض اوقات یہ تبصرے اور تجزیے فیصلے پڑھے اور سمجھے بغیر کئے جاتے ہیں۔

جج کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ کسی کا دباؤ چاہے سماجی رائے کا ہو یا کوئی اور قبول نہیں کرے گا۔ جج کے حلف میں ہے کہ وہ ہر حالت میں لوگوں کے ساتھ بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کرے گا۔ جبکہ اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہا ہے کہ لوگ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے عدلیہ انتظامیہ اور مقننہ پر یقین رکھتے ہیں عدلیہ نے ماضی میں جمہوریت اور آئین کا تحفظ کیا‘ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جج فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں ریزرویشن کے ذریعے نہیں۔

جسٹس ناصر الملک نے عدلیہ کو سیاست سے پاک کیا جبکہ صدر سپریم کورٹ بار فضل حق عباسی نے کہا ہے کہ بنچ اور بار انصاف کی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن کا مل کر چلنا بہت ضروری ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے اپنے خطاب میں کہا کہ فل کورٹ ریفرنس میں آپ کی شرکت پر شکر گزار ہوں۔ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور مختلف مشکلات کا بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ماضی میں ہم نے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ اقلیتیں اپنے مذاہب کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ جمہوریت قانون کی حکمرانی کے لئے ضروری ہے۔ بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری ہے تاکہ روٹ لیول تک اختیارات کی منتقلی ہو سکے۔ عدالت کی خواہش ہے کہ جمہوریت بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اپنی اصل حالت میں رہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے بھی فعال ہو کر ایک ریفرنس کا فیصلہ کیا۔ یہ ریفرنس سپیکر قومی اسمبلی نے بھجوایا تھا انصاف سب کے لئے کا خواب تب ہی پورا ہو سکتا ہے کہ جب بنچ اور بار دونوں مل کر اس کے لئے کام کریں۔ ملک میں جمہوریت کے لئے بنچ اور بار دونوں متمنی رہے ہیں اور اس کے لئے کام بھی کیا ہے۔ جب آئین پر قدغن لگائی گئی اس وقت عوام الناس نے جس طرح سے عدلیہ کا ساتھ دیا وہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

انصاف کی فراہمی کے لئے بنچ اور بار کا تعاون ضروری ہے۔ انصاف کی فراہمی میں اگر بارز اپنا کردار ادا کریں اور پروسیجر وضع کرنے میں مدد کریں تو عام لوگوں کو انصاف مل سکتا ہے جب عدالت آئین و قانون کا تحفظ کرے اور انتظامیہ اس پر عملدرآمد کرے تو جمہوریت محفوظ رہتی ہے۔ بار عام لوگوں کو انصاف تک رسائی کے لئے لیگل ایڈ کا نظام وضع کریں۔ حقوق اور فرائض ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہیں۔

یہ عدلیہ آئین و قانون کا محافظ بن کر فیصلے دے رہی ہے۔ عدلیہ نے اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ قانون کی حکمرانی ہے اور لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جا رہی ہے۔ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر اداروں پر چیک رکھے اور عوام کے حقوق ادا ہوتے رہیں۔ سپریم کورٹ عوام کے حقوق کا تحفظ جاری رکھے گی۔ تمام ریاستی اداروں کو آئین و قانون کے مطابق ہی کام کرنا ہو گا۔

یہ عدالت ہر ادارے کے اس اقدام کو روکنے کی کوشش کرتی رہے گی جو کسی ادارے کو نقصان پہنچانے یا آئین و قانون پر قدغن کے مترادف بنیں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ عدالتی روایات کے مطابق کام کریں گے۔ چیف جسٹس نے آخر میں عدالتی سٹاف کا بھی تذکرہ کیا اور ان کا بھی شکریہ ادا کیا۔ نامزد چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے اردو خطاب میں کہا کہ ایک ایسی مجلس سے مخاطب ہونا میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے جہاں قانون اور وکلا ء برادری سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد موجود ہیں، اور جس کا مقصد ہمارے سینئر رفیق کار جناب چیف جسٹس ناصرالملک صاحب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنا ہے کیوں کہ وہ آج سے دو دن بعد اپنے منصب کے فرائض پورے کر کے چیف جسٹس کے آئینی مدتِ منصبی سے عہدہ براء ہو جائیں گے ۔

آج کی یہ تقریب انھی کے اعزاز میں منعقد کی گئی ہے ۔گو کہ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن میں آج آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا کیونکہ آج کا دن فاضل چیف جسٹس صاحب کے فکر کے بیان اور اظہارِ رائے کا دن ہے۔ اس موقع کی مناسبت سے مجھے غالب# کا ایک شعر بے اختیار یاد آ رہا ہے۔ انھوں نے کیا خوب کہا تھا: ”بازیچہٴ اطفال ہے دنیا میرے آگے ۔ ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے“ ہمارے بزرگ اولیا کرام نے بھی یہی بات باور کرائی ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس سے یوں گزرنا ہے کہ دل و نظر آگے کی دنیا پر مرکوز ہوں جو اصل حقیقت کی دنیا ہے۔

دامن تر مکن ، ہشیار باش! ہمارے سینئر رفیق کار جناب چیف جسٹس ناصرالملک صاحب بھی اسی مقولے پر کاربند رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں پہلے بطور وکیل اور اس کے بعد بطور جج ، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور بعد ازاں بطور جج وچیف جسٹس سپریم کورٹ بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ محض رسمی بات نہیں ہے ، بلکہ حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنے رفقاء اور وکلا ء میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بدولت انتہائی محترم و معتبر مقام حاصل کیا ہے۔

انھوں نے 1977 میں انگلستان سے بار ایٹ لاء کرنے کے بعد وکالت کا آغاز پشاور میں کیا اور اس کے ساتھ ساتھ خیبر لاء کالج اور پشاور یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ درس و تدریس کے علاوہ وہ وکلاء میں بھی بہت مقبول رہے اور اس بنا پر پشاورہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سکریٹری اور 2 مرتبہ صدر منتخب ہوئے ۔ اگرچہ جج کے منصب پرہونا بہت بڑا اعزاز سمجھا جا تا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت بھاری اور کڑی ذمہ داریاں بھی اس منصب کے ساتھ منسلک ہیں۔

شاید عوام ، سائل ، فریقین مقدمہ اور وکلا صاحبان اس بات کا مکمل طورپراحساس نہ کر پائیں کہ جج کا عہدہ پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ قاضی کے منصب پر فائز ہو نا الٹی چھری سے ذبح ہونے کے مترادف ہے ۔ یقینا اس حدیث مبارکہ کا مکمل ادراک اور درست فہم ایک جج کو ہی ہوتا ہے، خواہ عدالت میں پیش ہونے والوں یا دور سے دیکھنے والوں کواس کا احساس ہو سکے یانہ ہو سکے۔

مجھے فاضل چیف جسٹس صاحب کے ساتھ بطور رفیق کار 6 سال سے زائد کا عرصہ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس دوران میں ان کے ساتھ بینچ پر بھی بیٹھا ہوں اور عدالت کے اندر اور عدالت سے باہر انھیں بہت قریب سے دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے فرائض کے ادائیگی کے دوران ہر حالت میں اس عدالت کے وقار اور ساکھ کو ملحوظ رکھا ہے۔ میں اس موقع پریہ اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے جب بھی مقدمات سے ہٹ کر کسی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے، میں نے بلاجھجک جناب چیف جسٹس ناصرالملک صاحب کی رائے سے استفادہ کیا ہے اور انھوں نے بھی کمال فراخ دلی سے ایک شفیق سینئر کے طور پر اپنی رائے دی ہے۔

انھوں نے بہت کٹھن اور پیچیدہ قانونی معاملات کو بہت خوبی سے سلجھایا ہے، جس سے ان کی علمی اور عقلی صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ قانونی فیصلوں میں زبان پر ان کی دسترس اور اظہار رائے پیچیدہ معاملات کو بھی عام فہم زبان میں بیان کرنے کی قدرت کا عکاس ہے۔ آج اس مختصر وقت میں فاضل چیف جسٹس صاحب کی ان تمام خدمات کا ذکر کرنا نہ تو مقصود ہے اور نہ ہی ممکن۔

تاہم ان کے چند فیصلوں کا حوالہ دینا ضروری ہے، جن سے ان کی قانونی مہارت ،دسترس اور علمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بطور چیف جسٹس، انھوں نے محمد ظفر علی کے مقدمے میں سرکاری ملازمین کی سنیارٹی کے بارے میں اور محمد رضا حیا ت حراج کے مقدمے میں الیکشن معاملات میں ٹریبونلز کے احکامات کے بارے میں جو فیصلے دیے ہیں، ان کا تذکرہ ناگزیر ہے۔

ان کے علاوہ درانی سرامکس کے مقدمے میں بھی انھوں نے ٹیکس اور فیس کی تفریق نمایاں انداز میں بیان کی ہے۔ یہ وہ مقدمات ہیں جو منظر عام پر نہیں آئے اور میڈیااور عوام کی توجہ کا مرکز نہیں بنے گو کہ ان مقدمات کی اہمیت بہت ہے۔ جن مقدمات میں فاضل چیف جسٹس صاحب نے اہم آئینی معاملات اور عوام کی دلچسپی کے معاملات میں فیصلے سنائے ہیں وہ تو پہلے ہی عوام کے علم میں ہیں؛ جیسا کہ حالیہ آئینی فیصلہ، جس میں آئینی ترامیم کے بارے میں تاویل پیش کی گئی ہے۔

اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں جناب چیف جسٹس ناصرالملک صاحب نے جس یکسوئی تندہی اور محنت کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ محترم جناب چیف جسٹس صاحب کو آج اس عدالت میں 10 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے ۔اس دورانیہ میں ہماری عدلیہ نے بہت طویل مسافت طے کی ہے اورکئی مشکلات کا سامنا بھی کیا ہے۔ اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ عدالتیں آئین اور قانون کی پابند ہوتی ہیں۔

عدالتوں کے جج اپنے مناصب کے حلف لیتے ہوئے اس بات کا اعادہ کرتے ہے کہ وہ آئین کا دفاع اور تحفظ کریں گے۔ یہاں میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عدالتیں اور جج آئین اور قانون ہی کی بنا پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ فیصلے سراہے جاتے ہیں اور بعض اوقات ہدفِ تنقید بھی بنتے ہیں؛ کیونکہ عدالتیں اپنا کام کھلی عدالت میں سر انجام دیتی ہیں، اس لیے ان کی کارروائی اور فیصلے عوام اور میڈیا کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔

اُن فیصلوں پر بحث، تجزیے اور تبصرے بھی ہوتے ہیں اور یہ عوام کا حق ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر رائے زنی کریں، لیکن بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تبصرہ کرنے والے نے یا تو عدالتی فیصلہ پڑھا نہیں یا اگر پڑھا ہے تو اسے سمجھا نہیں۔ تبصرہ نگار، وکلا اور عدالتی فیصلوں کا جائزہ لینے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تن دہی اور نیک نیتی سے عدالتی فیصلوں کوآسان اور عام فہم انداز میں عوام الناس تک پہنچائیں کیونکہ یہ عوام کی امانت ہے۔

فاضل چیف جسٹس صاحب کے بہت سے فیصلے بطور عدالتی نظائر پڑھے جائیں گے اور ان فیصلوں سے آنے والے جج صاحبان اور وکلاء استفادہ کریں گے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے 6 سال سے زائد کا عرصہ فاضل چیف جسٹس صاحب کے ساتھ جونےئر رفیقِ کار کے طور پر گزارا اور مجھے اُن کی بلند قانونی اور آئینی صلاحیتیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اُنھوں نے جو بھی فیصلے کیے وہ قانون پر مبنی تھے نہ کہ ذاتی یا عوامی رائے پر۔

ایک جج کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ دباؤ قبول نہیں کرے گاچاہے وہ دباؤ سماجی رائے کا ہو یا کوئی اور۔ یہاں پر جج کے حلف کے الفاظ دہرانا ضروری ہے جو کہ بعض اوقات لوگوں کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ ”۔۔۔میں، ہر حالت میں، ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ، بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا“۔ بطور چیف جسٹس آف پاکستان انھوں نے نظامِ انصاف کی بہتری اور سپریم کورٹ کی انتظامی ترقی کے لیے کئی اصلاحات نافذ کیں۔

اگرچہ پاکستان بھر کی عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے انھیں کام اور ذمہ داریوں کا بھاری بوجھ اٹھانا پڑتا تھا لیکن اس کے باوجود، انھوں نے انصاف کے تقاضے پورا کرنے کے لیے دن رات کو ایک کیے رکھا۔انصاف کی فراہمی کے لیے ان کی لگاتار جدوجہدقابلِ ستائش ہے۔اگرچہ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے سبھی مقاصد حاصل ہوگئے ہیں، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بہت کچھ کیا جا چکا ہے اور ہم بھی ان شأاللہ ان کی اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔

یہاں پر میں چیف جسٹس صاحب کے اعلیٰ کردار کی کچھ خصوصیات بتانا چاہوں گا۔ وہ نہایت نرم خُو ہیں اور بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اُن کا پیمانہٴ صبر کبھی لبریز نہیں ہو گا۔ اُن میں ایک اور خاصیت جو کہ میرے نزدیک بہت قابلِ ستائش ہے وہ یہ ہے کہ اُن کے مزاج میں خود نمائی کا کوئی عنصر شامل نہیں اور حد درجہ انکساری سے کام لیتے ہیں۔ اُن کے پاؤں ہر وقت زمین پر ہی جمے رہتے ہیں گو کہ اُن کے منصب کے حوالے سے لوگوں میں شاید اُنہیں بلند پرواز دیکھنے کی خواہش ہوتی ہو گی۔

آخر میں، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج کا دن ہمارے لیے خوشی اور غم کے امتزاج کا لمحہ لے کر آیا ہے۔خوشی کا موقع تو اس لیے ہے کہ ہم نے دیکھا ہے، اور اس بڑے اجتماع کی یہاں موجودگی بھی ثابت کرتی ہے، کہ ہمارے بھائی اور سینئر نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی ، خواہ اس کا تعلق عدالتی بنچ سے ہو یا بارسے، نہایت کامیابی سے بسر کی اور آج وہ کامل اطمینان اور اعتماد سے اپنی آئینی مدتِ منصبی کی تکمیل کر رہے ہیں۔

دوسری طرف ہمیں ان کے اس بنچ سے الگ ہونے اور ہم سے جدا ہو جانے کا رنج بھی ہے۔لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہی اصولِ فطرت اور تقدیر کائنات ہے۔ کسی بھی مقام یا منصب پر آنے والا ایک نہ ایک دن وہاں سے رخصت ہوجاتا ہے۔یہ آنا گویا جانے ہی کے لیے ہوتا ہے۔ آپ سے اجازت چاہنے سے پہلے ، میں اپنے بھائی پر ایک خوشگوار اور پر مسرت زندگی کے نئے آفاق وا ہونے کی دعا کرتا ہوں اور اپنی بات کا اختتام ایک مفکر کے اِس قول سے کرتا ہوں جنھوں نے کہا تھا کہ: ”عمر محض ایک عدد، ایک نمبرشمار ہے۔

انسانی تجربات کبھی زائد المدت نہیں ہوتے، انھیں ضرور استعمال کرتے رہنا چاہیے۔تجربے کی مدد سے انسان کم مدت اور کم تر توانائی کے ذریعے زیادہ نتائج حاصل کر سکتا ہے‘اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے خطاب میں کہا کہ جوہن مارشل نے سپریم کورٹ کو مضبوط کیا … چیلنجز کا سامنا تھا۔ 3 نومبر 2007ء کو جب موجودہ عدالت ایک ڈکٹیٹر کے تحت آئین اور جمہوریت زیر عتاب آئے تو جسٹس ناصر الملک ان میں سے ایک تھے جنہوں نے آئین و قانون کا تاریخ کے نازک لمہات میں پرچم تھامے رکھا۔

ہم ایک قوم کے طور پر اس طرح کی تحقیقات کا اہترام کرنا چاہئے۔ بدقسمتی ہے کہ آج ایک شریف النفس شخصیت ہم سے رخصت ہو رہی ہے۔ جسٹس ناصر الملک نے اس وقت چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا جب پورا ملک دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں تھا۔ اس طرح ملک کے دیگر ادارے بھی خطرے میں تھے۔ پاکستان میں فاضل چیف جسٹس نے لوگوں کے بنیادی حقوق پر حملے ہوتے دیکھے۔

ان حملوں نے ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی اس دوران اداروں کو لڑانے کی بھی کوشش کی گئی۔ انہوں نے پوری قوم کو سونامی میں رہنمائی کی۔ ہم انہیں جمہوریت کو بچانے اور اداروں کا تحفظ کرنے پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی۔ ان حالات میں آزادی‘ خودمختاری کی نئی لائنیں کھینچی گئیں۔ ان حالات میں عدالت کا کردار بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا۔

مہذب معاشروں میں قومیں اپنے اداروں کی فعالی پر یقین رکھتی ہیں۔ لوگوں میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے انتظامیہ اور پارلیمنٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ ترقی پذیر معاشروں میں بنیادی حقوق کے نفاذ کے جدید تصور کو مشکالت درپیش ہیں۔ قانونی اور عدالتی نطام ملک کی معاشی ترقی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لئے بہت اہم کردار رکھتے ہیں جن سے ملک میں خوشحالی آ سکتی ہے۔

انصاف کے بغیر ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ جب آپ عدلیہ کے شعبے میں آئے تو اس وقت کمرشل لاز‘ اور کمرشل سرگرمیوں بارے قوانین صوبوں میں کام نہیں کر رہے تھے۔ فاضل چیف جسٹس ٹیکس کے معاملات میں کافی علم رکھتے ہیں جس کی وجہ سے کئی اہم ترین مقدمات کی سماعت کرنے اور ان کا فیصلہ کرنے میں مدد ملی۔ فاضل چیف جسٹس نے کریمنل جسٹس میں بھی اپنے ویوز دینے میں کبھی کنجوسی اختیار نہین کی اور کئی اہم فیصلے دیئے ان فیصلوں میں مختاراں مائی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔

انہوں نے کئی بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس میں شرکت کی اور یہاں بھی ان کا انعقاد کیا اوورسیز پاکستانیوں کے لئے بھی خدمات سرانجام دیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ جو انتہائی قلیل عرصے کے لئے چیف جسٹس پاکستان بنیں گے یہ بھی ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کی شاندار مثال ہے۔ اعظم نذیر تارڑ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے اپنے خطاب میں کہا کہ چیف جسٹس ناصر الملک کی ریٹائرمنٹ پر ان کی خدمات پر بات کرنا میرے لئے ایک اعزاز ہے۔

انہوں نے ہر طرح کے مقدمات کی سماعت ایک مقررہ مدت میں کر کے فیصلے دیئے۔ انہوں نے کئی اہم ترین فیصلے بھی دیئے۔ ججز بولتے نہیں اور صرف اپنے فیصلوں کے ذریعے ہی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے چہرے پر ہمیسہ مسکراہٹ دیکھی۔ فاضل چیف جسٹس نے ثابت کیا ہے کہ جج فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں ریزرویشن کے ذریعے نہیں۔ ایک وقت تھا جب عدالتی … … کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر از خود نوٹسز لئے گئے مگر جس کی وجہ سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی تاہم فاضل چیف جسٹس نے ان معاملات اور عدالتی متحرک پر قابو پایا اور عدلیہ کو سیاست سے پاک کیا۔

انتخابی دھاندلی کے معاملے میں ایک جوڈیشل کمیشن کے سربراہ کے طور پر سیاسی طاقتوں کے اثر میں نہیں آئے اور سفارشات دیں۔ بعض ججز نے مقدمات میں اپنے فیصلوں میں اختلاف کرکے بتایا کہ عدلیہ آزاد ہے۔ بار کونسلوں کی متفقہ رائے ہے کہ فوجی عدالتیں انصاف فراہمی کا مناسب ذریعہ نہیں ہیں۔ بعد ازاں صدر سپریم کورٹ بار فضل حق عباسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں چیف جسٹس ناصر الملک کو ہدیہ … پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد خوشہال زندگی عطا کرے۔

جج بننا آسان نہیں! انصاف کی فراہمی جلد سے جلد ہونی چاہئے۔ جسٹس ناصر الملک نے ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی کے لئے کام کیا۔ اگست 1950ء میں سوات میں پیدا ہوئے۔ بار ایٹ لاء لندن سے کیا خیبر لاء کالج پشاور میں لیکچر بھی دیئے۔ 1981ء میں بار سیکرٹری بنے۔ 1993ء سے 1994ء تک ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے رہے 31 جولائی 2004ء کو پشاور ہائی کورٹ کے جج بنے 5 اپریل میں سپریم کورٹ میں جج مقرر ہوئے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جوڈیشل کمیشن میں اپنی خدمات سرانجام دیں۔ بنچ اور بار انصاف کی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن کا ایک ساتھ چلنا ضروری ہے۔ بار بنچ کی عزت میں اضافے کا سبب ہیں۔ بنچ اور بار کے درمیان تعلقات سے ہی عام لوگوں کو انصاف مل سکتا ہے۔