افغان طالبان تحریک کے امیرملاعمر ہلاک،افغان صدر نے تصدیق کر دی،ملاعمرکی ہلاکت کی اطلاعات قابل اعتبارہیں،وائٹ ہاؤس ،ملا عمر زندہ اور افغان طالبان کی قیادت کررہے ہیں،ترجمان ذبیح اللہ مجاہد

جمعرات 30 جولائی 2015 09:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30 جولائی۔2015ء )برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے دعویٰ کیاہے کہ افغان طالبان تحریک کے سپریم لیڈر ملا محمد عمر ہلاک ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک افغان طالبان نے اس خبر کی تر دید یا تصدیق کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا ہے۔بی بی سی نے بدھ کے روز جاری اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان کے امیر ملا محمد عمر 2سے 3سال پہلے ہلاک ہو گئے ہیں اورا نکی ہلاکت کی تصدیق افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کی ہے اور افغان صدر کو ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق افغان انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کی ہے بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ا فغان حکومت اور انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق گذشتہ کئی برس سے مسلسل روپوشی کی زندگی گزانے والے طالبان رہنما ملا عمر دو یا تین برس پہلے ہلاک ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

ان اطلاعات پر افغان طالبان کے ترجمان سے بی بی سی نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں جلد ہی بیان جاری کیا جائے گا۔ واضح رہے کے ملا عمر کی ہلاکت کے حوالے سے اس سے قبل بھی کئی دعوے کیے گئے ہیں افغان انٹیلی جنس نے ڈیرھ سال قبل ملا عمر کی ہلاکت کا دعویٰ کی تھا اور کہا تھا کے ملا عمر ہلاک ہو چکے ہیں اور انکی لاش کو پاکستان میں دفن کر دیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ افغانستان کے باغی گروپ فدائی محاذ نے چند روز قبل دعویٰ کیا تھا کے ملا عمر کو24ماہ قبل انکے قریبی ساتھی ملا اختر منصور نے ایک اور ساتھی کے ساتھ ملکر قتل کیا ہے ۔ ملا محمد عمر کی ہلاکت کے بعد افغان طالبان دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے ہیں اور طالبان کے ایک گروپ کی قیادت ملااختر منصور کر رہے ہیں جبکہ ایک گروپ ملا محمد عمر کے صاحبزادے محمد یعقوب کو سربراہ بنانا چاہتا ہے جبکہ ملا اختر منصور ملا محمد عمر کے نائب تھے اورانکا دعویٰ تھا کہ صرف انہیں کو ملا عمر تک رسائی حاصل ہے اور وہی تحریک کی رہبری شوریٰ کے سربراہ بھی تھے ۔

پاکستانی میڈیا کے مطابق ملا عمر کے رو پوش ہونے کے بعد سے ملا اختر منصور ہی طالبان کے تمام امور چلا رہے ہیں اور انہیں کے گروپ سے پاکستان کی خواہش پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں جبکہ دوسرا گروپ امن مذاکرات کا حامی نہیں ہے اگر ملا عمر کی ہلاکت کی خبر سچ ثابت ہو جاتی ہے تو طالبان دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں گئے اور اس کے اثرات امن مذاکرات پر بھی پڑ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ 1996میں ملا عمر کو طالبان کے سپریم لیڈر اور امیر المومنین کا خطاب دیا گیا پھر 2001میں امریکہ نے جب افغانستان پر طالبان کے خاتمے کے لیے حملہ کیا تو اس وقت سے لے کر آج تک ملا عمر منظر عام پر نہیں آئے ۔چند دن پہلے ہی عید الفطر کے موقع پر ایک پیغام میں ملا عمر نے ’افغانستان میں امن کے لیے بات چیت کرنا جائز قرار دیا تھا تاہم انھوں نے پچھلے ہفتے پاکستان میں افغان حکومت اور طالبان رہنماوٴں کے مذاکرات کا براہ راست کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔

اس خطاب کے بعد عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ سمیت پاکستان اور افغانستان کی تمام چھوٹی بڑی عسکری تنظمیں اور مسلح گروہ ملا عمر کو اپنا امیر مانتے رہے ہیں۔گذشتہ کچھ عرصہ سے شدت پسند تنظیموں میں ملا عمر کے زندہ ہونے یا مرنے کے حوالے سے کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ بالخصوص عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے سرگرم ہونے اور ابوبکر بغدادی کی جانب سے خلافت کے اعلان کے بعد سے یہ سوالات مزید زور پکڑنے لگے تھے۔

افغان خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ اورنیشنل سیکورٹی کے ترجمان عبدالحبیب صدیقی نے افغان طالبان رہنماء ملاعمرکی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ ملاعمراپریل2013کراچی میں بیماری کے باعث انتقال کرگئے تھے ۔غیرملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق افغان خفیہ ادارے کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ ملاعمرکراچی کے ہسپتال میں زیرعلاج تھے ان کاانتقال بیماری کے باعث اپریل2013میں ہواتھاجبکہ افغان حکومت نے طالبان رہنماء ملاعمرکی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ مذاکرات اب پہلے سے زیادہ مضبوط اوربہتراندازمیں ہوں گے ،افغان حکومت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ملاعمراپریل2013ء میں پاکستانی علاقے میں ہلاک ہوچکاہے ،ملاعمرکی ہلاکت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات پرکوئی اثرنہیں پڑیگا،تمام تنظیمیں مذاکرات کی طرف آئیں ،افغان حکومت کاکہناہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات اب پہلے سے زیادہ مضبوط اوربہتراندازمیں ہوں گے ،ملاعمرکی ہلاکت سے مذاکرات کاراستہ مزیدہموارہوگیاہے ،مسلح گروہ جنگ بندی کرکے مذاکرات کی میزپرآئیں جبکہ امریکہ نے کہاہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملاعمرکی ہلاکت کی اطلاعات قابل اعتبارہیں۔

ترجمان وائٹ ہاوٴس کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں ملاعمرکی ہلاکت کے حوالے سے تحقیقات کررہی ہیں ۔اورہلاکت کی خبرپرنظررکھی ہوئی ہیں ادھرافغان طالبان کے ایک دھڑے کے ترجمان ذبیح الله مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ ملا عمر اب بھی زندہ ہیں اور افغان طالبان کی قیادت کررہے ہیں۔جبکہ افغان حکومت نے پاکستان کو ملا عمر کی ہلاکت کے حوالے سے باضابطہ طور پر آگاہ کردیا ہے۔

گزشتہ روز ملا عمر کی ہلاکت سے متعلق عالمی میڈیا پر جب خبریں شدت کے ساتھ نشر ہوئیں تو افغان طالبان ملا یعقوب دھڑے کے ترجمان ذبیح الله مجاہد نے ایک امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ملا عمر کی ہلاکت سے متعلق خبریں بے بنیاد ہیں وہ زندہ ہیں اور طالبان کی قیادت کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ امیر مولانا ملا عمر چودہ سال سے روح پوشی کی زندگی اس وقت سے گزار رہا تھا جب نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر یلغار کردی۔ امریکہ نے ملا عمر کے سر کی قیمت دس ملین ڈالر رکھی تھی۔

متعلقہ عنوان :