جوڈیشل کمیشن میں گواہوں پر جرح اگلے ہفتے مکمل کر لی جائے گی،چیف جسٹس،8جون کو الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری ڈاکٹر شیر افگن جرح کیلئے طلب ،جوائنٹ الیکشن کمشنر پنجاب پر جرح مکمل،ایک حلقے سے ایک لاکھ 20ہزار ایکسٹرابیلٹ پیپر کی ڈیمانڈ کا علم نہیں ،خلیق الرحمان، ذاتی طور پر کسی ڈیمانڈ کو چیک نہیں کیا جو ڈیمانڈ آتی تھی میں بغیر چیک کئے دستخط کرکے الیکشن کمیشن کو بھیج دیتا تھا ،خلیق الرحمان ،7گواہوں پر جرح مکمل،سماعت 8جون تک ملتوی کر د ی گئی

جمعرات 4 جون 2015 08:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4 جون۔2015ء) عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے قائم تین رکنی جوڈیشل کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ناصر الملک نے کہا ہے گواہوں پر جرح اگلے ہفتے تک مکمل کرلی جائے گی ، ہم اپنے دیئے گئے مینڈیٹ کے مطابق کام کررہے ہیں ، انہوں نے آٹھ جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری ڈاکٹر شیر افگن کو جرح کیلئے طلب کرلیا ، جرح کے دوران حفیظ پیرزادہ نے جوائنٹ الیکشن کمشنر پنجاب خلیق الرحمان سے استفار کیا کہ ایک حلقے سے آپ کو آر اوکی طرف سے ایک لاکھ بیس ہزار ایکسپرا بیلٹ پیپرز کی ڈیمانڈ آئی تھی کیا آپ کو معلوم تھا خلیق الرحمان نے بتایا کہ نہیں مجھے اس کا علم نہیں تھا ۔

جوڈیشل کمیشن کی کارروائی شروع ہوئی تو جوائنٹ الیکشن کمشنر پنجاب خلیق الرحمان سے جرح کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ 2013ء کے انتخابات میں تین لسٹیں ایسی ہیں جن پر آپ کے دستخط ہیں ان پر الگ الگ دستخط کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ اس پر خلیق الرحمان نے کہا کہ بیس اپریل کو جاری کی گئی لسٹ رجسٹرڈ ووٹر کی تھی اور اکیس اپریل کو وہی لسٹ درست کرکے دوبارہ جاری کی گئی چھبیس اپریل کو لسٹ پولنگ سکیم فائنل ہونے کے بعد جاری کی گئی اور ان تینوں لسٹوں میں بہت مماثلت تھی چھبیس اپریل کو لسٹ صرف اس لئے جاری کی گئی کہ کچھ لوگوں کو ان پر تحفظات تھے سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن میں آر اوز کو ایک فارمولہ دیا تھا جس کے مطابق آر اوز نے فارمولہ سکیم اپلائی کرنا تھی کیا یہ الیکشن سکیم اپلائی کی گئی اس پر خلیق الرحمان نے کہا کہ ہاں سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ پنجاب میں دو قسم کے پولنگ سٹیشن بنائے گئے ایک جن میں خواتین اور مردوں کیلئے الگ الگ پولنگ بوتھ تھے اور دوسرے جن میں خواتین اور مردوں کیلئے ایک ہی جگہ پولنگ بوتھ رکھے گئے تھے اس پر خلیق الرحمان نے ہاں میں جواب دیا سلمان اکرم راجہ نے خلیق الرحمان سے کچھ دیگر سوال کئے جن پر جسٹس اعجاز افضل نے ان کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ ایسے سوالات نہ کریں جن کے پاس آپ کے پاس ثبوت نہیں ہیں سلمان اکرم راجہ نے خلیق الرحمان کو کچھ خطوط دکھائے اور پوچھا کہ کیا یہ آپ کے لکھے ہوئے خط ہیں ؟ اس پر خلیق الرحمان نے کہا کہ ہاں سوائے ایک کے تمام خط میں نے لکھے ہیں ۔

(جاری ہے)

حفیظ پیرزادہ نے خلیق الرحمان سے جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے کہا کہ بیس اپریل کو جاری کی گئی لسٹوں میں غلطیاں تھیں اور ان کو آگے نہیں بھیجا گیا اس پر خلیق الرحمان نے ہاں میں جواب دیا پیرزادہ نے عدالت سے ایک خط دکھایا جس پر بیس اپریل 2013ء کی تاریخ درج تھی اور ساتھ ہی لسٹیں لف تھیں اور ڈسپیج نمبر لگا ہوا تھا پیرزادہ نے کہا کہ اگر اکیس اپریل کے خطوط کے علاوہ بیس اپریل کے خطوط کو نہیں بھیجا گیا تو ان دونوں خطوط کے اوپر ڈسپیج نمبر الگ الگ کیوں ہیں ۔

پیرزادہ نے عدالت کو وہ خطوط دکھائے جس کے مطابق بیس اپریل کو جاری کئے گئے خطوط پر ڈسپیج نمبر 58035اور 58036درج تھے جبکہ ا کیس اپریل کو جاری کئے گئے خطوط پر ڈسپیج نمبر 59182اور 59184درج تھے ۔ پیرزادہ نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر بیس اپریل والا خط جاری نہیں کیا گیا تو ڈسپیج نمبر مختلف کیوں ہے اس پر خلیق الرحمان نے کہا کہ یہ آفس والے بتا سکتے ہیں مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ بیس اپریل والا خط جاری نہیں کیا گیا ۔

پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے آر اوز کو زبانی احکامات جاری کئے تھے یا خط کے ذریعے اس پر خلیق الرحمان نے بتایا کہ مجھے اس علم نہیں ۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ کو بیلٹ پیپرز کیلئے آر اوز کی ڈیمانڈ آئی تھی تو کیا آپ نے اس کا جائزہ لیا تھا یا بغیر جائزہ لئے آپ نے وہ بیلٹ پیپر چھپوائے اس پر خلیق الرحمان نے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر کسی ڈیمانڈ کو چیک نہیں کیا جو ڈیمانڈ آتی تھی میں وہ بغیر چیک کئے دستخط کردیتا تھا اور الیکشن کمیشن کو بھیج دیتا تھا اس پر پیرزادہ نے استفار کیا کہ ایک حلقے سے آپ کو آر اوز کی طرف سے ایک لاکھ بیس ہزار ایکسپرا بیلٹ پیپرز کی ڈیمانڈ آئی تھی کیا آپ کو معلوم تھا خلیق الرحمان نے بتایا کہ نہیں مجھے اس کا علم نہیں تھا ۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ جب آپ نے خط لکھا اور الیکشن کمیشن کو بتایا کہ اتنے بیلٹ پیپرز چھاپنے ہیں تو یہ بھی آپ نے آفس کے کہنے پر کیا تھا تو خلیق الرحمان نے بتایا ہاں یہ آفس کی معلومات پر خط لکھا گیا تھا ۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ہدایات جاری کی گئی تھیں کیا آپ نے وہ ہدیات آر اوز تک پہنچائی تھی اس پر خلیق الرحمان نے کہا کہ مجھے یہ یاد نہیں پڑتا ۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا بیلٹ پیپر کی ڈیلیوری آپ نے کی تھی تو بتایا گیا کہ نہیں میں نے ڈیلیوری نہیں کی پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا پاکستان پرنٹنگ کارپوریشن پریس سے کبھی آپ کی ملاقات ہوئی یا انہوں نے کبھی آپ کو بتایا کہ بیلٹ پیپر چھپ رہے ہیں اس پر خلیق الرحمان نے بتایا کہ پریس ہمیں روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ بھیجتی تھی اور ہم وہی رپورٹ الیکشن کمیشن آپ پاکستان کو بھیج دیتے تھے ۔

پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا آپ بیلٹ پیپر کی چھپائی سے مطمئن تھے ؟ اس پر چیف جسٹس ناصر الملک نے پیرزادہ کو کہا کہ آپ غیر متعلقہ سوالات مت کریں ۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے خلیق الرحمان کو بارہا غیر ضروری وضاحتیں دینے پر متنبہ کیا کہ آپ غیر ضروری وضاحتیں نہ دیں جو پوچھا جاتا ہے اسی کا جواب دیں محمد سلمان ڈپٹی منیجر الیکشن کمیشن پاکستان سے جرح شروع کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے ان کو کچھ لیٹرز دکھائے اور پوچھا کہ کیایہ آپ کے ہی دستخط ہیں ؟ اس پر محمد سلمان نے کہا کہ ہاں یہ میرے ہی دستخط ہیں اور یہ ڈیلیوری چالان ہیں ۔

سلمان اکرم راجہ نے ایک لسٹ دکھاتے ہوئے محمد سلمان سے پوچھا کہ بیلٹ جو کٹنگ ،بائیڈنگ اور نمبرنگ کیلئے بھیجے جاتے تھے کیا آپ کے ہی دستخط سے جاتے تھے تو بتایا گیا کہ ہاں ایسی رپورٹ میرے ہی دستخط سے تیار کی جاتی تھیں ۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے ایک لسٹ دکھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ آپ کے ہی دستخط ہیں جس پر محمد سلمان نے بتایا کہ ہاں یہ میرے ہی دستخط ہیں اور یہ ضائع شدہ بیلٹ پیپرز کی لسٹ ہے جو جلائے گئے ۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کتنے بیلٹ پیپرز آپ نے جلائے ؟ اس پر محمد سلمان نے بتایا کہ نہیں مجھے ان کی تعداد یاد نہیں ۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ جو بیلٹ پیپر دلوائے گئے تو کیا یہ کہنا درست ہے کہ وہ غلط چھپ گئے تھے یا ان میں غلطیاں تھیں تو محمد سلمان نے بتایا کہ ہاں ان میں غلطی ہوجاتی تھی یا ان پر سیاہی پھیل جاتی تھی پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا جلائے جانے والے بیلٹ پیپر کی چھپائی دوبارہ ہوتی تھی تو اس پر بتایا گیا کہ نہیں ہم 1.5فیصد سے 2.5فیصد تک ایکسٹرا پرنٹنگ کرتے ہیں تاکہ ضائع ہونے یا کمی ہونے کی صورت میں وہ پورا کیا جاسکے اور ضرورت پوری ہونے کے بعد باقی بچ جانے والے بیلٹ پیپرز کو جلا دیا جاتا تھا اور یہ ایک کمیٹی کرتی تھی جس میں فوج کے لوگ بھی شامل ہوتے تھے پیرزادہ نے ایک خط دکھاتے ہوئے محمد سلمان سے پوچھا کہ کیا یہ آپ کے دستخط ہیں اس پر محمد سلمان نے ہاں میں جواب دیا ۔

پیرزادہ نے کہا کہ 136بندوں کی لسٹ جاری کی گئی لیکن آپ کی یہ لسٹ 103 نمبر سے شروع ہوتی ہے تو بتایا گیا کہ اس لسٹ کے مطابق صرف 34افراد تھے باقی افراد کنٹریکٹرز اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے منگوائے گئے تھے ۔ پیرزادہ نے کہا کہ یہ کب پہنچے تو محمد سلمان نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں ۔ پیرزادہ نے کہا کہ کیا یہ تمام افراد مل کر کام کرتے تھے ؟ تو بتایا گیا کہ ہاں اس پر پیرزادہ نے پوچھا کہ یہ کام کب مکمل ہوا ؟ تو بتایا گیا کہ دس مئی کی شام کو ہمارا کام مکمل ہوا اور اس میں وہ افراد بھی شامل تھے جو لاہور سے آئے تھے اور وہ کوسٹر کے ذریعے آئے تھے اور کوسٹر کے ذریعے ہی گئے تھے ۔

ڈپٹی منیجر الیکشن کمیشن پاکستان لیاقت علی سے جرح کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ کیا اس لیٹر پر آپ ہی کے دستخط ہیں او یہ لیٹر کس چیز کے ہیں تو بتایا گیا کہ یہ وہ ریکارڈ ہے جس کے مطابق بیلٹ پیپر ضائع کئے گئے اور ایک کمیٹی کی موجودگی میں جلائے گئے کمیٹی میں فوج اور الیکشن کمیشن سکیورٹی کے لوگ شامل تھے میں خود بھی کمیٹی کاممبر تھا پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا یہ کام روز کی بنیادپر ہوتا تھا ؟ تو بتایا گیا کہ نہیں جب سے بیلٹ پیپرز کی ڈیلیوری شروع ہوئی تو تب جو ضائع ہونے والے بیلٹ پیپرز تھے ان کو روز کی بنیاد پر جلایا جاتا تھا ۔

ریجنل الیکشن کمشنر سرگودھا مجاہد حسین سے جرح کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے کچھ خطوط دکھاتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا یہ بیلٹ پیپرز کی ڈیلیوری کے چالان ہیں اور یہ دستخط آپ کے ہی ہیں تو اس پر انہوں نے کہا کہ ہاں سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ کیا یہ بیلٹ پیپرز آپ کی موجودگی میں مختلف حلقوں کے آراوز کے نمائندگان کودیئے گئے تھے تو مجاہد حسین نے بتایا کہ یہ کام میری موجودگی میں ہوا تھا اس پر ایک چارٹ بتاتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ آپ نے یہ معلومات کہاں سے لی ہیں تو بتایا گیا کہ یہ معلومات آر اوز کے ریکارڈ سے لی گئیں جو وہ اسلام آباد آفس میں پہنچاتے تھے حفیظ پیرزادہ نے جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کے کاغذات کے مطابق آٹھ حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹر نہیں ہیں تو کیا صرف آپ آر اوز کی معلومات پر ہی رپورٹ بناتے تھے جس پر بتایا گیا کہ ہاں پیرزادہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ تمام بیلٹ پیپرز کی گنتی خود کرتے تھے ؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہاں میں صرف بیلٹ پیپرز بک کی گنتی کرتا تھا تمام بیلٹ پیپرز کی نہیں ۔

اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے کمیشن کی کارروائی کو آٹھ جون تک ملتوی کرتے ہوئے ڈاکٹر شیر افگن کو جرح کیلئے طلب کرلیا ۔