پنجاب کے 8ویں بجٹ سے بھی غریب اور انکے بچے تعلیم، دوائی، نوکری سے محروم رہیں گے، پرویزالٰہی،شہبازشریف کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ریسکیو 1122 کیلئے بھی عوام سے چندہ مانگ رہے ہیں، جنگلہ بس کیلئے اربوں روپے، کسان پر نئے ٹیکس ظلم ہے،تمام رہائشی منصوبے اور آشیانہ سکیم بھی ناکام، 5ارب روپے سے جیلیں بنانے کے منصوبے، خوراک، رہائش، حفاظت فری ہو گی: پریس کانفرنس

پیر 15 جون 2015 08:20

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔15 جون۔2015ءِ) پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ پنجاب کے 8ویں بجٹ سے بھی غریب اور ان کے بچے تعلیم، دوائی، نوکری سے محروم رہیں گے۔ وہ پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری چودھری ظہیرالدین، میاں عمران مسعود، عامر سلطان چیمہ اور دیگر پارٹی رہنماوٴں کے ہمراہ اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ کی معاشی حالت، لوڈشیڈنگ، بیروزگاری اور مہنگائی کے خاتمہ کے دعویدار شہبازشریف کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ ریسکیو 1122 کو ریسکیو کرنے کیلئے بھی عوام سے چندہ مانگ رہے ہیں، 1122، ٹریفک وارڈن سمیت ہمارے دور کے تمام شاندار منصوبوں کو برباد کیا جا رہا ہے، کسان پر نئے ٹیکس لگا کر ظلم کیا گیا ہے، ان کیلئے کوئی سبسڈی نہیں جبکہ لاہور اور راولپنڈی میں جنگلہ بس کو دو ارب ماہانہ سبسڈی دی جا رہی ہے، ان کی دیگر تمام سکیموں کی طرح تمام رہائشی منصوبے اور آشیانہ سکیم بھی ناکام رہی ہیں جبکہ 5 ارب روپے جیلیں بنانے کیلئے مختص ہیں جہاں خوراک، رہائش، حفاظت فری ہو گی۔

(جاری ہے)

چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ صوبہ میں 10نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، غربت، بیروزگاری بہت بڑھ گئی ہے، عوام، کسان، محنت کش، ملازمین سب ان کی جان کو رو رہے ہیں، صنعتکار پریشان ہیں، سرکاری سکول لاوارث نظر آتے ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں مفت دوائیاں نہیں ملتیں، ہمارے دور کا 100ارب کا سرپلس بجٹ والا صوبہ آج 100ارب سالانہ سود قرضوں پر ادا کر رہا ہے۔

انہوں نے بجٹ کا تفصیلی تجزیہ اور حکومتی ناکامیوں کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2014-15ء میں ریونیو ہدف 95ارب تھا لیکن صرف 46ارب وصول کیے گئے، اب ریونیو ہدف پچھلے سال سے 72ارب روپے کم کر دیا گیا ہے جبکہ بال کٹوانے، عورتوں کے میک اپ اور فوٹو بنوانے پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے، پچھلے سال ترقیاتی بجٹ صرف 50%استعمال کیا گیا وہ بھی پسماندہ اضلاع کے فنڈز لاہور میں لگا دئیے گئے، ہمارے دور میں ریکارڈ 93% بجٹ استعمال ہوتا تھا جو اب تک ریکارڈ ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں نہ ہونے کے برابر صرف ساڑھے سات فیصد اضافہ کیا گیا ہے لیکن بجٹ سے پہلے ہی بجلی و تیل کی قیمتیں بڑھا کر مہنگائی میں 100فیصد اضافہ کر دیا گیا ، ہمارے دور کے پن بجلی کے منصوبوں کو نظر انداز کر کے انرجی سیکٹر کیلئے صرف 34ارب روپے رکھے گئے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ انرجی سیکٹر پنجاب حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے، حکومت کے ذمے اندرونی اور بیرونی قرضے بڑھ کر 458ارب روپے ہو گئے ہیں جن پر سود کی ادائیگی کیلئے 119.88 ارب روپے رکھے گئے ہیں، موجودہ بجٹ میں ملتان جنگلہ بس، پیلی ٹیکسی، لیپ ٹاپ اور اورنج لائن جیسے نمائشی منصوبوں کیلئے تو 72ارب روپے مختص ہیں لیکن پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے صرف 70ارب روپے رکھے گئے ہیں جو ماضی کی طرح جنگلہ بس جیسے منصوبوں پر لگا دئیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے راولپنڈی جنگلہ بس کی فی کلومیٹر لاگت قریباً 2ارب روپے ظاہر کی ہے جبکہ احمدآباد بھارت میں یہ 24کروڑ روپے، بیجنگ چین میں 2013ء میں 48کروڑ روپے فی کلومیٹر کی لاگت سے بنائی گئی اور اربوں روپے کا گھپلا چھپانے کیلئے راولپنڈی اور اسلام آباد میں جنگلہ بس کو کے بجٹ میں چھپایا گیا جس پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل بھی خاموش ہے حالانکہ جو 44ارب روپے راولپنڈی اسلام آباد کے صرف 24کلومیٹر روٹ پر لگائے گئے ہیں ان سے 1000 بسیں راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان چل سکتی تھیں، 15ارب روپے سے راولپنڈی کے تمام رش والے علاقوں میں انڈرپاس اور فلائی اوور تعمیر کیے جا سکتے تھے، راولپنڈی اسلام آباد کی تمام سڑکوں کی بہترین مرمت کے علاوہ وہاں 3بہترین یونیورسٹیاں یا ہسپتال بن سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کارڈیالوجی ہسپتال کیلئے تو 2ارب روپے رکھے گئے ہیں لیکن وزیرآباد کارڈیالوجی سنٹر کیلئے ایک پیسہ بھی نہیں حالانکہ یہ ہسپتال چالو نہ ہونے سے 4000 کے لگ بھگ دل کے مریض موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح دانش سکول پر 2ارب روپے کا بجٹ خرچ ہوا لیکن سرکاری سکولوں کے 28ارب 50کروڑ روپے جاری نہیں کیے گئے حالانکہ ان سکولوں کی عمارتیں نہیں، عمارت ہے تو چار دیواری نہیں، چار دیواری ہے تو سٹاف نہیں ہے، بجٹ میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ نہ ہونے کے باوجود 2018ء تک 10 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسان کو اس کی گندم، چاول اور کپاس کی فصل کی پوری قیمت نہیں ملتی جبکہ بھارت سے آلو، ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کی وجہ سے پنجاب سبزیوں کی کاشت کو بھی گھاٹے کا سودا سمجھتے ہیں، حکومت کسانوں کو بجلی، بیج اور کھاد پر سبسڈی نہیں دے رہی جس سے پنجاب کی زراعت تباہ ہو کر رہ جائے گی لیکن ٹریکٹر سکیم کا لالی پاپ دے کر بہلانے کی کوشش کی گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :