سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائے موت پانے والے مجرمان کا ٹرائل ریکارڈ پیش نہ کرنے پر اظہار برہمی ، چوبیس گھنٹوں میں ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت،حکو مت سمیت تمام اداروں کو اختیارات آئین نے دیئے کوئی بھی ادارہ یہ اختیار عوامی منشا اور آئین سے ہٹ کر استعمال نہیں کرسکتا،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

منگل 23 جون 2015 08:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23 جون۔2015ء) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائے موت پانے والے مجرمان کا ٹرائل ریکارڈ پیش نہ کرنے پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان کو چوبیس گھنٹوں میں یہ ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت جاری کردی ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ نظام حیات چلانے کیلئے کوئی علیحدہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا جاسکتا ۔

حکو مت سمیت تمام اداروں کو اختیارات آئین نے دیئے ہیں اور کوئی بھی ادارہ یہ اختیار عوامی منشا اور آئین سے ہٹ کر استعمال نہیں کرسکتا برطانوی قانون پر عمل ہونے کے بعد ہی اس کا دیپاچہ بنتا ہے مگر ہمارے ہاں کچھ اور ہی سلسلہ ہے ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ نئی ترمیم کے بعد ہم فوجی عدالتو ں کو پوچھ ہی نہیں سکتے خلاف آئین کوئی ترمیم نہیں کی جاسکتی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ غلطی سے سرحد پار کرنے والے سویلین افراد کا ٹرائل کیا فوجی عدالتیں کرسکتی ہیں ؟ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر سول افراد ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر بھی آجائیں تو اس کا کورٹ مارشل نہیں ہوگا جبکہ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بینچ کو کسی عدالتی نظیر کی ضرورت نہیں اسے ہر طرح کا فیصلہ دینے کا مکمل اختیار حاصل ہے جبکہ اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سترہ رکنی فل کورٹ بینچ کے روبرو دلائل میں موقف اختیار کیا ہے کہ دو تہائی اکثریت سے وجود میں آنے والے قانون کو عدالت یک جنبش قلم ختم نہیں کرسکتی ضیاء الرحمان کیس میں عدلیہ نے تسلیم کیا ہے کہ عدلیہ آئینی ترامیم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی عدلیہ آئین سے بالا تر نہیں ۔

(جاری ہے)

پیر کے روز انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ آئین کا دیپاچہ سپریم نہیں۔ سپریم کورٹ کا اگر فیصلہ دائر اختیار سے باہر ہو تو سول جج بھی اس فیصلے کو ماننے کا پابند نہیں اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ یہی اصول پارلیمنٹ پر بھی لاگو ہوگا تو اس پر اے جی نے کہا کہ جی ہاں ۔ ملک کے دفاع کے خلاف آنے والے ملزمان کا بھی فوجی ٹرائل ہوگا ایسے افراد جن کا تعلق دشمن ملک سے ہو اور وہ پکڑے جائیں تو ان کا کورٹ مارشل ہوگا ۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ سویلین افراد کا کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا ۔ اے جی نے کہا کہ آئین کے بنیادی تین ادوار میں ایک 1947ء سے 1956ء تک دوسرا 1973ء کے آئین میں تیاری میں صرف کردہ وقت اور تیسرا 1977،985 میں لگائے گئے دو مارشل لاء ہیں سندھ ہائی کورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ مجلس شوریٰ کو ترمیم کا حق حاصل ہے عدلیہ آئین میں ترمیم کا اختیار رکھتی ہے اور نہ ہی اس کو کالعدم قرار دے سکتی ہے عدلیہ محض آئین کی تشریح کرسکتی ہے پارلیمنٹ عوام کی امنگوں کی عکاس ہے شیخ لیاقت حسین مقدمے کے مطابق عسکری قیادت نے تین طرح کے ٹرائل کی بات کی گئی ہے ایک تو فوجی اہلکاروں کیخلاف فوج سے منسلک افراد اور دفاع پاکستان سے متعلق افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیاجائے گا عدالت نے اے جی سے کہا کہ آپ کے دلائل اچھے ہیں مگر آپ نے تمام تر دلائل کو ترتیب وار نہیں رکھا لگتا ہے کہ ہمیں روزے کی وجہ سے دلائل کو یکجا کرنے میں مشکل درپیش ہوتی ہے آپ کو انہیں ایک ہی بک میں اکھٹا کرنا چاہیے تھا چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ابھی تک فوجی عدالتوں کا ٹرائل ریکارڈ پیش نہیں کیا منگل تک ضرور جمع کروادیں اس پر اے جی ے کہا کہ جی ہاں جمع کروادیں اس پر عدالت نے سماعت آج منگل تک ملتوی کردی اے جی دلائل جاری رکھیں گے ۔

متعلقہ عنوان :