جلد فیصلہ کرناچاہتے ہیں،جمعہ کوانکوائری کمیشن کی کارروائی سارادن ہوگئی،چیف ،اختیارات سے باہر نہیں جاسکتے ، کمیشن نے خواجہ سعدرفیق کے حلقہ سمیت تین حلقوں کے ریٹرننگ افسران کوآج طلب کر لیا، 5ریٹرننگ افسروں پر جرح مکمل،انتخابی ریکارڈ نہ ہونے پرایک ریٹرننگ افسر سے جرح روک دی آج دوبارہ ریکارڈسمیت پیش ہونے کاحکم، سماعت جمعرات دو بجے تک ملتوی

جمعرات 18 جون 2015 08:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18 جون۔2015ء)عام انتخابات 2013میں مبینہ دھاندلی کے انکوائری کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہاہے کہ جمعہ کوکمیشن کی کارروائی سارادن جاری رکھے گا۔ہم چاہتے ہیں کہ اس اہم ترین معاملے کااب جلد سے جلد فیصلہ کردیاجائے ،ہم اپنے اختیارات سے باہر نہیں جاسکتے ،انھوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روزدیے ہیں جبکہ کمیشن نے خواجہ سعدرفیق کے حلقہ سمیت تین مختلف حلقوں کے ریٹرننگ افسران کوآج جمعرات کوطلب کیاہے ان حلقوں میں حلقہ این اے 125 ‘ 119 اور حلقہ 21 شامل ہیں جبکہ پانچ ریٹرننگ افسران پرجرح مکمل کرلی گئی ، ایک ریٹرننگ افسر سے انتخابی ریکارڈ نہ ہونے پر جرح روک دی آج دوبارہ ریکارڈسمیت پیش ہونے کاحکم دیاہے بدھ کے روز جوڈیشل کمیشن کی کارروائی شروع ہوئی تو چیف جسٹس ناصر الملک نے آر اوز کی فہرست طلب کی جو ان کو دے دی گئی فہرست کے مطابق پہلی ریٹرننگ آفیسر معین بانو سے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اپ کو کتنے بیلٹ پیپرز دیئے گئے تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں انتخابی ایکشن پلان کے تحت بیلٹ پیپرز دیئے گئے۔

(جاری ہے)

جو کل ووٹرز کی تعداد کے برابر تھے‘ قومی اسمبلی میں این اے 222 حلقہ میں دو لاکھ ساٹھ ہزار ساٹھ ووٹرز رجسٹرڈ تھے اور ہمیں 272700 بیلٹ پیپر دیئے گئے 13700 بیلٹ پیپر زائد دیئے گئے اور غیر استعمال شدہ بیلٹ پیپر ہم نے الیکشن کمیشن کو واپس کردیئے حفیظ پیرزادہ نے معین بانو سے جرح کرتے ہوئے سوال کیا کہ آپ کے حلقے میں کتنے ایکسٹرا بیلٹ پیپرز تھے انہوں نے بتایا کہ پانچ فیصد ایکسٹرا بیلٹ پیپر تھے جس پر حفیظ پیرزادہ نے بتایا کہ آپ کے حلقے میں دو لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیلٹ پیپر چھاپے گئے دو معین بانو نے جواب دیا کہ شاہد ایسا ہی ہوگا کیونکہ بیلٹ بک میں 100 پیپر ہوتے ہیں ہم نے کسی بیلٹ بک سے بیلٹ پیپر کو الگ نہیں کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کو واپس کئے جانے والے بیلٹ پیپرز کی تعداد پچیس ہزار تھی۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ این اے 222 میں کتنے ووٹ کاسٹ ہوئے۔ تو معین بانو نے بتایا کہ 1953083 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ اس طرح تو ایک لاکھ سات ہزار دو سو تیرہ بیلٹ پیپر پولنگ آفیسر کے پاس بچ گئے تو ان بیلٹ پیپرز کا کیا گیا توانہوں نے بتایا کہ یہ بیلٹ پیپر پولنگ اسٹیشن سے آنے والے سیل تھیلوں میں بند تھے ان کے بارے میں ہمیں زیادہ تفصیل معلوم نہیں پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے پیکنگ انوائس خود بنائی تھی اس پر بتایا گیا کہ میں نے ہر پولنگ اسٹیشن کی پیکنگ انوائس خود تیار کی اس میں بیلٹ پیپرز اور پولنگ اسٹیشن سے متعلق دیگر سامان درج تھا پیرزادہ نے پوچھا کیا آپ نے پیرزائیڈنگ آفیسر کے دستخط لئے تو بتایا کہ مجھے معلوم نہیں۔

پیرزادہ نے پوچھا کیا آپ کے پاس پیکنگ انوائس موجود ہے اس پر معین بانو نے بتایا کہ ہاں تمام پیکنگ انوائس میں اپنے ساتھ لے کرآئی ہوں۔ معین بانو نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے پریزائیڈنگ آفیسر کو مناسب ٹریننگ نہیں دی تھی میرے ساتھ کام کرنے والے دو اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران نے اس حوالے سے مدد کی۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ فارم پندرہ کی اہمیت کیا ہے تو بتایا پریزائیڈنگ آفیسر نے تمام بیلٹ پیپرز واپس پیش کیئے اس پر معین بانو نے کہا کہ ہاں تمام پولنگ اسٹیشن سے فارم پندرہ موصول ہوئے جن میں کچھ مکمل تھے اور کچھ نامکمل تھے۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا فافن نے آپ کو فارم پندرہ کے حصول کیلئے درخواست دی تھی اس پر معین بانو نے بتایاکہ مجھے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا تمام بیگز آپ نے اپنینگرانی میں پیک کروائے تھے تو انہوں نے بتایا کہ ہاں تمام بیگ میں نے اپنی نگرانی میں تیارکروائے تھے میں نے اور میرے تمام سٹاف نے الیکشن کمیشن کا دیا گیا الیکشن پلان پڑھا تھا۔

شاہدحامد نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کیا آپ کے حلقے سے نوید قمر کامیاب ہوئے تھے تو بتایا کہ میرے حلقے سے نوید قمر کامیاب ہوئے تھے اور یہ 66 ہزار ووٹ سے چیتے تھے۔ منور خان سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ بیلٹ پیپرز کی تعداد کس کی ڈیمانڈ پر بتائی گئی تو منور خان نے جواب دیا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیلئے تعداد الیکشن کمیشن نے بتائی تھی چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ کو قومی اسمبلی کے حلقہ 21 میں رجسٹرڈ ووٹرزکی تعداد معلوم ہے تو اس پر بتایا کہ نہیں مجھے یہ تعداد معلوم نہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مانسہرہ جائیں اور کل دو بجے ریکارڈ سمیت حاضر ہوں ۔

ریکارڈ میں پیکنگ رسیدیں ‘ بیلٹ پیپرز کی تعداد جو آپ نے الیکشن کمیشن کو جمع کروائی۔ فارم پندرہ کا ریکارڈ ایکسٹر بیلٹ پیپرز آپ کے پاس آئے یا نہیں اور فافن کی درخواست پر آپ نے کیا کیا چیزیں پہنچائیں۔ کل آپ دو بجے ریکارڈ سمیت حاضر ہوں۔ پیر بخش سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کے حلقے میں چھاپے گئے بیلٹ پیپرز کی تعداد کس نے بتائی تھی تو اس پر جواب دیا گیا کہ الیکشن کمیشن کو ہم نے پولنگ اسکیم کے مطابق تفصیلات دی تھیں اور الیکشن کمیشن نے خود فیصلہ کیا تھا کہ کتنے بیلٹ پیپرز چھاپے جائیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کے حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد کتنی تھی تو بتایا کہ ہمارے حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد پانچ لاکھ چار ہزار چھ سو چرانوے تھی اور پانچ لاکھ اٹھاسی ہزار چھ سو بیلٹ پیپرز ہمیں بھجوائے گئے۔ پیرزادہ نے جرح کرتے ہوئے پیر بخش سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایکشن پلان پر ہدایات پڑھی تھیں۔ تو بتایا کہ ہاں میں نے ہدایات پڑھی تھیں۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ الیکشن سے کتنے دن قبل آپ کو پولنگ کا سامان دیا گیا تو بتایا کہ ہمیں دو دن قبل پولنگ کا سامان دیا گیا۔ میں نے سول جج الہ محمد کو پولنگ کا سامان لینے بھیجا تھا جس کے ساتھ آرمی اور الیکشن کمیشن کے افراد سمیت پولنگ کا سامان وصول کیا۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ کے حلقے میں کتنے پولنگ اسٹیشن تھے تو بتایا کہ ہمارے حلقے میں 308 پولنگ اسٹیشن تھے۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا تمام بیگز آپ نے خود تیار کئے تھے تو بتایا کہ بیگز میں نے خود تیارکئے تھے میرے ساتھ کچھ لوگ اور بھی تھے جن کے ذمہ یہ کام لگایا تھا۔ پیرزادہ نے ایک رسید دکھاتے ہوئے کہا کہ اس پر پریزائیڈنگ آفیسر کے دستخط نہیں ہیں اس پر پیر بخش نے کہا کہ نہیں ہیں تو نہ کئے ہوں گے۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنے بیلٹ پیپرز تھے اس پر پیر بخش نے بتایا کہ میرے پاس چودہ کارٹن اور تین بیلٹ بکس ایکسٹرا تھے جو میں نے واپس کئے پوچھاکہ ایک کارٹن میں بیلٹ پیپرز کی تعداد کیا تھی تو بتایا کہ اس کا مجھے معلوم نہیں۔

میں ٹیکنیشن نہیں ہوں کہ میں بیلٹ باکس کھول کر بیلٹ پیپرز گنتا۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کتنے بیلٹ پیپرز استعمال ہوئے تو بتایا کہ یہ فارم پندرہ میں درج ہے پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا بیگ سیل تھے تو بتایا کہ اس دن میرے لئے قیامت کا سماں تھا مجھے معلوم نہیں۔ کوئی بیگ لے آتا تھا اور کوئی فارم لے آرہا تھا میں نے تمام بیگ سرکاری گنتی کے بعد مال خانے میں جمع کروا دیئے تھے۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ اصل فارم پندرہ نہیں لائے تو بتایا کہ نہیں میرے پاس اصل فارم پندرہ موجود نہیں تھے شاہد حامد نے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنے فارم پندرہ نہیں ہیں تو بتایا کہ سولہ پولنگ اسٹیشن کے فارم پندرہ میرے پاس موجود نہیں ہیں شاہد حامد نے پوچھا کہ آپ نے اصل فارم پندرہ کیوں نہ لائے۔ تو بتایا کہ میرے حلقے کے فارم پندرہ خراب ہوگئے تھے اور کچھ پھٹ گئے تھے اسلئے میں نے ان کی فوٹو کاپیاں کروادی تھیں شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے حلقے میں کتنے پولنگ اسٹیشن اور پولنگ بوتھ تھے مجھے ہاں مجھے معلوم ہے میرے حلقے میں 308 پولنگ اسٹیشن اور 1012 پولنگ بوتھ تھے شاہد حامد نے پوچھا کہ آپ کے حلقے سے کون جیتا تھا تو بتایا کہ میرے حلقے سے جماعت اسلامی کے امیدوار صاحبزادہ یعقوب جیتے تھے اور تحریک انصاف کے امیدوار ہار گئے تھے۔

اور پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں مجھے بطور گواہ طلب کیا گیا تھا۔ شعیب احمد سے چیف جسٹس نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ بیلٹ پیپرز پیپرز کی تعداد آپ نے متعین کی تھی یا کہ الیکشن کمیشن نے تو بتایا کہ یہ تعداد الیکشن کمیشن نے متعین کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ میرے حلقے NA-43 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد ایک لاکھ 68 ہزار 514 ہے اورمیرے حلقے میں ایک لاکھ نوے ہزار چھ سو بیلٹ پیپرز چھاپے گئے۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ کو بیلٹ پیپرز کب موصول ہوئے تو بتایا کہ ہمیں ایک ہفتہ قبل بیلٹ پیپرز موصول ہوئے تھے۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم تھاکہ آپ کے پاس ایکسٹرا بیلٹ پیپرز آئے تھے تو بتایا کہ نہیں مجھے معلوم نہیں تھاکہ میرے پاس ایکسٹرا بیلٹ پیپرز آئے ہیں۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنے ایکسٹرا بیلٹ پیپر آئے تو بتایا کہ میرے پاس 169 بیلٹ بکس ایکسٹرا تھیں جو میں نے الیکشن کمیشن کو واپس کردیئے تھے ہمارے حلقے میں غلطی سے این اے 44 کی تعداد کے برابر بیلٹ بکس چھاپی گئیں جو کہ ایک ہزار نو سو چھ تھی اور ہمارے حلقے کی تعداد 1744 تھی جو کہ این اے 44 کو بھیجی گئی تھی۔

پیرزادہ نے پوچھاکہ کیا آپ نے پیکنگ انوائس خود بنوائی تھی تو بتایا کہ ہاں میں نے خود بنوائی تھی اور تمام تھیلے میں نے خود تیار کئے تھے۔ پیکنگ انوائس مجھے رزلٹ کے بعد موصول ہوئی۔ پوچھا کہ آپ کے پاس لائے گئے ایکسٹرا بیلٹ پیپرز کہاں گئے تو انہوں نے بتایا کہ میرے پاس آئے ہوئے ایکسٹرا بیلٹ پیپرز مال خانے میں جمع کروادیئے تھے حفیظ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ کو فارم پندرہ موصول ہوئے تو بتایا کہ ہاں مجھے 112 پولنگ اسٹیشن میں سے 96 پولنگ اسٹیشن کے فارم پندرہ موصول ہوئے۔

پوچھا کہ جو فارم پندرہ آپ کو موصول ہوئے تو وہ کہاں ہیں تو بتایا کہ ان کی ایک کاپی ریکارڈ روم میں ہے اور ایک کاپی میرے پاس ہے شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا مذکورہ حلقے سے بسم الله خان جوکہ آزاد امیدوار تھے جیتے تھے اور جماعت اسلامی کے صاحبزادہ ہارون ہار گئے تھے۔ تو بتایا کہ ہاں کیا آپ کے حلقے کے متعلق الیکشن ٹربیونل میں پٹیشن دائر ہوئی تھی تو جواب دیا کہ اس کا مجھے معلوم نہیں۔

سعید اعوان سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کے حلقے میں چھپوائے گئے بیلٹ پیپرز کی تعداد کس نے بتائی تھی تو سعید اعوان نے بتایا کہ حلقہ NA-53 میں بیلٹ پیپرز ہماری ڈیمانڈ کے مطابق چھپوائے گئے تھے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کے حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے حلقے میں ووٹرز کی تعداد 382115 ہے اور ہمیں چار لاکھ 48 ہزار دو سو بیلٹ پیپرز موصول ہوئے۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ کی دیمانڈ کتنی تھی تو بتایا کہ مجھے ابھی یاد نہیں لیکن ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کی طرف سے دی گئی ڈیمانڈ کے مطابق 453915 تھی پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ نے زیادہ تعدادکیوں بتائی تو بتایا کہ ہم نے راؤنڈ فگر دیا تھا پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے پولنگ اسٹیشن کا راؤنڈ فگر دیا یا پولنگ بوتھ کے تو بتایا کہ ہم نے پولنگ اسٹیشن کے مطابق فگر دیئے تھے اور الیکشن کمیشن سے بھی یہی ہدایات آئی تھیں۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ان کے تحریری احکامات ہیں تو بتایا کہ نہیں میرے پاس کوئی تحریری خط نہیں الیکشن کا مواد آپ کو کب موصول ہوا تو بتایا کہ 10 مئی 2013 ء کی شام پانچ بجے موصول ہوا پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے فارم پندرہ بنایا تھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے فارم پندرہ بنایا تھا۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ کے حلقے سے تحریک انصاف کے غلام سرور جیتے تھے۔

تو بتایا کہ ہاں میرے حلقے سے غلام سرور جیتے تھے اور ن لیگ کے چوہدری نثار ہارے تھے۔ حفیظ پیرزادہ نے پوچھاکہ آپ کو دونوں کے درمیان ووٹوں کا فرق معلوم ہے تو بتایا کہ ووٹوں کا فرق تو مجھے معلوم نہیں لیکن اتنا پتہ ہے کہ غلام سرور بڑی لیڈ سے جیتے تھے پیرزادہ نے پچھا کہ آپ کو فارم پندرہ کہاں سے ملے تو بتایا کہ مجھے فارم پندرہ ریٹرننگ آفس ٹیکسلا سے ملے۔

کیونکہ متعلقہ حلقے کا تمام ریکارڈ وہیں موجود ہے اور میری ٹرانسفر ہوچکی ہے۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ جو بیلٹ پیپرز آپ کے پاس آئے تھے تو آپ نے اپنے پاس کتنے رکھے اور آگے کتنے دیئے۔ تو بتایا کہ مجھے ایگزیکٹ فگر یاد نہیں جو میرے پاس ایکسٹرا بیلٹ پیپرز تھے وہ میں نے مال خانے میں جمع کروادیئے تھے پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے رزلٹ مرتب کرتے ہوئے بیگز کھولے تھے تو بتایا کہ نہیں اس کی نوبت نہیں آئی ۔

پوچھا کہ آپ کے حلقے سے کتنے فارم پندرہ غائب تھے تو بتایا کہ میرے حلقے سے 29 فارم پندرہ غائب تھے پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ اس وقت آپ کے پاس 154 فارم پندرہ غائب تھے تو بتایا کہ نہیں یہ بات سراسر غلط ہے میرے پاس صرف 29 فارم پندرہ غائب تھے۔ شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم تھا کہ آپ کے حلقے میں کتنے پولنگ اسٹیشن ہیں اور کتنے پولنگ بوتھ ہیں تو بتایا کہ میرے حلقے میں تین سو تئیس پولنگ اسٹیشن اور سات سو بائیس پولنگ بوتھ ہیں۔

شاہد حامد نے پوچھا کہ آپ کے ضلع کے ڈسٹرکٹ ریٹرنگ آفسیر کون تھے تو بتایا کہ سید معروف ابدالی ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر تھے۔ کیا یہ درست ہے کہ آپ نے رزلٹ مرتب کرتے وقت تھیلے نہیں کھولے تو بتایا کہ ہاں میں نے رزلٹ مرتب کرتے وقت کوئی تھیلا نہیں کھولا۔ شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس اس حوالے سے کوئی درخواست آئی تھی تو کہاکہ نہیں میرے پاس کوئی درخواست نہیں آئی تھی۔

نثار احمد حلقہ NA-118 کے ریٹرننگ آفیسر تھے چیف جسٹس نے پوچھا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیلئے ڈیمانڈ کس نے تیار کی تھی اور نثار احمد نے بتایا کہ یہ میں نے تیار کی تھی اور میں نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرکو دی تھی اس کے بعد انہوں نے الیکشن کمیشن کو دی۔ میرے حلقے کے رجسٹرڈ ووٹ 334256 تھے اور 395360 بیلٹ پیپرز چھاپے گئے میرے پاس بچ جانے والے بیلٹ پیپرز کی تعداد 70700 تھی جو میں نے مال خانے کوجمع کروادی تھی ۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے ایکسٹرار بیلٹ پیپر ‘ پولنگ اسٹیشن کو مدنظر رکھ کر چھپوائے یا پولنگ بوتھ کومدنظر رکھ کر توکہا کہ میں نے الیکشن کمیشن پولنگ اسکیم اور پولنگ بوتھ کومدنظر رکھ کر بیلٹ پیپر تقسیم کئے کیا آپ کو الیکشن کمیشن کی طرف سے ہدایات جاری کی گئی تھیں توبتایا کہ نہیں مجھے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئی تھیں پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ نے بیلٹ پیپر کا بریک اپ کس طرح کیا تو بتایا کہ میں نے یہ بریک اپ پولنگ اسٹیشن کے حساب سے کیا۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا پیکنگ رسید پر آپ نے دستخط کئے تو بتایا کہ نہیں پیکنگ رسید پر ریٹرننگ افسران کرتے ہیں ان کے دستخط کے بعد میرے دستخط ضروری نہیں۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ کے حلقے میں کتنے ووٹ کاسٹ ہوئے تو بتایا کہ میرے حلقے میں 169255 ووٹ کاسٹ ہوئے پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ نے ستر ہزار بیلٹ پیپرز کا کیا کیا۔ تو بتایا کہ 14 مئی 2013 ء کو میں نے صبح ہی الیکشن کمیشن کے آفس میں جمع کروادیئے تھے پیرزادہ نے پوچھا کہ بیلٹ پیپرز جو پولنگ اسٹیشن میں باقی رہ گئے تھے ان کاکیا بنا تو بتایا کہ وہ تھیلوں میں پیک کرکے مال خانے میں بھجوا دیئے گئے۔

پیرزادہ نے پوچھاکہ جو پیکنگ انوائس تیارہوئی تو وہ کس نے تیارکی تو بتایا کہ وہ میں نے تیارکی اور متعلقہ ریکارڈ عدالت کو دکھایا گیا پیرزادہ نے پوچھاکہ کیا آپ نے رزلٹ مرتب کرتے وقت فارم پندرہ اور پیکنگ انوائس کو کمپیئر کیا تھا۔ تو بتایا کہ مجھے ایسی کوئی ہدایات نہیں دی گئی تھی اور نہ ہی مجھے اس کا علم تھا۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا جب رزلٹ مرتب کئے گئے تو فارم پندرہ اور پیکنگ انوائس آپ کے پاس موجود تھیں تو بتایا کہ ہاں فارم پندرہ اور پیکنگ انوائس دونوں میرے پاس موجود تھیں۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ فافن نے آپ کو ایک لیٹر بھیجا تھا جس میں فارم پندرہ مہیا کرنے کی درخواست کی گئی تھی تو بتایا کہ فافن کی طرف سے میرے پاس کوئی درخواست نہیں آئی تھی شاہد حامدنے پوچھاکہ کیا یہ درست ہے کہ مذکورہ حلقے میں 261 پولنگ اسٹیشن اور 761 پولنگ بوتھ تھے تو بتایا کہ 261 پولنگ اسٹیشن تھے لیکن پولنگ بوتھ 674 تھے۔ اس پر عدالت نے سماعت کوآج جمعرات دو بجے تک ملتوی کرتے ہوئے حلقہ این اے 125 ‘ 119 اور حلقہ 21 کے آر اوز کو طلب کرلیا ہے۔

متعلقہ عنوان :