جوہری معاہدے کے بعد ہم پر عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں ، ایرانی وزیر خارجہ ،ایران اپنی جوہری تنصیبات کو اقوام متحدہ کے معائنوں کے لیے کھول دے گا، کسی بھی صورتحال جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کرینگے ،’آج ایک تاریخی دن ہے، ہم نے وہی حاصل کر لیا ہے جس کی دنیا کو امید تھی، ‘جواد ظر کی یورپین یونین کی مندوب کے ہمراہ پریس کانفرنس، معاہدہ عالمی تعلقاتِ عامہ میں ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے یہ ساری دنیا کے لیے امید کی کرن ہے، فیدریکا

بدھ 15 جولائی 2015 08:37

ویانا (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔15 جولائی۔2015ء)یورپی یونین کی خارجہ امور کی مندوب فیدریکا موگیرینی اور ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کو منظوری کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔جوہری پروگرام محدود کرنے پر ایران کے خلاف عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی اور ایران اپنی جوہری تنصیبات کو اقوام متحدہ کے معائنوں کے لیے کھول دے گا۔

آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والے مذاکرات کی کامیابی کی تصدیق کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایران نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ کسی بھی صورتحال میں ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کرے گا۔

(جاری ہے)

’آج ایک تاریخی دن ہے۔ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ آج ہم یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ایرانی جوہری معاملے کے حوالے سے معاہدہ کر لیا گیا ہے۔ ہم نے وہی حاصل کر لیا ہے جس کی دنیا کو امید تھی یعنی امن کا مشترکہ عزم۔

‘انھوں نے کہا کہ کسی کے خیال میں بھی یہ کام آسان نہیں تھا اور تاریخی فیصلے آسان نہیں ہوتے۔ دونوں رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’یہ صرف ایک معاہدہ نہیں ہے، یہ سے کے لیے اچھا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کی وجہ سے دس سالہ بحران ختم ہو جائے گا۔‘جواد ظریف نے کہا ’اس معاہدے پر عمل درآمد سے بین الاقوامی برداری پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

اقوام متحدہ سمیت دیگر پابندیوں کے خاتمے سے تجارت اور اقتصادیات میں اضافہ ہو گا۔ یہ ایک طویل معاہدہ ہے اس کے تمام نکات پر فوری طور پر بات نہیں کی جا سکتی۔ یہ معاہدے سکیورٹی کونسل میں بھی پیش کیا جائے۔ یہ معاہدہ نئی راہیں کھولے گا اور مجھے توقع ہے کہ اس پر آئی اے ای اے کی معاونت سے مکمل طور پر عمل درآمد کیا جائے گا۔‘ایران کے جوہری معاہدے کے بعد صدر براک اوباما نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا یہ معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا بہترین طریقہ کار تھا۔

انھوں نے کہا کہ یہ معاہدہ دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاوٴ میں اہم رکاوٹ ہے۔انھوں نے کہا اس معاہدے کی غیر موجودگی میں یہ متوقع ہے کہ خطے کے دیگر ممالک بھی جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کریں اور دنیا ایک مرتبہ پھر ہتھیاروں کی ڈور میں پھنس جائے۔انھوں نے کہا کہ ’یہ معاہدہ امریکی سفارت کاری کے باعث طے پا سکا ہے۔ ہمارے خیال میں جوہری ہتھیار کا تیزی سے پھیلاوٴ ہو رہا ہے خاص کر کے مشرق وسطیٰ میں۔

اس معاہدے سے ایران جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے دور ہو گیا ہے۔‘صدر براک اوباما نے کہا ’معاہدے کے تحت ایران اپنی افزودہ یورینیم کے ذخائر تلف کرے گا اور آئندہ دس سال یورینیم کی افزودگی میں کمی بھی کرے گا۔ اس معاہدے کی بنیاد صرف اعتماد نہیں ہے بلکہ کڑے معائنے کے ذریعے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔‘صدر اوباما نے مزید کہا ’معاہدے کے تحت جوہری معائنہ کار جب چاہیں، جہاں بھی چاہیں کسی بھی حساس تنصیبات کا معائنہ کار سکتے ہیں۔

اگر ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو تمام اقتصادی پابندیوں پر فوری طور دوبارہ عائد کر دی جائیں گی۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لیتا۔‘’میں چھ برسوں سے امریکہ کا صدر ہوں اور یہ ایک مشکل ترین فیصلہ تھا۔ ہم ایران کے ایٹمی تنصیبات تباہ بھی کر سکتے تھے۔ لیکن اس سے مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ چھڑ جاتی۔

میں کانگریس میں اس معاہدے پر تفصیلی بات چیت کرنے پر تیار ہوں۔ میں پر اعتماد ہوں کے اس معاہدے سے ہمارے قومی سلامتی محفوظ ہوئی ہے۔‘منگل کو ایران اور عالمی طاقتوں کے وزرا کی حتمی ملاقات کے آغاز پر ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ وہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے تمام قوتوں کے شکرگزار ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’ایک غیر ضروری بحران کے ایسے حل پر جس میں دونوں فریقوں کی جیت ہوئی، میں سب کا شکر گزار ہوں۔

‘ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ ہم ایک ایسے معاہدے پر پہنچ رہے ہیں جو بیعیب تو نہیں لیکن یہ وہ ہے جو ہم حاصل کر پائے اور یہ اہم کامیابی ہے۔‘جواد ظریف نے کہا کہ ’آج کا دن امید کے خاتمے کا دن بھی ہو سکتا تھا لیکن ہم امید کا نیا باب شروع کر رہے ہیں۔‘یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ہم سب اس فیصلے کے بارے میں جانتے ہیں جو کہ جوہری پروگرام کے بارے میں لیا جا رہا ہے لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ عالمی تعلقاتِ عامہ میں ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے اور یہ ساری دنیا کے لیے امید کی کرن ہے۔‘

متعلقہ عنوان :