قومی اسمبلی، ڈی سیٹ کے معاملے پر گرما گرم بحث، تحریک انصاف کاواک آؤٹ، فضل الرحمان نے مشاورت کے لئے دو دن مانگ لئے،نہیں چاہتے کہ جمہوریت ڈی ریل ہو،شیخ آفتاب،اپیل کرتے ہیں تحاریک واپس لی جائیں،اعجاز جاکھرانی ، فرینڈلی اپوزیشن نہیں جمہوریت پسند ہیں،خورشید شاہ، تحریک واپس لی تو تاثر جائے گا کہ مک مکا ہو گیا، فاروق ستار، تحریک کو مسترد کیا جائے،طارق اللہ،سازش کے تحت تحریک انصاف کو ذلیل کیا جا رہا ہے،شیخ رشید، زندہ بھٹو خطرناک نہیں تھا پھانسی کے بعد بھٹو اب تک زندہ ہے،محمود اچکزئی،یہ تاثر غلط دیا جا رہا ہے کہ ہم غیر جمہوری طاقتوں کا ساتھ دے رہے ہیں،شاہ محمود، رولنگ دے چکا ہوں چیلنج نہیں کیا جاسکتا،سپیکر ایاز صادق

بدھ 5 اگست 2015 09:08

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5 اگست۔2015ء) قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی ایم کیوایم اور جے یو آئی (ف) کے تحاریک کے معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی بعد ازاں تحریک انصاف کے ارکان ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ مولانا فضل الرحمان نے مشاورت کے لئے دو دن مانگ لئے۔قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کو سپیکر ایاز صادق کی صدارت میں ہوا۔

ایم کیو ایم کی تحریک پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں مل جل کر جمہوریت کی مضبوطی کے لئے کام کریں مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم سبھی تحریک انصاف کو اس پارلیمنٹ کا حصہ رہنے دیں ہم پہلے ہی دہشت گردی کا شکار ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ جمہوریت ڈی ریل ہو انہوں نے کہا کہ ہمیں وہ دور بھی یاد ہے جبکہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کے سخت مخالف ہوتے تھے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے اعجاز جھکرانی نے کہا کہ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہونے کے باعث ہم اپیل کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کے خلاف تحاریک واپس لی جائے ہم نے جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام ( ف) اس تحریک کو واپس لے کر جمہوریت کا ساتھ دیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم تمام اراکین کے جذبات کی قدر کرتا ہوں آئین کی عملداری کا تسلسل نہیں ٹوٹنا چاہئے۔

جمہوریت کے لئے قربانیاں بھی قابل قدر ہیں۔ جمعیت علماء اسلام ( ف ) ان اراکین کے خلاف تحریک لائی ہے جو اراکین 40 روز سے زیادہ غیر حاضر تھے ان کو ڈی سیٹ کیا جائے۔ اسحاق ڈار نے گزشتہ ہفتے تحریک ایک ہفتے کے لئے موخر کرنے کے لئے کہا لیکن اس دوران حکومت کی جانب سے کوئی بھی ملنے نہیں آیا گزشتہ ہفتے وزیر اعظم سے ملاقات کا ایجنڈا کشمیر اور مہاجرین کے متعلق تھا انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ہفتے تک مہلت دی جائے تاکہ ہم اپنی پارٹی سے مشاورت کر سکیں ہمیں فرینڈلی اپوزیشن کہا جاتا تھا اور اب بھی فرینڈلی اپوزیشن ہیں ۔

قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ ہم فرینڈلی اپوزیشن نہیں بلکہ جمہوریت پسند ہیں ۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے کہاکہ تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کا معاملہ جمہوریت سے نہ جوڑا جائے۔ جمہوریت اس پارلیمنٹ کی اثاثہ ہے ہم کوئی انتشار نہیں پھیلانا چاہتے جمہوریت کا فروغ آئین کی پاسداری سے ہو گا ۔گزشتہ ہفتے تحریک موخر کرنے کے بعد حکومت نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور دونوں جماعتوں سے مشاورت نہیں کی تھی ہم عوام کے مینڈیٹ کی نفی نہیں کر رہے اگر ہم نے تحریک واپس لی تو یہ تاثر جائے گا کہ مک مکا ہو گیا حکومت کو چاہئے کہ آئینی طریقے سے راستہ نکالے تو معاملہ حل ہو جائے گا۔

لیکن 40 روز سے زیادہ غیر حاضر ارکان نے کبھی یہ قبول کیا کہ وہ غیر حاضر رہے تھے جو کہ غلط تھا ۔ تحریک انصاف کے اراکین وجہ تو بتائیں کیوں غیر حاضر تھے ہم کون سی روایت سیٹ کرنے جا رہے ہیں آئین کی موجودگی میں ہم نے کوئی غلط تحریک پیش نہیں کی۔ ہماری خواہش کہ اس تحریک کو موخر کر دیں تاکہ ایم کیو ایم بھی مشاورت کر سکے۔ جماعت اسلامی کے طارق اللہ نے کہا کہ اس تحریک سے ایوان کا وقت ضائع نہ کیا جائے اس تحریک کو مسترد کیا جائے ۔

شیخ رشید نے کہا کہ سوچی سمجھی سازش کے ساتھ تحریک انصاف کو ذلیل کیا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ وزیر اعظم سے ملاقات میں تحریک انصاف کے اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے حوالے سے کوئی ایجنڈا ہی نہیں تھا تحریک انصاف کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اب ہمارے مرہون منت ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی وزیر اعظم سے ملاقات میں یہ ایجنڈا نہیں تھا تو اگلے دن سارے قومی اخبارات نے بڑی شہ سرخیاں کیوں لگائی تھی کہ تحریک انصاف کے خلاف تحریک واپس لے لی جائے گی۔

محمود خان اچکزئی نے کہاکہ اس ملک کی سیاست کا ہم ترین موڑ ہے سب کو راضی کر کے چلنا چاہئے۔ زندہ بھٹو خطرناک نہیں تھا پھانسی کے بعد بھٹو ابھی تک زندہ ہے۔ کراچی کے اندر 12 مئی کا واقعہ ہوا تو ایم کیو ایم کے خلاف باتیں ہوئیں جب ووٹ لینے کا وقت آتا ہے تو ایم کیو ایم اچھی ہو جاتی ہے اسی طرح تحریک انصاف کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ملک نہیں چلائے جاتے ہماری تجویز ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم کا احترام کرنا چاہئے شک ختم ہونا چاہئے ۔

تحریک انصاف کو واپس اسمبلی میں آنا چاہئے اس پارلیمنٹ کا حصہ بننا چاہئے لیکلن ایک سوری کا لفظ آنا چاہئے ۔ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبی اس پارلیمنٹ کا امین ہوتا ہے سپیکر کو اختیار ہے کہ وہ جلد از جلد فیصلہ کرے اور آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہئے ۔ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے اس اسمبلی کو جعلی کہتے اور لعنت پہنچاتے رہے لیکن اب اگر قبول کرتے ہیں تو ان کو معاف کرنا چاہئے۔

اگر آپ استعفیٰ دیتے ہیں تو اس کو واپس لینے میں کوئی حرج نہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر سچ بولنا چاہئے تاکہ اس کے وقار میں فرق نہ آئے اگر کوئی بھی معاملہ کرنا ہے تو پہلے سچ بولنا سیکھو۔ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے سیاست کے اندر احترام کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ حکومت نے ہم سے کبھی بھی مشاورت نہیں کی لیکن پھر بھی نوازشریف کو ووٹ دیا اور اس کے ساتھ کھڑا ہوں اے این پی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ تحریک انصاف کی معافی اسی میں ہے کہ وہ اسمبلی میں واپس آ گئے وہ ہمارے بھائی ہیں ان کو دیوار سے لگانا غلط ہو گا ۔

جمشید دستی نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ سیلاب کے متعلق اقدامات کرے اور یہ ایوان سیلاب زدگان کے حوالے سے بحث کرے اگر حکومت میں برداشت کا مادہہوتا تو پاکستان کے حالات ایسے نہیں ہوتے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دھرنا عروج پر تھا تو میں اس ایوان میں آ کر کہا تھا کہ ہم جمہوریت کے حامی ہیں اور اس کا تسلسل چاہتے ہیں یہ تاثر غلط دیا جا رہا ہے کہ ہم غیر جمہوری طاقتوں کا ساتھ دے رہے ہیں اور آج بھی یہ تاثر ختم کرنے آیا ہوں کہ ہم جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے ۔

تحریک انصاف نے اس اسمبلی میں آ کر حلف لیا اور ایک سال تک اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں تب بھی ہم نے ہر قانونی راستہ اختیار کیا لیکن کچھ ہوا نہیں اور ہم نے عوام سے رجوع کیا ہم اسمبلی میں واپس آئے تاکہ 2013 کے انتخابات کے حوالے سے اصل حقائق سامنے آئیں پھر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا اور اس کا فیصلہ آ گیا اور تب بھی کہا تھا تحریک انصاف جوڈیشل کمیشں کا فیصلہ قبول کرے گی اور ہم نے قبول کیا اور کردار ادا کر رہے ہیں ۔

اگر تحریک انصاف کو پارلیمنٹ کا حصہ رکھنا چاہتے ہیں تو لیت و لعل کیوں کیا جا رہا ہے ہم نے جو بھی کہا دیانتداری سے کہا ہم سمھجتے ہیں کہ پاکستان کے اندر شفاف انتخابات ہونے چاہئیں ۔پہلی بار الیکشن کمیشن کے طریقہ انتخاب پر سیر حاصل بحث ہوئی ہم یہی چاہتے ہیں کہ الیکشن میں اصلاحات لائی جائیں ۔قانون سازی اس کا بہترین حل ہے ۔ ہمارا موقف اب بھی واضح ہے اگر ایوان کلیئر ہے تو آج ہی فیصلہ کریں کچھ لوگوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے جس کی وجہ سے تحریک پیش کر کے سیاست کی جا رہی ہے ۔

سیاست دان کی زندگی ایوان تک محدود نہیں ایوان سے باہر بھی ہوتی ہے ۔سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ سپیکر کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے میں نے استعفے قبول نہیں کئے جس میں اراکین پارلیمنٹ کی ذاتی طور پر رضامندی شامل نہیں تھی بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی میری رولنگ کی تائید کی اس وقت اگر کسی رکن کو اعتراض ہے تو وہ میری دی جانے والی رولنگ کے خلاف تحریک لا سکتا ہے ۔

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ایوان میں خطاب کے دوران کہا کہ ہر چیز کو ہروقت شک کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے کہ پی ٹی آئی کے اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کیلئے سازش ہورہی ہے تو ایسی کوئی بات نہیں ہے ہم نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر ان کے ساتھ مذاکرات کئے ۔ پرویر رشید نے بھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی تو ایسے موقعوں پر جلتی پر تیل نہ چھڑکا جائے ہم دل و جان سے پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو مانتے ہیں کیونکہ آپ کی موجودگی سے اپوزیشن مستحکم ہوئی ہے لیکن مہربانی فرما کر باہر تند و تیز تقریر نہ کریں غصہ تو پھانسی پر چڑھنے والوں اورجلا وطنی والوں کو آنا چاہیے لیکن حیرانگی ہے کہ آپ کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے ۔

خواجہ سعد رفیق کی تقریر ختم ہوتے ہی پی ٹی آئی اراکین اسمبلی واک آؤٹ کرگئے ایم کیو ایم کے خورشید گوڈیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کی تقریر میں ذرا بھر بھی چاشنی نہیں تھی صرف اور صرف ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بنایا این اے 246 میں ایم کیو ایم کا مینڈیٹ سامنے آگیا اس لئے رویوں کی درستگی اور جمہرویت کی تبدیلی ہے اب ایم کیو ایم کے فوبیا سے باہر نکلو جے یو آئی ف کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے تاریخ کی باتیں کی تو وہ اب تاریخ کا حصہ بن گئیں لیکن اب ہمیں آئین کی روح سے نئی جمہوری روایات کے مطابق فیصلے کرنا ہونگے ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس میں درخواست خارج کرنے کا نہیں کہا گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ یہ سیاسی معاملہ ہے سیاستدان آپس میں طے کریں اور آئندہ سیاستدان اپنے معاملات خود طے کریں انہوں نے کہا کہ 2007ء میں ہم نے استعفے دیئے تھے ان کو فوراً تسلیم کرلیا گیا لیکن آج پھر استعفوں کے معاملے کو لٹکایا جارہاہے جس پر سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ میں رولنگ دے چکا ہوں اس لئے چیلنج نہیں کیا جاسکتا جس پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سپیکر آئین سے ماورا رولنگ نہیں دے سکتا اس پر نظر ثانی ہوسکتی ہے اس لئے اب اس مسئلے کو چیمبر میں نہ لایا جائے اور ہمیں مشاورت کیئے دو دن کا ٹائم دیا جائے ۔