حکومت امن و امان میں ناکامی کاالزام عدلیہ پر لگا دیتی ہے،سپریم کورٹ، 18ویں اور 21 ویں ترمیم کی سماعت ،ججوں نے حکومتی وکیل کو کھری کھری سنا دیں،فوجی عدالتوں کا قیام عدلیہ کی نہیں حکومت‘ انتظامیہ اور سول اداروں کی ناکامی ہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ ،کیا ضمانت ہے فوجی عدالت دو سال کے لئے ہے توسیع نہیں ہوگی بنیادی حقوق معطل ہیں تو فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ریلیف کس طرح ملے گا،چیف جسٹس، ہمارے پاس ازخود نوٹس کا اختیار موجود ہے ،جسٹس جواد خواجہ، فوج حالت جنگ میں ہے جج کی ذمہ داری کیوں ڈالی جا رہی ہے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ،کسی نے تو دھشتگردی کی لعنت کو ختم کرنا ہے،جسٹس ثاقب نثار،عدالت نے اٹارنی جنرل سے دہشتگردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ،سپریم کورٹ سمیت کسی عدالت کو فوجی عدالتوں کی کارروائی کیخلاف حکم جاری کرنے کا قطعی اختیار نہیں ، خالد انور

جمعہ 22 مئی 2015 08:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22 مئی۔2015ء) سپریم کورٹ کے ججوں نے 18ویں اور 21 ویں ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران حکومتی وکیل خالد انور کو کھری کھری سنا دیں۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے سماعت کی ،چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر بنیادی حقوق ہی معطل ہیں تو فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ریلیف کس طرح ملے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فوج کا کام لڑنا ہے اور آپ نے ان کو جج بنا کر ان پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ فوج حالت جنگ میں ہے ان پر جج بننے کی ذمہ داری کیوں ڈالی جا رہی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام عدلیہ کی نہیں حکومت‘ انتظامیہ اور سول اداروں کی ناکامی ہے کسی اور کی ناکامی ہمارے سروں پر نہ ڈالی جائے۔

(جاری ہے)

عدلیہ پر الزام بازی بند کی جائے،انتظامیہ نے فوج کی ہدایت پر فوجی عدالتیں بنائیں ،فوج کو دہشتگردوں کے خلاف لڑنے کے لئے جج کی کرسی کیوں چاہیے۔ اب یہ روایت بن چکی ہے کہ جب حکومت امن و امان کے قیام میں ناکام ہوتی ہے تو سارا الزام عدلیہ پر لگا دیتی ہے کیا آئین کو دو سال کے لئے معطل کر دیں۔ جبکہ جسٹس ثاقب نے کہا ہے کہ دہشت گردی نے ملکی ادارے تباہ و برباد کرکے رکھ دیئے ہیں کسی نے تو اس لعنت کو ختم کرنا ہے۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیئے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں فوج موجود ہے وہاں کے حالات آپ کے سامنے ہیں آرمی چیف اپنا کام کریں گے یا یہ کام کریں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لوگوں کو انصاف مل رہا ہے مگر انتظامیہ بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے ۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد انور نے کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت فوجی عدالتوں کے قیام کو درست قرار دیتی ہے اور آرمی ایکٹ میں ترمیم ہونے سے سپریم کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کو فوجی عدالتوں کی کارروائی کیخلاف کوئی بھی حکم جاری کرنے کا قطعی اختیار نہیں ہے ۔ جس پر سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کا قیام اوراس کی کارروائی ہمارے دائرہ کار سے قطعی طور پر باہر ہے اور ہم اس میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کرسکتے ۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ چرچل نے کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو پھر جنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور اگر جنگ شروع ہوچکی ہے تو پھر انصاف کا خیال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی کیا ضمانت ہے کہ یہ فوجی عدالت دو سال کے لئے ہیں اور ان میں مزید توسیع نہیں ہوگی ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے دو سال کی مدت آئین میں کہیں نہیں ہے جبکہ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے دہشتگردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں اورنقصانا ت کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ کوئی اور اختیار ہو نہ ہو ہمارے پاس ازخود نوٹس کا اختیار موجود ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شہادتیں نہ آنے کی وجہ سے ملزمان بری ہوتے ہیں ۔ خالد انور نے کہا کہ قانون کی حکمرانی سے مراد سویلین حکومت ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ فوجی حکومتوں کی مخالفت کی ایک مقدمے کو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ جسٹس آصف نے کہا کہ یہ سوال قانونی ہے اس کا تعلق کسی کے خوش ہونے یا نہ ہونے پر نہیں ہے ۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ حالات کو سمجھنے کے لیے باریک بینی سے جائزہ لینا پڑتا ہے اس طرح کے مقدمات میں کئی ججز سماعت سے معذرت کرلیتے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ آئین کے دیپاچہ سے کافی حد تک معاونت ملتی ہے کہ آئین و قانون کی تشریح کس طرح سے کرنا ہے ۔ اکیسویں ترمیم بارے دلائل دے رہے ہیں 31 ہزار معصوم افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور اتنے ہی زخمی ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پچھلے سال سے اب تک کیا تبدیلی آئی ہے کیا صورتحال برقرار ہے یا نہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کردار تو موجود ہوتے ہیں سابق چیف جسٹس کے ساتھ کیا ہوا 30 ہزار کی تعداد ہے یا اس سے زیادہ ہے یہاں روایت نہیں رہی کہ اس طرح کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے ۔ 30 ہزار افراد کی ہلاکت میں ملوث کتنے دہشتگرد گرفتار ہوئے اور کتنے شہادت نہ ہونے کی وجہ سے رہا ہوئے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس حوالے سے اٹارنی جنرل سے تفصیلات مانگیں گے ۔ خالد انور نے کہا کہ ٹرائل کے لئے کوئی درخواست نہیں ہے صرف آرمی ایکٹ ے تحت ہی تمام تر کارروائی ہوسکتی ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ امریکہ میں دوسری عدالتیں ناکام ہوئیں تو تب فوجی عدالتیں بنائی گئیں اور کانگریس نے آہستہ آہستہ قانون سازی کی ۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ عالمی جنگ میں بھی اس طرح کی صورتحال درپیش آئی اور اس سے نمٹا گیا ۔

خالد انور نے کہا کہ ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے وہ دوسروں سے قدرے مختلف ہے ۔ خالد انور نے کہا کہ امریکہ اور آسٹریلیا میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو سول کورٹس میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا چونکہ ملکی دفاع ا کا معاملہ ہوتا ہے اس لئے انہوں نے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور فورسز کو لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کے لئے اختیارات دیئے ہیں یہ اختیارات عملی ہیں اور انتظامی ہیں۔

پاکستان میں یہ اختیار خصوصی طور پر دیا گیا ہے جس کو سپریم کورٹ زیر سماعت نہیں لا سکتی۔ امریکہ اور آسٹریلیا کی فوجی عدالتوں کے برعکس ہماری عدالتوں کے پاس مکمل اختیارات نہیں ہیں۔ آرمی ایکٹ اور 21ویں ترمیم کے بعد اب فوج صرف اپنے اندر نظم و ضبط کی ہی پابند نہیں ہے بلکہ انہوں نے اس ملک میں امن و امان کے قیام کے لئے اپنا کردار بھی ادا کرنا ہے سویلین کو اس نئے ترمیمی قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔

دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ اس کو روکنے کیلئے موثر قانون سازی کی ضرورت تھی اور دہشت گردون کو سخت ترین سزائیں دینا وقت کا اہم تقاضا تھا یا تو اپنے ملک کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے یا پھر ان کے خاتمے کے اقدامات کئے جاتے اس لئے 21ویں ترمیم منظور کی گئی۔ اگر کوئی اور ٹربیونل بھی 21 ویں ترمیم کے تحت وجود میں آتا ہے تو بھی اس کے دائرہ کار کو آرٹیکل 199 کے تحت چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

دہشت گردی مقدمات کا فیصلہ 7 روز میں کیا جاتا ہے۔ ایلیٹ فورم بھی 7 روز میں اس کا فیصلہ کرے گا۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ ان اپیلوں کے فیصلوں کی مانیٹرنگ کریں گے اور جلد سے جلد نمٹانے کے اقدامات کا خیال رکھیں گے۔ تمام تر گواہوں اور دیگر افسران کا تحفظ کیا جائے گا۔ دہشت گردی عدالتوں اور ہائی کورٹ ججز کو دھمکیاں دی جاتی ہیں ان کی زندگیاں رسک پر ہوتی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شہادتیں نہیں آتیں اور ملزمان رہا ہو جاتے ہیں عام حالات میں دہشت گردوں کو سزا دینا بہت مشکل ہے یہ کڑوی دوائی ضرور ہے مگر ہمیں پینا پڑے گی کیونکہ ہم گواہوں‘ ججز سمیت عملے کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے نہ ہی ججز اپنا فرض ادا کر سکتے ہیں اس لئے فوجی عدالتوں کا قیام ضروری ہے۔

عدلیہ کے متوازی کوئی اور ادارہ نہیں بنایا جا سکتا اس لئے ان عدالتوں کا قیام آرمی ایکٹ کے تحت کیا گیا ہے۔ الیکشن ٹربیونل بھی الگ سے دیئے گئے ہیں جن کو 12ویں ترمیم میں واضح کر دیا گیا ہے۔ یہ ٹربیونلز 3 سال کے لئے بنائے جا سکتے ہیں۔ ٓئینی ترمیم میں بنیادی حقوق کا مکمل تحفظ کیا گیا ہے اور ان کو الگ کر دیا گیا ہے۔ خالد انور نے جرمنی کے آئین کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں قانون ساز ادارہ آئین کا پابند ہے جبکہ عدلیہ اور انتظامیہ کا معاملہ مختلف ہے یہ پاکستان کے آئین سے مختلف ہے اگر ریلیف لینے کا کوئی اور طریقہ نہ مل رہا ہو تو کوئی بھی جرمن کسی بھی قانون کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور آئین سازوں کو اس حوالے سے قانون بنانا پڑے گا۔

نائن الیون کے بعد امریکی قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔ کانگریس اس حوالے سے قرار داد پیش کی یہ ایکٹ آف کانگریس نہیں تھا ان حالات میں سویلین کو فوجی کمیشن کے تحت سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا فوجی عدالتیں صرف فوجیوں کے لئے ہیں جبکہ فوجی ٹربیونلز میں سویلین کے مقدمات بھی جاتے ہیں۔ فوجی کمیشن کا تعلق فوجی عدالتوں سے نہیں ہوتا ان کا الگ طریقہ کار ہوتا ہے وہ صرف سویلین پر فوکس رکھتے ہیں۔

گوانتانا موبے صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وجود میں آیا تاہم کانگریس کی مخالفت پر اس حوالے سے قانون سازی کی گئی اور ایکٹ بنایا گیا۔ سپریم کورٹ کو بغیر کسی ترمیم کے انتظامی اختیار دیا گیا ہے۔ 6 سال گزر گئے گوانتانا موبے کام کر رہا ہے حالانکہ اس نے حلف لینے سے قبل کہا تھا کہ وہ صدر بنتے ہی اس کو بند کرنے کے احکامات جاری کریں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہرحال یہاں 2 سال کی بات نہیں کی گئی تھی اور اس کا حوالہ نہیں بنتا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ نظریہ ضرورت ہے جو ہم نے دفن کر دیا تھا اور اب آپ زندہ کر رہے ہیں۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ بالٹی مور سے کسی کو گرفتار کرنے کے لئے امریکی دائرہ کار تک کو معطل کر دیا گیا تھا ان کی اپنی تاریخ ہے۔ امریکی آئین ترمیم 3 مرتبہ چیلنج ہوئیں کیا بنیادی آئینی ڈھانچے کے تحت عدالتوں نے کالعدم قرار دیا ہو خالد انور نے کہا کہ عدالتوں نے اس کو اختیار ہی نہیں کیا۔

نائن الیون کے دوران حملے میں زیادہ افراد نہیں مارے گئے۔ یہ عدالتیں عارضی نوعیت کی ہیں تمام سیاسی جماعتوں کی باہمی مشاورت سے ان کا وجود لایا گیا جس ملک میں جمہوریت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ کام کرتی عدالتوں کی جگہ اور عدالتیں نہیں بن سکتیں۔ دہشت گردی کی لعنت ایک غیر اعلانیہ جنگ ہے اس جنگ کے بہت زیادہ اثرات ہیں فرض کریں کہ میں سوچتا ہوں کہ اگر میں تمام سیاسی جماعتوں کے فیصلے کو رد کر دیتا ہوں تو مزید 10 سے 20 ہزار لوگوں کو اور نقصان ہو گا۔

سویلین حکام اتنے مضبوط نہیں ہیں سمجھ لیں کہ سارا قصور حکومتوں کا ہے مگر دہشت گردوں کے حوالے اس ملک کو نہیں کیا جا سکتا یہ آپ کی خصوصی توجہ کا طالب ہے۔ یہ ملک اپنے وجود کے خطرات سے دو چار ہے۔ علاقائی مسائل بھی ہیں جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالتی نظام کی وجہ سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ عدلیہ اس کا ساتھ دے رہی ہے عدالتوں کی ناکامی کی وجہ سے ہے یہ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے جس سے نمٹنا انتظامیہ کا کام ہے تیز ترین ٹرائل کی ضرورت ہے تمام تر دہشت گردی کے مقدمات کے التواء کی وجہ شہادتوں میں تاخیر ہے اور استغاثہ کام نہیں کر رہا ہوں 8 ہزار لوگوں کو ڈیتھ سیل میں کون لایا ہم نہیں لائے ججز پر آپ الزام نہ لگائیں یہ سب ہمارا کام نہیں ہے حکومت اپنی کمزوریاں ہم پر نہ ڈالے۔

خالد انور نے کہا کہ یہ مانتا ہوں انتظامیہ کی ناکامی ہے۔ سول نظام ناکام ہو چکا ہے آپ کی سب باتیں درست ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری انتظامیہ اس سارے معاملے کو ختم نہیں کر سکتی ججز کو تحفظ نہیں دیا جا سکتا‘ اگر میں انسداد دہشت گردی جج ہوتا تو مجھے بھی دھمکیاں ہوتیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اس کے باوجود بھی ہم فیصلے دے رہے ہیں اور ملزمان کو سزائے موت دے رہے ہیں۔

ایک طرف انتظامیہ ہے تو دوسری طرف عوام کے بنیادی آئینی حقوق ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر شہریوں کو ان کے حقوق نہیں مل رہے ہیں تو اس میں شہریوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ جسٹس جواد خوانجہ نے کہا کہ یہاں پر ہمیں تاریخ کو نہیں بھولنا چاہئے۔ یہاں آئین کے سب سے زیادہ مخالف ہیں تین چوتھائی اکثریت نہیں مل سکتی۔ خالد انور نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ پر تنقید نہیں کر رہے ہیں کراچی میں آرمی کام کر رہی ہے اس سے میرے حقوق متاثر ہوتے ہیں مگر لوگ وہاں خوش ہیں کہ ان کو تحفظ مل رہا ہے اور اس کی وجہ فوج ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ 1995ء سے قوانین بنائے گئے مگر لوگوں کو تحفظ نہ مل سکا قانون موجود ہیں یہ سیاسی خواہش نہیں ہے۔ خالد انور نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں کے جج مجھ سے کہتے ہیں ہمیں خطرات ہیں جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ کسی جج نے نہیں کہا کہ میں چیف جسٹس رہا ہوں کسی جج نے آج تک نہیں کہا کہ انہیں خطرات ہیں کوئی مقدمہ زیر التواء نہیں ہے اٹارنی جنرل سے اس حوالے سے اعداوشمارمانگیں گے جسٹس ثاقب نے کہا کہ دہشت گردی نے معیشت برباد کر دی‘ اداروں کی تباہی کی لمبی فہرست ہے سویلین آرڈر میں کوئی طاقت نہیں کسی نے تو کاؤنٹر کرنا ہے بچوں کو اس ظلم پر چھوڑ دیں کہ دہشت گرد آئیں گے ۔

جسٹس آصف نے کہا کہ انصاف کے نام پر ایسا کیوں کر رہے ہیں انتظامی طور پر آپ جو مرضی کریں مگر جج کی کرسی تو حاصل نہ کریں۔ ہم فوج کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں ہم ریاست کی بات کر رہے ہیں خالد انور نے کہا کہ یہ ایکٹ فوج کا ہے آپ اس کی بات کر رہے ہیں کام وہی کر رہی ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے زور پر فوج کو مسلط کرنے کی اجازت دی جائے۔

آپ ججز پر الزام لگا رہے ہیں آپ اپنی ذمہ داری محسوس کریں۔ بہت آسان ہے عدلیہ کو ٹارگٹ کرنا امریکہ میں 80 مقدمات کاایک دن میں فیصلہ نہیں ہوتا ہم کر رہے ہیں اب یہ روایت بن چکی ہے حکومت کچھ نہ کر سکے تو عدالتوں پر الزامات لگانا شروع کر دے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم اس معاملے کا مستقل حل چاہتے ہیں ہمارا شاندار ماضی بھی رہا ہے۔ دہشت گردی کے معاملے کو فرنٹ پر فیس نہیں کیا جا رہا ہے آئین کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔

آپ کہتے ہیں لوگ بہت خوش ہیں اگر ہم انصاف کی بات کرتے ہیں تو ہمیں کھلی انکھوں سے دیکھنا ہو گا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 245 کے تحت حکومت فوج کو بلا سکتی ہے اور انسانیت کے دشمنوں کو مار سکتی ہے مسلح افواج کا تذکرہ 245 میں ہے آپ یہ کیوں طے کر رہے ہیں کہ فوج آپ کے نئے اقدامات سے خوش ہے انتظامی اختیارات ناکام ہیں سوات میں ناکامی ہوئی ہے۔

وفاق کو جن علاقوں میں اختیار ہے عدالتوں کو نہیں دیا گیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں آئین استعمال ہو رہا ہے آپ فوج پر کیوں مزید بوجھ ڈالے ہوئے ہیں انہیں ریاست کے معاملات نمٹانا ہیں آپ ان کو ان معاملات میں کیوں چلا رہے ہیں گوانتانا موبے میں کیا ہوا۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ یہ کس طرح کا ظلم ہے آخر یہ کیوں ہو رہا ہے۔ یہ علاقہ غیر محفوظ ہو کر رہ گیا ہے وہ خود فوج سے کام لے رہے ہیں اور امریکہ خود کو سویلین ملک بھی قرار دیتا ہے کیوں فوجی جج نہیں کہ دنیا کے وہ سویلین کو سزا نہیں دے سکتا وہ صرف آرٹیکل 245 کے تحت ہی کام کرنا کا پابند ہے۔

جسٹس انور ظہیر نے کہا کہ 21ویں ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتیں آرٹیکل 10 اے اور آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ خالد انور نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے معطل ہے جسٹس آصف نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انصاف کرنا دو سالوں کے لئے بند کر دیا جائے۔ خالد انور نے کہا کہ ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے جتنی بھی آپ گفتگو کر رہے ہیں ان حالات کے برعکس ہے آپ کا دائرہ کار ختم ہو چکا ہے آپ اپنا فیصلہ کر سکتے ہیں آپ کو فکر ہے کہ میں ججز پر الزام لگا رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے اختیار کے بارے میں ایک بات سن لیں بنیادی حقوق اگر معطل ہیں تو لوگ عدالتوں سے کس طرح سے رجوع کریں گے۔ اس کے باوجود بھی کیا ہم اپنا آئینی اختیار استعمال کر سکتے ہیں خالد انور نے کہا کہ میں 21 ویں ترمیم کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ کس کو پھانسی ہوتی ہے یا نہیں مجھے اس سے سروکار نہیں ہے اب صرف آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ آپ پر پابندی آ گئی ہے جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ اگر ہم اس آئینی ترمیم کا جائزہ نہیں لے سکتے تو ترمیم کے تحت ہونے والے فیصلے اگر منصفانہ اور بدنیتی پر مبنی ہوں تو کیا ہم ان کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

خالد انور نے کہا کہ ٹرائل ہو جاتا ہے کسی آدمی کو سزا مل جاتی ہے تو اس وقت یہ سوالات اٹھ سکتے ہیں اب یہ سوالات آپ کے سامنے نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سوالات ہمارے سامنے ہیں آپ نے بھارت سمیت بہت سے ملکوں کے آئین پڑھ ڈالے ہیں تو پھر یہ بات کیوں؟ اگر کچھ دیر کے لئے آپ یہ بھول جائیں کہ آپ حکومت کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں اس سے ہٹ کر انصاف پسند بن کر بتادیں کہ کیا ہم اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں۔ خالد انور نے کہا کہ مجھے ایک شہری کے تحت کچھ اور کہہ سکتا ہوں اگر یہ جواب دیا تو میرے موکل کی خواہش کے برعکس ہو جائے گا اس لئے اس پر مزید بات نہیں کروں گا اور یہ میرے موکل کو نقصان کا باعث ہو گا۔ کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔