نئے مالی سال کا بجٹ غریب دشمن، کسان دشمن اور سرکاری ملازمین دشمن ،مسترد کرتے ہیں،آصف زرداری ،بجٹ وسائل اور مواقع کی منصفانہ اور مساوی تقسیم کی جانب چھوٹا سا قدم اٹھانے میں بھی ناکام ہے، پاک چین راہداری کے مغربی روٹ کے لئے بہت کم رقم مختص کرنا سوالیہ نشان بن گیا ، حکومت سے وضاحت کرے،قبائلی علاقوں کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی بجائے حکومت صرف زبانی وعدے کر رہی ہے،سابق صدر کا بیان

اتوار 7 جون 2015 09:40

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6 جون۔2015ء)پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری نے نئے مالی سال کے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے غریب دشمن، کسان دشمن اور سرکاری ملازمین دشمن بجٹ قرار دیا ہے جو وسائل اور مواقع کی منصفانہ اور مساوی تقسیم کی جانب ایک چھوٹا سا قدم اٹھانے میں بھی ناکام ہے۔ سابق صدر نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تیسرا بجٹ ایک اکاؤنٹنٹ کا بیان ہے جس میں امیروں کے لئے مراعات دی گئی ہیں جبکہ غریبوں کو دعاؤں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

اس بجٹ میں کسی قسم کی ٹیکس اصلاحات یا معیشت کی ڈاکومنٹیشن کا کوئی وژن نہیں جبکہ یہی دونوں چیزیں معیشت کی تمام خرابیوں کی جڑ ہیں۔ بجٹ اس بات میں بھی ناکام ہوگیا ہے کہ وہ دولت کے ارتکاز سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کر سکے اور دولت اور مواقع کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کر سکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین خاص طور پر کم تنخواہ دار ملازمین اس بجٹ سے بہت مایوس ہوئے ہیں،کسان بھی پریشان ہوئے ہیں اور مزدور طبقہ حکومت کی جانب سے ان کی مشکلات ناسمجھنے پرمایوس ہے۔

حکومت بین الاقوامی طور پر تیل کی قیمتوں میں کمی کو غربت کے خاتمے کے لئے اور کسانوں کو سہولتیں مہیا کرنے میں ناکا م ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے معاشی ہدف حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اس بجٹ میں جو بڑے دعوے کئے گئے ہیں وہ بھی جھوٹے ثابت ہوں گے کیونکہ حکومت کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ایسا ہی لگتا ہے۔ سابق صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سابق صدر نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ 28مئی 2015 کو آل پارٹیز کانفرنس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان چین معاشی راہداری کو ترجیحی بنیادوں پر بنایا جائے گا لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے اس وعدے سے مکر گئی ہے۔

حکومت نے پاک چین راہداری کے مغربی روٹ کے لئے جوکہ کے پی کے، بلوچستان کے کم ترقی یافتہ علاقوں سے گزرتی ہے کے لئے پی ایس ڈی پی میں بہت کم رقم مختص کی ہے جو کہ ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ سابق صدر نے حکومت سے کہا کہ وہ اس بارے وضاحت کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ میگا معاشی منصوبوں کی حمایت کی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ حکومت کو ہر صورت میں اے پی سی میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا چاہیے اور اس راہداری کو متنازعہ ہونے سے بچایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ غریب دشمن بجٹ ہے۔ جہاں ایک طرف تو حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں کمی نہ کرنے کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے لیکن دوسری طرف بڑی خاموشی سے اس پروگرام کے وسیلہ روزگار اور وسیلہ حق پروگراموں کو بند کر دیا گیا ہے اور غریب لوگوں کو مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرکے اپنے چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے مواقع سے محروم کردیا گیاہے۔

یہ کسان دشمن بجٹ ہے۔ کسان نہ صرف یہ کہ سیلاب اور غیرمتوقع بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے پریشان ہیں بلکہ وہ حکومت کی جانب سے ان کی فصلوں کی مناسب قیمت نہ دینے پر بھی پریشان ہیں۔ جس وقت بجٹ پیش کیا جا رہا تھا اسی وقت پنجاب میں کسان اپنی مشکلات کے حل کے لئے احتجاج کر رہے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ بجٹ بنانے والوں نے قبائلی علاقے میں ایک یونیورسٹی کی تعمیر کی ضرورت کو قطعی طور پر نظرانداز کر دیا ہے۔

کچھ ہی عرصہ قبل حکومت نے قبائلی علاقے کے لئے مارشل پلان دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ انتہائی حیران کن بات ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود فاٹا کو کوئی یونیورسٹی نہیں دی گئی۔ اس بجٹ کے موقع پر حکومت یہ اعلان بھی کر سکتی تھی کہ اعلیٰ عدالتوں کی عملداری فاٹا میں بھی قائم کی جائے گی۔ سابق صدر نے اس بات کی مذمت کی کہ قبائلی علاقوں کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی بجائے حکومت صرف زبانی وعدے کر رہی ہے

متعلقہ عنوان :