فوری اور سستا انصاف، سینٹ کمیٹی نے سفارشات تیار کرنا شروع کر دی،کمیٹی چھ ہفتوں میں سفارشات تیار کرے گی، عملدرآمد کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، کمیٹی میں سابق ججز ، بار کونسل کے نمائندوں،سابق پولیس افسران کو مدعو کیا جائے گا،سفارشات پر عملدرآمد کے لئے پارلیمنٹ کی سپیشل کمیٹی بنائی جائے گی،رضا ربانی، کمیٹی کو اپنی سفارشات کی ڈرافٹنگ شروع کر دینی چاہئے ،راجہ ظفرالحق

بدھ 12 اگست 2015 08:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12 اگست۔2015ء) سینٹ کی خصوصی کمیٹی نے ملک میں فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لئے سفارشات تیار کرنا شروع کر دی ہیں کمیٹی اگلے چھ ہفتوں میں اپنی سفارشات تیار کرے گی ۔جس پر عملدرآمد کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے گی ۔ خصوصی کمیٹی میں سپریم کورٹ کے سابق ججز ، بار کونسل کے نمائندوں ، قانون دانوں اور سابق پولیس افسران کو مدعو کیا جائے گا ۔

سینٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس سینٹ ہال میں چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی سربراہی میں منعقد ہوا کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ آج ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے وہ ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں انہوں نے کہا کہ سینٹ کو جو سفارشات ملی ہیں ان کے بارے میں وضاحت کی جائے ۔

(جاری ہے)

عدلیہ اور بار کے نمائندوں کو بلا کر ان سے بھی سفارشات لی جائیں اور اسی طرح ان کو درپیش مسائل بھی سنے جائیں ۔

سینیٹر سردار محمد اعظم موسی خیل نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان تو بن گیا ہے مگر ملک میں انصاف نہیں ہے ۔ گزشتہ 67 سالوں میں عوام انصاف سے محروم ہیں ملک میں پولیس کا راج ہے رشوت لی جاتی ہے ۔ غلط مقدمات درج کئے جاتے ہیں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے سیاسی کارکنوں پر غلط ایف آئی آر درج ہوتی ہیں انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں انصاف کی طرف جانا ہے تو سسٹم کو ٹھیک کرنا ہو گا پولیس کے نظام کو تبدیل کرنا ہو گا انہوں نے کہا کہ ملک کے صدر وزریر اعظم اور افسر شاہی کرپشن کرتے ہیں مگر ان کے لئے کوئی قانون نہیں قانون صرف غریبوں کے لئے ہے جب تک کرپشن پا قابو پایا جا سکے اس وقت تک نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا ۔

انہوں نے کہا کہ جرگہ سسٹم سے سب سے کامیاب سسٹم ہے ۔ افغانستان کی مثال سب کے سامنے ہے وہاں پر جرگہ سسٹم رائج ہے یہ سب سے سستا نظام ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک کا نظام ٹھیک ہوتا تو اسلام آباد کی کچی آبادیوں پر یہ ظلم نہ ہوتا انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں انصاف ہوگا تو صوبوں میں شورش نہ ہوتا صوبوں کی تقسیم میں پشتونوں کے ساتھ زیادتی کی گئی بلوچستان کے 12 اضلاع میں پشتون آباد ہیں پشتونوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

مولانا تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ اگر ملک میں عدلیہ کا نظام درست ہو جائے اور تعلیم سب کے لئے یکساں ہوں تو پوے ملک کا نظام درست ہو سکتا ہے انہوں نے کہا کہ اگر کسی معاشرے میں جان و مال اور عزت کا تحفظ ہو تو لوگ اس ملک کو پسند کرتے ہیں عدلیہ کے نظام کو بہتر بنانے سے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں سستا اور فوری انصاف ملک کو بام عروج پر پہنچا دے گا ۔

سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کاہ کہ پاکستانی قوم کا قانون اور انصاف سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور ہم ایسی قوم بن چکے ہیں جو قانون کا احترام نہیں کرتی اور جو ہمارے دل میں آتا ہے وہ کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر اور بااثر افراد نے ہمیشہ آئین اور قانون کا غلط استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں قوم کو یہ اعتماد دینا ہو گا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو گی سینیٹر غوث نیازی نے کہا کہ ملک میں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی سے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے عدالتوں سے انصاف نہ ملنے کی وجہ سے ماورائے عدالت قتل کے واقعات رونما ہوئے ہیں اگر ملک کا عدالتی نظام ٹھیک ہو جائے تو حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ سانحہ پشاور کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کی تجویز منظور کی تاکہ دہشت گردوں کو سزا دی جا سکے ۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنے عدالتوں کے نظام کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔ انہوں نے کہاکہ بعض ججز صاحبان کی تنخواہیں تو کئی گنا بڑھا دی گئیں مگر وہ اپنا کام ایمانداری سے سرانجام نہیں دیتے ہیں ۔تمام مقدمات کے حل کے لئے وقت مقرر کرنا بے حد ضروری ہے پولیس تفتیش کو بہتر بنانا بے حد ضروری ہے اور اس کے لئے بھی وقت مقرر ہونا چاہئے ۔ وکلاء صاحبان کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا اور مقدمات کو ختم کرنے کے لئے وقت مختص ہونا چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ تمام مسائل کا حل اس وقت ہو سکتا ہے جب ہماری ذہنیت ٹھیک ہو جائے ۔سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ جب تک قانون پر عملدرآمد نہ ہو اس وقت تک قانون بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ہمیں پولیس اور تھانہ کلچر کو درست کرنا ہو گا انہوں نے کہا کہ ملک میں استعمال ہونے والا 80 فیصد تیل مضر صحت ہے جب تک رشوت ختم نہ ہو اس وقت تک عدالت اور تھانوں کا نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا ہے ۔

سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ملک میں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے موبائل کورٹس کی ضرورت ہے ۔ عدالتوں میں شفٹ سسٹم شروع کیا جائے انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ججز کی تعداد میں اضافہ اور عدالتوں کی حالت زار بہتر بنانا بہت ضروری ہے ۔سینیٹر جنرل ( ر) صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ ملک میں کرپشن کے کیسز کے ڈھیر ایف آئی اے اور نیب کے پاس پڑے ہوئے ہیں بااثر افراد کے کیسز کئی کئی سال تک پڑے رہتے ہیں انہوں نے کہا کہ ان سفارشات میں ایسے افراد کو بھی شامل کرنا چاہئے جو 40 سے 50 سالوں سے مقدمات لڑ رہے ہیں جیلوں میں قید ملزمان کو بھی بلانا چاہئے ۔

لوئر کورٹس اور بار سے بھی وکلاء کو بلانا چاہئے ۔ سینیٹر سحر کامران ملک میں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے بنیادی مسائل کو دیکھنا ہو گا جس میں سب سے پہلے پولیس کا نظام ہے انہوں نے کہاکہ نظام عدل پر بھی احتساب کا کردار ہونا چاہئے جو ڈیشل کمیشن بنتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا ہے ۔ سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے لئے تھانہ کلچر کو تبدیل کرنا ہو گا ملک میں صرف جلد انصاف کی ضروری نہیں بلہ انصاف کی ضرورت ہے ۔

سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہاکہ قانون میں کوئی سقم موجود نہیں ہے بلکہ سسٹم کی خرابی کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ مقدمات کے التواء میں کئی مسائل کا سامنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مقدمات کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے مسائل بڑھ گئے ہیں انہوں نے کہا کہ ملک میں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے حکومت کو بھرپور اقدامات کرنے ہوں گے ۔

ملک میں ججز کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ عدالتوں کے معیار کو بھی بہتر بنانا ہو گا ۔سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے کہاکہ معاشرے میں بگاڑ کی وجہ سے مغرب کی آندھی تقلید ہے اگر ہم معاشرے میں اسلامی نظام رائج کیا جائے تو حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ آج جو بھی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں وہ اپنے فرائض کی عدم ادائیگی ہے ہم خدا کا خوف دل سے نکال چکے ہیں ۔

اگر جج ، وکیل اور پولیس اپنے فرائض ایماندار سے سرانجام دے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر حل کے لئے مقامی مشران کی سربراہی میں کمیٹیاں ہونی چاہئے ۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے اقدامات بہت ضروری ہے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ کمیٹی کے جن ممبران نے سفارشات دی ہیں ان سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تمام سفارشات کو ایک جگہ پر جمع کیا جائے اس سلسلے میں پولیس افسران کو بھی بلائیں گے تاکہ وہ بھی اس سلسلے میں اپنی رائے دے دیں اس سلسلے میں سپریم کورٹ بار ،پاکستان بار کونسل ، سیکرٹری لاء کمیشن ، آئی اے رحمان ، سینیٹر ایس ایم ظفر ، اشرف گجر چیئرمین لاء کمیشناور افضل شکری سمیت اہم افراد کو بلائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ سفارشات مرتب ہونے کے بعد پارلیمنٹ کی سپیشل کمیٹی ان سفارشات پر عملدرآمد کے لئے بنائی جائے گی ۔ قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے کہا کہ پولیس افسران کے تجربے سے استفادہ بے حد ضروری ہے کمیٹی کو اپنی سفارشات کی ڈرافٹنگ شروع کر دینی چاہئے اور رپورٹ اگلے ڈیڑھ مہینے تک مکمل ہونی چاہئے انہوں نے کہا کہ صرف رپورٹ تیار کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ رپورٹ پر عملدرآمد کے لئے بھی کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے ۔

متعلقہ عنوان :