سینیٹ قائمہ کمیٹی آئی ٹی کا پی ٹی سی ایل کا قوم کا قیمتی اثاثہ اونے پونے فروخت کرنے کے ذمہ داروں کے احتساب کا مطالبہ ،کمیٹی کا موبائل فون کمپنیوں کا صارفین سے اربوں روپے ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرنے کے حوالے سے ممبر آئی ٹی اور ایف بی آر کے مابین تضاد پر افسوس کا اظہار ،چےئرمین کمیٹی کی اعلیٰ حکام کی سخت سرزنش ،اگلے اجلاس میں موبائل کمپنیوں و ایف بی آر حکام کو بھی طلب کرنے کا فیصلہ،ہم کہانی بنانا چاہتے ہیں حکام بگاڑنا چاہتے ہیں ٹیکس کٹوتی کا معاملہ دس سال سے کیوں کلےئر نہیں ہوا،چئیرمین کمیٹی شاہی سید کے ریمارکس

جمعہ 24 جولائی 2015 09:02

اسلام آ باد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24 جولائی۔2015ء)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پی ٹی سی ایل نجکاری کے معاہدے کی کاپیاں فراہم کرنے کے بعد قوم کا قیمتی اثاثہ اونے پونے فروخت کرنے کے ذمہ داروں کا احتساب کرنے کا مطالبہ کردیا ہے،کمیٹی نے موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے صارفین سے اربوں روپے ٹیکس کی مد میں وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرنے کے حوالے سے ممبر آئی ٹی اور ایف بی آر کے مابین تضاد پر افسوس کا اظہار کردیا ہے،کمیٹی کا اجلاس سینیٹر شاہی سید کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

چےئرمین کمیٹی نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرنے کی بجائے پی ٹی سی ایل کے40ہزار پینشنرز اور تقریباً10ہزار بیواؤں کو پینشن ادا نہ کرنے اور وزارت کی طرف سے وزیراعظم سے منظوری کے بعد سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ملازمین فوت ہوچکے بیوائیں پنشن کے انتظار میں ہیں، نجکاری کا غلط فیصلہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے بجائے غریب ملازمین کے ساتھ ظلم کیا جارہا ہے جس پر کمیٹی نے متفقہ طور پر وزیراعظم سے سفارش کی کہ سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر نہ کی جائے سینیٹر روبینہ خالد کی طرف سے پچھلے اجلاس میں موبائل فون کارڈ سے کٹوتی کی رقم کا سرکاری خزانے میں جمع ہونے کے حوالے سے اٹھائے گئے دوبارہ سوال پر وزارت پی ٹی اے اور ممبر ٹیلی کام ممبر فنانس کے جوابات میں تضادات کھل کر سامنے آئے جس پر چےئرمین کمیٹی سینیٹر شاہی سید نے اعلیٰ حکام کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ صارفین سے کٹوتی کی جانے والی رقم کے حوالے سے ایف بی آر آگاہ کرنے سے قاصر ہے تو وزارت آئی ٹی بھی روزانہ کٹوتی کی جانے والی رقم کے بارے میں آگاہ نہیں اگلے اجلاس میں موبائل کمپنیوں اور ایف بی آر حکام کو بھی طلب کرنے کا فیصلہ کیا،چےئرمین نے ممبر ٹیلی کام مدثر کو جھڑک دیا اور ممبر فرنانس کی سرزنش کردی اور کہا کہ سرکاری ملازم پرائیویٹ کمپنیوں کی نمائندگی کیوں کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

چےئرمین نے کہا کہ ہم کہانی بنانا چاہتے ہیں حکام کہانی بگاڑنا چاہتے ہیں ٹیکس کٹوتی کا معاملہ دس سال سے کیوں کلےئر نہیں ہوا،ایف بی آر والے کہاں سوتے رہے کمیٹی کے اجلاس میں آگاہ کیا گیا کہ گزشتہ مالی سال میں آئی ٹی برآمدات37کروڑ ڈالر تھیں جن میں دو سے اڑھائی کروڑ ڈالر ایگزیکٹ کی تھیں جس پر چےئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایگزیکٹ کی برآمدات کو خارج کردیا جائے کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں پانچ سو ٹیلی سنٹر قائم کرنے کا منصوبہ ہے جس پر8ارب40کروڑ خرچ ہونگے،پاک چین راہداری کے تحت راولپنڈی کے خنجراب تک 820 کلومیٹر اپٹک فائبر لائن بچھائی جائے گی جس پر4کروڑ 40لاکھ ڈالر خرچ ہونگے،یو ایس ایف فنڈ سے پسماندہ علاقوں میں فون کی سہولیات باہم پہنچائی جارہی ہیں،ملک کو26حصوں میں تقسیم کیا گیا،بہاولپور،ڈی جی خان،سکھر میں منصوبے مکمل تربت،مستونگ میں جاری ہیں،4ہزار42موضوعات میں سہولیات باہم پہنچا دی گئی ہیں،بلوچستان میں آپٹکل فائبر کی سہولت کیلئے102منصوبے کے ٹھیکے دے دئیے گئے ہیں،باہر سے آنے والی کالوں پر2005ء سے اب تک22ارب 76کروڑ روپے اور اے پی سی سے64ارب روپے وصولیات ہوئی ہیں اور منصوبوں پر18ارب روپے کے اخراجات ہوئے ہیں،یو ایس ایف کی وصولیوں کے حوالے سے چےئرمین کمیٹی نے کہا کہ کل وصولیاں 86ارب اور اخراجات 18ارب ہیں بقیہ68/69ارب کا کوئی حساب نہیں کس مد میں جمع ہیں یا کس بنک کے کونسے اکاؤنٹ میں جمع ہیں۔

سینیٹر عثمان سیف اللہ،روبینہ خالد،شبلی فراز،تاج آفریدی نے تکنیکی سوالات کے ذریعے یو ایس ایف کے نہ خرچ ہونے والی رقم وزارت خزانہ کی طرف سے گردشی قرضوں میں ادائیگی اور اب تک اس فنڈ کو استعمال نہ کرنے کی تفصیل فراہم کرنے پر زور دیا ممبر ٹیلی کام،ممبر ٹیلی کام،ممبر فنانس اور ایڈیشنل سیکرٹری وزارت سینیٹرز کے سوالات پر بے بس نظر آئے جس پر چےئرمین کمیٹی ہدایت دی کہ ایک ہفتے کے اندر یو ایس ایف فنڈ کی وزارت بنک کمرشل یا پبلک اکاؤنٹ سے تحریری آگاہ کیا جائے اور کمیٹی کو یہ تفصیل بھی فراہم کی جائے کہ یو ایس ایف اکاؤنٹ کب تبدیل ہوا اس سے بجٹ کا خسارہ تو پورا نہیں کیا گیا اور گردشی قرضے کس سال ادا کئے گئے ۔

چےئرمین کمیٹی نے پی ٹی سی ایل کی نجکاری کو ملک اور قوم کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ معاہدے میں ایسی شرائط تسلیم کی گئی جو پوری نہیں کی جاسکتی تھیں،800ملین فنڈز کی جائیدادیں بھی اتصلات کے حوالے کردی گئیں۔سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ جس بیورو کریٹ جس وزیر نے غلط طریقے سے معاہدہ کرکے قوم کا اثاثہ فروخت کیا مکمل احتساب کیا جائے اور قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہئے ایڈیشنل سیکرٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ اتصلات کا معاملہ نجکاری کمیشن سے متعلقہ ہے جس پر چےئرمین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت اداروں کے سیف گارڈ کا دعویٰ کرتی ہے،دوسری طرف معاملہ نجکاری کا بتایا جارہا ہے جو افسوسناک ہے اور کہا کہ کسی سے کوئی ذاتی لڑائی یا رنجش نہیں کمیٹی کا مقصد اصلاح اور بہتری ہے بیورو کریسی رویہ درست کرے سفارشات پر ٹس سے مس نہ ہونا چھوڑ دیا جائے2012سے2015تک تمام سفارشات پر عملدرآمد کا ایک ایک کرکے جواب دیا جائے اجلاس کا آگاہ کیا گیا کہ ورچوئل یونیورسٹی میں ایک لاکھ طالبعلم رجسٹرڈ ہیں ورچوئل یونیورسٹی کے تین بہترین طلباء کو مختلف یونیورسٹیوں سے وظائف ملے ہیں سائبر کرائم بل کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ بل قومی اسمبلی میں بھجوا دیا گیا اس کی منظوری سے مضبوط قانون سازی میں مدد ملے گی جس پر چےئرمین کمیٹی نے آگاہ کیا کہ چےئرمین سینیٹ سے مشاورت کرلی گئی ہے سائبر کرائم بل کی منظوری کیلئے دونوں ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی قائم کرکے متفقہ منظوری دی جائے گی سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن کے حکام نے آگاہ کیا کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں افغان سموں کے سگنل موصول ہورہے ہیں جس کی وجہ سے موبائل کمپنیاں فاٹا میں اپنی خدمات فراہم کرنے سے پیچھے ہٹ گئی ہیں اور آگاہ کیا کہ ایس ای او حکومت کو صارفین سے حاصل شدہ ٹیکس کی پوری رقم ادا کر رہا ہے کمیٹی میں آگاہ کیا گیا کہ ایف بی آر نے کل ریونیو322ارب اکٹھا کیا جس میں موبائل کمپنیوں کے120ارب بھی شامل ہیں۔

کمیٹی کے اجلاس میں وزارت پی ٹی اے اور دوسرے اداروں کی طرف سے دی گئی نامکمل تفصیلات کے حوالے سے چےئرمین کمیٹی مختلف مثالیں دے کر بیورو کریسی کو اپنا رویہ درست کرنے کی طرف متوجہ کرتے رہے وزارت کی طرف سے بریفنگ پیپر میں سیف گارڈ کے کردار کے حوالے سے چےئرمین کمیٹی نے کہا کہ اراکین کے سوالوں کے جواب میں ہر بات چیلنج کے طور پر بتائی جارہی ہے اور کہا کہ یہ اس طرح ہی ہے کہ باغ کا مالک چوکیدار سے پوچھے کہ باغ کی حفاظت کیسے کرتے ہو چوکیدار جواب دے کہ یہ میرے لئے ایک چیلنج ہے،ایف بی آر اور پی ٹی اے کی طرف سے صارفین کے کارڈوں سے کٹوتیوں کے اختیار کے حوالے الگ الگ مؤقف پر چےئرمین کمیٹی نے کہا کہ کارڈ کی فروخت وقت کا استعمال اور وصولیوں کے ریکارڈ کے حوالے سے آگاہی نہ دینا ملی بھگت ہے اور مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح پانی کی قلت نہیں معاملہ کمائی ہے اسی طرح کارڈ کی فروخت سے استعمال تک معاملہ آپس میں ہی طے کرلیا گیا ہے،موبائل کمپنیوں کے دورانیے کو منٹ قرار دینے کے حوالے سے چےئرمین کمیٹی نے انکشاف کیا کہ سینیٹر تاج آفریدی کو مختلف موبائل کمپنیوں نے کم دورانیے اور پوری وصولی کے حوالے معاہدے کی پیشکش کی تھی جو سینیٹر تاج آفریدی نے ٹھکرا دی۔

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ ملک اور قوم کیلئے ہمیں ایک پیج پر ہونا ہوگا،وزارت اور پی ٹی اے بیرونی کمپنیوں کی بجائے پاکستان اور پاکستانیوں کا دفاع کرے۔سینیٹر روبینہ خالد نے بھی صارفین کے کارڈوں سے کٹوتی کے حوالے سے پی ٹی اے اور وزارت کے حکام کے جواب کو گول مول اور بات کو گھمانا پھرانا قرار دیا۔کمیٹی کے اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری وزارت بابر حسن بھوانہ،ممبر مدثر حسین،عبدالصمد اور متعلقہ محکمہ جات کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی

متعلقہ عنوان :