این جی اوز کیس ،سپریم کورٹ نے این جی اوز کی فنڈنگ ، اخراجات اور دیگر تفصیلات وفاق و چاروں صوبائی حکومتوں سے طلب کرلیں، این جی اوز سے متعلق بیس لائن ڈیٹا کو اسٹیبلش کرنے کا حکم ،نیکٹا کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار ،حکومت میں سنجیدگی نظر نہیں آرہی،اگر کام نہیں کرنا تو ہمیں بتا دیا جائے ہم فائل بند کردیتے ہیں اس میں ہمارا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ؛جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

جمعرات 23 جولائی 2015 08:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23 جولائی۔2015ء)این جی اوز سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے این جی اوز کی فنڈنگ ، اخراجات اور دیگر تفصیلات وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں سے طلب کرلی ہیں اور این جی اوز سے متعلق بیس لائن ڈیٹا کو اسٹیبلش کرنے کا حکم دیا ہے،جبکہ این جی اوز سے متعلق نیکٹا کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے ۔ سماعت کے دوان جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت میں سنجیدگی نظر نہیں آرہی ۔

اگر کام نہیں کرنا تو ہمیں بتا دیا جائے ہم فائل بند کردیتے ہیں اس میں ہمارا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے ۔ہر چیز تکلیف کا باعث ہے ہر صوبے کی حکومت آتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم نے کام نہیں کیا جبکہ جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یورپین ممالک کے لڑکے اور لڑکیاں دہشتگرد گروپوں میں شامل ہورہے ہیں ہمیں بھی محتاط رہنا چاہیے ہماری ایجنسیاں اور وزارت خارجہ پہلے کیا کرتی رہی ہیں ان کو یہ معلوم نہیں کہ این جی اوز کی فنڈنگ کا سورس کیا ہے ابھی تک آپ کے پاس ڈیٹا نہیں تھا عدالت کے کہنے پر آپ نے کام شروع کیا تشویش اس بات پر ہے کہ کسی کو کوئی معلومات نہیں ہیں ۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی سماعت شروع ہوئی تو نیکٹا کے نیشنل کو آرڈنیٹر محمد حامد خان نے رپورٹ پیش کی جس کو عدالت نے غیر تسلی بخش قرار دیدیا ۔رپورٹ پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ چوبیس دسمبر سے آج تک آٹھ ماہ ہوگئے ہیں ابھی منظم طریقے سے پالیسی مرتب نہیں کی جاسکی ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت جے آئی ٹی بننی تھی جس کو آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود نہیں بنایا جاسکا ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے پوچھا کہ اس حوالے سے پہلی سمری کب بھیجی تھی تو بتایا گیا کہ پہلی سمری اٹھارہ مارچ کو پی ایم ہاؤس بھیجی گئی تھی لیکن کچھ اعتراضات کے ساتھ اپریل میں واپس آگئی اور نو جولائی کو دوبارہ سے سمری واپس بھیجی گئی جسٹس جواد ایس خواجہ نے پوچھا کہ نیکٹا نے دو ارب روپے ایڈیشنل بجٹ کی ڈیمانڈ تیار کی تھی یہ کب بھجوائی گئی تو بتایا گیا کہ نو جولائی کو سمری جب بھیجی گئی اس کے ساتھ یہ ڈیمانڈ بھیجی گئی جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیا ابھی تک بجلی کی منظوری نہیں ہوئی تو بتایا گیا کہ ابھی سمری بھیجی ہے اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیشنل ا یکشن پلان کے حوالے سے حکومت میں سنجیدگی نظر نہیں آرہی اور نیکٹا بھی سنجیدہ نظر نہیں آرہی اگر کام نہیں کرنا تو بتا دیا جائے ہم فائل بند کردینگے اس میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے نیشنل ایکشن پلان کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے ہم نے دو بنایدی نکات اٹھائے تھے کہ نیکٹا کو مضبوط کیا جائے لیکن ابھی تک آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود آپ کی جے آئی ٹی نہیں بن سکی اس پر وکیل ساجد بھٹی نے بتایا کہ ہم نے ایک ہیلپ لائن تیار کی ہے جس میں عوام الناس کسی بھی وقت خطرے کے پیش نظر کال کرکے ہمیں بتا سکتے ہیں ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے پوچھا کہ جے آئی ٹی کب بنے گی اور آپ کے ایڈیشنل بجٹ کے بارے میں کیا رپورٹ ہے تو بتایا کہ سمری وزیراعظم کو بھجواچکے ہیں جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ٹیبل پر کوئی فیصلہ کرلیا جائے سمری بار با ادھر ادھر کیوں جارہی ہے ایک ہی سمری تیسری مرتبہ تیار کی جا چکی ہے ۔تشویش اس بات کی ہے کہ این جی اوز سے متعلق کسی کو کوئی معلومات نہیں اور یہ ایک وائرس کی طرح معاشرے میں پھیلتی جارہی ہے بیس لائن ڈیٹا کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے یہ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے تین ماہ میں ایک غیر معروف این جی او قبائلی علاقوں میں تین کروڑ روپے کس مقصد کیلئے خرچ کررہی ہے ۔

نیکٹا کے نیشنل کو آرڈنیٹر حامد علی خان نے عدالت کو بتایا کہ نیکٹا میں 503افراد کو تعینات کرنا تھا ہم نے یہ لوگ فورسز سے لینے تھے لیکن ضرب عضب کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا اس کیلئے عام عوام سے لوگ لینا پڑینگے جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ ملٹی پرپز لوگ لیا کرینگے اور اس حوالے سے حکمت عملی تیار کریں دوسرے ملکوں میں کسی تنظیم کو کارروائی کرنے سے قبل پکڑ لیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا صرف اس لئے ممکن نہیں کیونکہ ہمارے پاس این جی اوز سے متعلق بنیادی ڈیٹا نہیں ہے این جی اوز کے پاس پیسے کدھر سے آتے ہیں اور کہاں خرچ ہوتے ہیں اس کا کسی کو بھی علم نہیں ہے ۔

وزارت داخلہ کیا کررہی ہے ہماری آنکھوں میں دھول نہ جھونکی جائے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاتعداد رجسٹرڈ این جی اوز کام کررہی ہیں 114این جی اوز میں سے صرف 19این جی اوز رجسٹرڈ ہیں ۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ ہم نے قومی جنگ لڑنی ہے تو اس کیلئے ہمیں برطانیہ جیسی حکمت عملی اپنانا ہوگی آج مارکیٹ میں بارود کی کم سے کم قیمت پچیس ہزار ہے یہ چیزیں بیرون ملک فنڈنگ سے خریدی جاتی ہیں جب تک یہ فنڈنگ روکی نہیں جائے گی حالات بہتر نہیں ہونگے سندھ کے سیکرٹری نے کہا کہ ہمیں سٹیٹ بینک تک اپروچ دی جائے تاکہ ہم این جی اوز سے متعلق اکاؤنٹس کی تفصیلات معلوم کرسکیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 23شیڈول بینک ہیں اگر آج آڈٹ کریں تو دو دن کے اندر این جی اوز سے متعلق تمام اکاؤنٹس کی دستاویزات تفصیل کے ساتھ مل جائینگی کوئی بھی بینک ایسا نہیں جس میں دس سے زیادہ این جی اوز کے اکاؤنٹس ہوں ۔

کیس کی سماعت کو پیر تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں سے این جی اوز سے متعلق فنڈنگ اخراجات اور دیگر تفصیلات طلب کرلی ہیں ۔

متعلقہ عنوان :