انکوائری کمیشن،ن لیگ،ق لیگ،جماعت اسلامی، بی این پی مینگل، عوامی کے دلائل مکمل، بلوچستان میں الیکشن نہیں چناؤ ہوا،وکیل بی این پی عوامی، انتظامی بے ضابطگیاں سامنے آئیں منظم دھاندلی کا کوئی عنصر شامل نہیں،شاہد حامد،انتخابی عمل کی کمزوریوں کو درست کرنا ہو گا،خالد رانجھا،کراچی میں فوج کی نگرانی میں انتخابات کرانے کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا،وکیل جماعت اسلامی، بلوچستان میں دھاندلی کا ماسٹر مائنڈ چیف سیکرٹری تھا،شاہ خاور و دیگر کے دلائل، الیکشن کمیشن اور ایم کیو ایم کے وکیل آج طلب ، کارروائی ملتوی

جمعہ 3 جولائی 2015 08:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3 جولائی۔2015ءِ)دوہزار تیرہ الیکشن کی تحقیقات مکمل ہونے کے قریب تر پہنچ گئیں ،تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں فیصلے کے حوالے سے بے تابی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ مسلم لیگ ن،مسلم لیگ ق،جماعت اسلامی ، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل و عوامی نے دلائل مکمل کر لیے،آج جمعہ کو ایم کیو ایم اور الیکشن کمیشن کے وکلاء کمیشن میں دلائل دیں گے،چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات مین مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لئے کارروائی جاری رکھی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں نگران دور میں کابینہ نہیں بنائی گئی بلوچستان میں وزیراعلی عبدالمالک بلوچ کو جتوانے کے لیے دھاندلی کرائی گئی بلوچستان میں الیکشن نہیں چناؤ ہوا تھاایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم موسم خرابی کی وجہ سے اسلام آباد نہیں پہنچ سکے جس پر ایم کیو ایم کے سینیٹرمیاں عتیق نے کمیشن کو کہا کہ ہمارے تحریری دلائل کو ہی حتمی دلائل سمجھا جائے بعد ازاں کمیشن نے فروغ نسیم کو دلائل کے لیے آج طلب کر لیا، مسلم لیگ ن کے وکیل شاہد حامد نے عدالت بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اسلام آباد میں دھرنے دیے عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب سے استعفوں کا مطالبہ کیا ہماری حکومت نے ان پارٹیوں کی جانب سے عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر الزامات کے بعد کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کروائی جا سکیں ہم نے دوران الیکشن کسی قسم کی دھاندلی نہیں کی دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں انتظامی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں لیکن ان میں بدنیتی یا منظم دھاندلی کا کوئی عنصر شامل نہیں اس بنا پر ان انتخابات کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اسی لیے ایسا میکنیزم اختیار کرنا چاہیے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے بلوچستان سے قومی اسمبلی کی نو نشستوں پر صرف چالیس ہزار ووٹ حاصل کیے،بعض قوتیں بلوچستان میں الیکشن نہیں کروانا چاہتی تھی،کسی جگہ سے آر او اور جبری ووٹ ٹھوسنے کی شکایت نہیں ملی،فارم پندرہ کی گمشدگی میں کے پی کے نمبر ون ہے،قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نتائج حتمی ہو چکے ہیں انکوائری کمیشنمیں مسلم لیگ ( ق ) کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھانے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریٹئرننگ افسران کو انتخابی نتائج مرتب کرتے وقت امیدواروں کو بلایا جانا چاہئے تھا۔

اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آر اوز آئے تھے اور آپ نے ان پر جرح بھی کی تھی خالد رانجھا نے کہا کہ آر اوز نے کہا تھا کہ انہوں نے نوٹس جاری کئے تھے کچھ آئے اور کچھ لوگوں تک نوٹس ہی نہیں پہنچے۔ الیکٹورل پراسسس کے دوران جو کمزوریاں سامنے آئی ہیں ان کو درست کرنا ہو گا اور میرا معاملہ بھی اس میں سے ایک ہے فارم 15 موجود نہ تھے، تھیلے کھلے ہوئے تھے ۔

یہ ہماری نفسیات کا حصہ ہے کہ اگر ہم کامیاب نہیں ہوئے تو ہم نتائج قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ انتخابات کتنے ہی شفاف کیوں نہ ہوئے ہوں عوام کو یہ کہنے کا حق ہے کہ کچھ غلط ہوا ہے۔تفتیش میں سب سے بڑی رکاوٹ عدالتی ماحول ہے آپ جج اور ہم وکیل کے طور پر پیش ہوتے ہیں اگر جج صاحبان برا نہ مانیں تو ہمیں عام آدمی سمجھ کر دلائل سنیں ۔ الیکشن شفاف ہوئے یا نہیں اس کا فیصلہ کمیشن نے کرنا ہے ان کے دلائل مکمل ہونے پر منیر پراچہ بی این پی کی طرف سے پیش ہوئے اور دلائل دیئے کہ بلوچستان میں انتخابات شفات نہیں تھے حکومتی مشینری کی ذمہ داری شفاف انتخابات کرانا تھا۔

ہمارے ہاں ڈپٹی سپیکر صرف 3 سو ووٹ لے کر منتخب ہوا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کا معاملہ الگ نوعیت کا ہے اس پر منیر پراچہ نے کہا کہ جی ہاں ہمارا معاملہ الگ ہے۔ جماعت اسلامی کے وکیل عبدالرحمان صدیقی نے بھی دلائل دیئے کہ ہمارا مطمع نظر فاٹا اور کراچی کے حالات ہیں ہماری درخواست پر کمیشن نے جو نوٹس دیا تھا اس پر الیکشن کمیشن نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس پر ایم کیو ایم نے جواب دیا ہے کراچی میں انتخابی فہرستیں قانون کے تحت تیار نہیں کی گئیں جبکہ اس حوالے سے عدالت دو فیصلے بھی دے چکی ہے ۔

جن میں 2013 میں پاکستان ورکر پارٹی کا بھی فیصلے آیا۔ کراچی میں ایک گھر کے اندر سے 663 ووٹ رجسٹرڈ تھے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال خراب تھی۔ 18 جماعتوں نے فوج کی نگرانی میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا مگر اس کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ان جماعتوں میں ایم کیو ایم شامل نہیں تھی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ اگر فوج آ گئی تو ان کی مرضی کے انتخابی نتائج نہیں مل سکیں گے۔

عام انتخابات کے 7 دن بعد جب الیکشن آرمی کی نگرانی میں کرائے گئے تو ایم کیو ایم ہار گئی۔ ایم کیو ایم نے نوگوایریاز میں پولنگ سٹیشنز بنوائے سرعام دھاندلی کرائی ۔ صوبائی الیکشن کمیشن کے مطابق انہیں 450 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے صرف 30 پر کارروائی کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کی معاونت کی اور منصوبہ کے تحت ایم کیو ایم کو فری ہینڈ دیا۔

بی این پی مینگل گروپ کی جانب سے شاہ خاور پیش ہوئے اور کہا کہ وہ تحریری دلائل جمع کروا چکے ہیں بلوچستان میں انتخابات نہیں بلکہ چناؤ کیا گیا ہے الیکشن کمیشن کا کردار علامتی تھا ۔ بلوچستان میں دھاندلی کا ماسٹر مائنڈ اس وقت کا چیف سیکرٹری بلوچستان تھا الیکشن کے اگلے دن صوبائی الیکشن کمیشن کی ہدایت پر آر اوز نے اپنی مرضی کا نتیجہ مرتب کیا اور اگلے دن چیف سیکرٹری نے آر اوز کو معطل کر دیا یہ سب ایک منصوبے کے تحت کیا گیا ۔

شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی وہاں پر نگران وزیر اعلی نے دھاندلی کے لئے استادی کا لفظ استعمال کیا یہ لفظ مجھے انگریزی لغت میں نہیں ملا ۔ اس پر جسٹس میر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر آپ کو لغت سے نہیں ملا تو آپ ان سے پوچھ لیتے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق بلوچستان میں دھاندلی کا ذمہ دار کون تھا تو اس پر شاہ خاور نے کہا کہ چیف سیکرٹری ذمہ دار تھا اس پر کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ ان کو اختیارات کس نے دیئے کیا وزیر اعلی نے ایسا کرنے کو کہا تھا ۔

اس پر شاہ خاور نے کہا کہ چیف سیکرٹری خود ہی ان سب امور کا ذمہ دار تھا اور نگران وزیر اعلی سے زیادہ بااختیار تھا ۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد نے بعدازاں دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ دو جماعتوں کے درمیان معاہدہ ہوا عمران خان اور طاہر القادری نے لانگ مارچ شروع کیا اور ان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے بعدازاں قادری لاہور سے لندن چلے گئے ہم نے تین بنیادی وجوہات پر کمیشن بنانے پر راضی ہوئے ایک تو ہم ایک جماعت تھے جن کو مینڈیٹ دیا گیا تھا ۔

ہم دھاندلی کے ذریعے نہیں آئے ۔ دوسرا آئینی اداروں کو بالخصوص الیکشن کمیشن کو کینٹرز پر گالیاں دی جاتی رہیں اور سابق چیف جسٹس اور لاہور ہائیکورٹ کے جج کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ وہ دھاندلی میں ملوث تھے اور انہوں نے آر اوز کے ذریعے دھاندلی کرائی اور آرٹیکل 218 کی خلاف ورزی کی ۔ تحریری معروضات دے چکا ہوں الیکشن میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی اگر ہوئی بھی ہے تو قانونی خلاف ورزی کے تحت نہیں آتی۔

تمام جماعتوں کے معاہدے سے نادرا الیکشن کمیشن ، سیاسی جماعتوں اور حکومت کی طرف سے منتخب ہونے والے ممبران کے نوٹیفیکیشن جاری کئے گئے اگر الیکشن میں دباؤ ڈالا گیا اور قانونی خلاف ورزیاں ہوئی تو اس کے ابھی تک ٹھوس شواہد کیوں سامنے نہیں آ سکے ہیں گیارہ مئی 2013 کو انتخابات ہوئے جس میں قومی اور صوبائی ارکان اسمبلی منتخب ہوئے اور الیکشن کمیشن نے نوٹیفیکیشن جاری کئے ۔

تحریک انصاف کی طرف سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگایا جاتا رہا اور انتخابی خلاف ورزیوں کا کہا گیا جہاں تک سوال ہے کہ مینڈیٹ چوری ہوا تو بلوچستان کی اسمبلی میں تحریک انصاف صرف 24 ہزار ووٹ حاصل کر سکی ہے وہاں ان کا مینڈیٹ کس نے چوری کیا ۔ 51 نشستوں میں سے ایک نشست بھی ان کے حصے میں نہیں آئی۔ یہ ان کا اصل مینڈیٹ تھا 14 الیکشن پٹیشنرز دائر ہوئیں ۔

12 مسترد ہوئیں اور 2 کو فالو کیا گیا ۔بعدازاں فیصلے جاری کئے گئے ۔ قبائلی علاقوں میں پی ٹی آئی کو نشست نہیں مل سکی ۔ پنجاب میں تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی۔ 148 میں سے 10 حلقوں میں پی ٹی آئی کا امیدوار تک نہ تھا صرف 8 نشستیں حاصل کر پائیں یہ رنر اپ نہیں بلکہ تیسرے نمبر پر تھے ۔ 79 نشستوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو تیسرا نمبر بھی نہ مل سکا ۔

51 نشستوں پر ان کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے اور 49 نشستوں پر ن لیگ اور پی ٹی آئی کا براہ راست مقابلہ رہا جہانگیر ترین کے مقابلے میں آزاد امیدوارکامیاب ہوا وہاں ہمارا امیدوار تیسرے نمبر پر تھا ۔ 36 نشستوں پر ن لیگ 20 ہزار سے زائد ووٹوں کی شرح سے جیتی صرف 4 نشستوں پر جیتنے والے امیدواروں کا ووٹ 10 ہزار سے کم تھا ۔ 18 الیکشن پٹیشن ٹریبونلز میں دائر کی گئیں جن میں سے 13 مسترد ہوئیں ایک کا فیصلہ ہوا ۔

4 زیر التواء ہیں نجم سیٹھی کے معاملے میں بھی پی ٹی آئی ثابت نہ کر سکی وہ انتخابات پر اثر انداز ہوئے کسی پولنگ سٹیشن سے جبری طور پر پولنگ ایجنٹ کو نہیں ہٹایا گیا اور نہ ہی کسی آر او کے متعلق شکایت آئی اگر مینڈیٹ چوری ہوتا تو کیا پی ٹی آئی کے ووٹ بیگز سے نکالے گئے تھے یا (ن) لیگ کے ووٹ پہلے رکھے گئے تھے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا یہ محض الزام ہے پی ٹی آئی کا فارم 15 کا بہت بعد میں ذکر کیا ۔

فارم 14 اور 16 پورے ملک سے موصول ہوئے جن کی بنیاد پر تمام صورت حال سامنے آ جاتی ہے اور ان ہی کی بنیاد پر فارم 15 بنایا جاتا ہے اگر ایک بھی فارم 14 غائب ہو تو ریٹئرننگ افسر سرکاری رزلٹ جاری نہیں کر سکتا ۔ فافن رپورٹ بھی عدالتی ریکارڈ پر ہے جس کے مطابق 218 حلقوں کے نتائج بالکل درست تھے عدلیہ کو متنازعہ بنایا گیا خالد رانجھا نے کہا کہ ہر بار ایک نئے انداز سے دھاندلی ہوئی ہے اور اس مرتبہ آر اوز کے ذریعے دھاندلی کرائی گئی یہ عدلیہ پر سخت ترین الزام ہے اور درد ناک صورت حال ہے ۔

2013 کے عام انتخابات سے قبل 16 جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار قرار دیا تھا اور اعتماد کا اظہار کیا تھا ۔ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے کہنے پر ضلعی ججوں کو ریٹرننگ افسران مقرر کیا گیا لیکن دھرنے کے دوران پی ٹی آئی سابق چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی اور آر اوز پر الزامات لگاتی رہی کنٹینرز پر کھڑے ہو کر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ یہ آر اوز کے الیکشن تھے چیف جسٹس نے پوچھا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا آر اوز سے خطاب کا مقصد کیا تھا ؟ اس پر شاہد حامد نے پوری تقریر سنائی جو سبابق چیف جسٹس نے آر اوز سے کی تھی جن میں آر اوز کو ہدایت کی گئی تھ کہ وہ شاف انتخابات کرائیں کیونکہ عدلیہ باوقار ادارہ ہے جس کا وقار مجروح نہیں ہونا چاہئے ۔

(ق) لیگ نے یہی الزام لگایا تھا اور تقریر جمع کروائی تھی۔ شاہد حامد نے کہا کہ 22آر اوز کی جرح عدالت نے کی جن میں چار بلوچستان میں سے تھے سب نے یہی کہا ہے کہ انہوں نے رزلٹ مرتب کرتے وقت فارم 14کو مدنظر رکھا اور کوئی بددیانتی نہیں کی اس کے علاوہ بھی کسی گواہ نے (ن) لیگ کیخلاف بات نہیں کی نہ ہی کسی نے یہ بتایا کہ منظم دھاندلی کیسے ہوئی بیلٹ پیپر کسی پرائیویٹ پرنٹنگ پریس سے نہیں چھپوائے گئے پوسٹ فاؤنڈیشن پریس بھی پاکستان کا سرکاری ادارہ ہے آر اوز نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں انتخابی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ انہوں نے عدالتی کام بھی ساتھ ساتھ کیا کچھ آراوز کے مطابق تو وہ قیامت کا دن تھا ۔

قومی اسمبلی کے 272حلقوں میں سے 137چیلنج ہوئے 135چیلنج نہیں ہوئے چیلنج ہونے والے حلقوں میں سے الیکشن ٹربیونل نے 112 حلقوں کی درخواست مسترد کردی تھی اور 15کو اجازت دے دی گئی تھی جن میں سے دس کا فیصلہ التواء کا شکار ہوا ۔ الیکشن ٹربیونل نے 91فیصد نتائج کو فیئر قرار دیا چاروں صوبوں کے 577 حلقوں میں سے 307 کیخلاف کوئی عدالت نہیں گیا 270چیلنج ہوئے اور 216کی درخواست مسترد کردی گئی 36کی اجازت دے دی گئی 17کا فیصلہ ابھی تک التواء کا شکار ہے سپریم کورٹ میں 49کا فیصلہ التواء کا شکار ہے اور 23حلقوں کا فیصلہ دے دیا گیا اس طرح 577 حلقوں میں سے 523 حلقوں کا فیصلہ دے دیا گیا تھا اور ان کے نتائج کنفرم ہیں الیکشن پلان کے تحت 172ملین بیلٹ پیپر چھاپنے کا کہا گیا تھا سکیورٹی پرنٹنگ پریس اور پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا پاکستان میں فی پولنگ سٹیشن اوسط ووٹرز کی تعداد 1234ہے اور 1280فی پولنگ سٹیشن اوسط ووٹرز کے حساب سے بیلٹ پیپر چھاپے گئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 170ملین تھی صوبائی اسمبلی کے ووٹر کی تعداد کم تھی کیونکہ فاٹا اور اسلام آباد میں صوبائی حلقے موجود نہیں ہیں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی اصل تعداد 177ملین تھی اور 4.72فیصد ایکسٹرا بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب میں الیکشن کمیشن نے آر اوز کی مرضی پر کام چھوڑا تھا اس لئے پنجاب کے بارے میں بتائیں کہ وہاں کیا ہوا تو بتایا گیا کہ پنجاب نے تمام تر تعداد میں کمی کی گئی اور پنجاب الیکشن کمیشن نے مطلوبہ تعداد سے 1.42ملین کم بیلٹ پیپر چھاپے جو ایکسٹرا بیلٹ پیپرز آئے ان کو مال خانے میں جمع کروادیا گیا تھا۔ (ن) لیگ ایکسٹرا بیلٹ پیپرز کی ذمہ دار نہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آراوز نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں جو بیلٹ پیپرز واپس نہیں ملے ان بیلٹ پیپرز کا کیا بنا یا ایکسٹرا بیلٹ پیپرز کہاں رکھے گئے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ اگر ایک پولنگ سٹیشن پر 220رجسٹرڈ ووٹ تھے اور وہاں پر تین سو بیلٹ پیپرز بھیجے گئے تو وہاں سے کتنے بیلٹ پیپرز واپس آئے شاہد حامد نے بتایا کہ بیلٹ پیپرز تقسیم کرتے وقت اور بلک بریکنگ کرتے وقت تمام ریکارڈ رکھا گیا تھا بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا فیصلہ انتظامی تھا سیاسی نہیں تھا فارم 15کے حوالے سے تفصیل بتاتے ہوئے شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ خیبرپختونوا میں 42.5فیصد فارم 15غائب ہیں جبکہ بلوچستان میں 48فیصد سندھ میں 45.9فیصد اور پنجاب میں 28.8فیصد فارم پندرہ نہیں ہیں۔

عمران خان جس حلقے سے جیتے وہاں 76فیصد فارم 15غائب ہیں یہ غلطی پریذائیڈنگ آفیسر کی تھی اس میں ریٹرننگ آفیسر کاکوئی قصور نہیں تھا اور یہ چیزیں فرائض کی انجام دہی کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ کس نے کس طرح ذمہ داری ادا کی اس میں نواز لیگ یا کوئی انفرادی جماعت شامل نہیں تھی رزلٹ مرتب کرتے وقت کسی بھی سیاسی فرد یا سیاسی جماعت نے ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ افسران کے کام میں مداخلت نہیں کی بین الاقوامی اداروں کے مطابق یہ پاکستان کے شفاف الیکشن تھے اور حقیقت بھی یہی ہے شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور ایم کیو ایم کے وکیل ڈاکٹر فروغ نسیم کو آج جمعہ کو دلائل دینے کیلئے طلب کر کے کارروائی ملتوی کردی ۔