سپریم کورٹ نے اردو کو دفتری زبان قرار دینے اور صوبائی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لئے وفاق اور صوبوں سے ٹائم فریم مانگ لیا ، اردو کو آ ئین میں سرکاری زبان بنا نے کا لکھ تو دیا گیامگرعا م آ دمی کی سواری میٹرو بس کے کارڈ میں ایک بھی لفظ اردو کا نہیں ، جسٹس جواد ایس خواجہ،اردو اردو کرتے ہم نے آدھا ملک گنوا دیا ،ا ردو آ بھی جائے تو کون سے معاملات سیدھے ہو جاتے ،جسٹس شیخ عظمت سعید کے ریما رکس

ہفتہ 6 جون 2015 09:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6 جون۔2015ء)سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو کو دفتری زبان قرار دینے اور صوبائی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لئے وفاق اور صوبوں سے ٹائم فریم مانگ لیا ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 251 میں اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا لکھ تو دیا گیا ہے مگر عمل کا یہ حال ہے کہ میٹرو بس کے کارڈ میں ایک ہی لفظ اردو کا نہیں ہے اور یہ بس راولپنڈی سے اسلام آتی ہے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اردو اردو کرتے ہم نے آدھا ملک گنوا دیا ۔

انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی درخواست کی سماعت کے دوران دیئے ہیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت شروع کی تو وفاق اور صوبوں کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ چھ مہینوں میں تمام تر سرکاری فارم اور دیگر اہم دستاویزات اردو میں کر دی جائینگی اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک آئین پر عمل کیوں نہیں ہوا اگر اتنا عرصہ لگا کر بھی آپ کچھ نہیں کرسکے تو چھ ماہ میں آپ کیا کرینگے میری اگر ذاتی پسند دیکھی جاتی تو میں پنجابی کو اہمیت دیتا لیکن اصل مسئلہ آئین کے آرٹیکل 251کا ہے اس کو کدھر کریں سندھ میں سندھی زبان پر کافی کام کیا گیا ہے اگر پنجاب سمیت دیگر صوبے اس طرح سے کام نہیں کررہے ہیں جس طرح سے کرنا چاہیے تھا قومی زبان کا مقصد تو یہ بنا ہوا ہے کہ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکنا ہے عدالت کو مزید بتایا گیا کہ سرکاری خط و کتابت بھی اردو میں کی جائے گی اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہی اردو اردو کرتے کرتے ہم نے آدھا ملک گنوا دیا اردو آ بھی جائے تو کون سے معاملات سیدھے ہو جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ اگر انگریزی زبان پرائمری میں لازمی قرار دی جاسکتی ہے تو اردو کی ترویج و اشاعت اور سرکاری زبان میں کیا حرج کیا ہے ہم لوگ انگریزی نہیں سمجھتے تو کیا وہ اس ملک کو چھوڑ جائیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ انگریز تو چلا گیا مگر اپنی باقیات چھوڑ گیا اس انگریزی کی وجہ سے عام آدمی بہت مشکلات کا شکار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبے اردو اور صوبائی زبانوں کی ترویج و اشاعت کیلئے کوئی ٹائم فریم کیوں نہیں دیتے بعد ازاں عدالت نے سماعت گیارہ جون تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق اور صوبوں سے جواب طلب کرلیا ہے ۔

متعلقہ عنوان :