18ویں،21ویں آئینی ترامیم کیخلاف کیس،سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، تشریح کرینگے کہ آرٹیکل 63 اے پارلیمانی جمہوریت کیلئے موزوں ہے یا نہیں،جسٹس ثاقب نثار، قیام پاکستان کے وقت بی اے کی شرط ہوتی تو قائد اعظم نا اہل ہو جاتے، جسٹس آصف سعید کھوسہ، پارٹی سربراہ کا انتخاب جمہوری عمل سے ہوتا ہے،اٹارنی جنرل سلمان بٹ، وفاقی حکومت کے طریقہ کار سے دہشتگردوں کو سزائے دینے میں مزید تاخیر ہوگی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

ہفتہ 27 جون 2015 03:39

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27 جون۔2015ء )سپریم کورٹ نے18ویں ،21ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کیخلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیاہے۔سپریم کورٹ میں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کیخلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں17 رکنی فل کورٹ بینچ نے کی۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اس بات کی تشریح ہم کرینگے کہ آرٹیکل 63 اے پارلیمانی جمہوریت کیلئے موزوں ہے یا نہیں، آئین کا کوئی بنیادی خاصہ ہو سکتا ہے تو وہ پارلیمانی جمہوریت ہے، کسی شخص پر بطور سربراہ کوئی جماعت اعتماد کرتی ہے تو اس میں کیا خرابی ہے۔

جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ مشرف کے دور میں بڑی سیاسی جماعتیں توڑ کر گروپ بنائے گئے۔ تین بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ جلا وطن تھے۔ موجودہ وزیر اعظم بھی سعودی عرب یا لندن میں جلا وطن تھے۔

(جاری ہے)

اس عمل کے سدباب کیلئے آئین میں 63 اے کو متعارف کرایا گیا۔ ہو سکتا ہے جمہوریت مضبوط ہونے کے ساتھ اس آرٹیکل کو تبدیل کر دیا جائے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل نہیں رہا ، آمروں نے سیاسی جماعتوں کو تقسیم کر کے کنگ پارٹیاں بنائیں۔

مشرف دور میں رکن پارلیمنٹ کیلئے بی اے کی شرط لگا دی گئی، قیام پاکستان کے وقت بی اے کی شرط ہوتی تو قائد اعظم بھی نا اہل ہو جاتے کیونکہ ان کے پاس بیرسٹر کی ڈگری تھی۔ بی اے کی شرط کے باعث بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ بھی نا اہل ہوگئے جنہوں نے سیاسی بحرانوں کے حل میں ہمیشہ کردار ادا کیا۔اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہا کہ پارٹی سربراہ کا انتخاب جمہوری عمل سے ہوتا ہے۔

انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے سیاسی جماعتیں اپنے سربراہ کا انتخاب کرتی ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عوام اپنے نمائندے خود منتخب کرتے ہیں۔ عوامی نمائندوں کو ججوں کی تقرری کے عمل میں بھی کردار دیاگیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پوری قوم دہشتگردی کا جلد از جلد خاتمہ چاہتی لیکن وفاقی حکومت کے طریقہ کار سے دہشتگردوں کو سزائے دینے میں مزید تاخیر ہوگی ، انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کون سے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوانے ہیں یہ فیصلہ وفاقی حکومت کرے۔فل کورٹ نے آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کیخلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔