پنجاب، خیبرپختونخوا میں سالانہ 22 ارب کی گیس چوری ہوتی ہے ،سیکرٹری پٹرولیم،پنجاب میں چوری کی شرح 7 فیصد ، خبیر پختونخوا میں 4 فیصد ہے ،کرک میں 3 ارب روپے کی گیس چوری ہو تی ہے،وزارت پٹرولیم کے افسر نے انجینئرز بن کر امریکہ یورپ کا دورہ کیا ، پی اے سی میں سیکرٹری پٹرولیم کے انکشافات

جمعہ 22 مئی 2015 08:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22 مئی۔2015ء) سیکرٹری پٹرولیم نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سالانہ 22 ارب روپے کی گیس چوری ہوتی ہے ۔پنجاب میں چوری کی شرح 7 فیصد اور خبیر پختونخوا میں 4 فیصد ہے ۔ خیبرپختوانخوا کے ضلع کرک میں صرف 3 ارب روپے کی گیس چوری ہو رہی ہے جس کو روکنے کے لئے صوبائی حکومت سے مدد کی استدعا کی ہے ۔

اوگرا نے یوا یف جی کی شرح 11 فیصد مقرر کی ہے جبکہ دنیا بھر کے یہ شرح 4.52 فیصدہے ۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز نوید قمر کی صدارت میں ہوا جس میں وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے اربوں روپے کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا اجلاس میں نذیر سلطان ، عذرا پلیجو ، عاشق گوپانگ ، عارف علوی ، شفقت محمود ،جنید چو دھری ، کشور ناہید ، میاں عبدالمنان نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزارت پٹرولیم مالی سال 2011 کے آڈٹ اعتراضات کا بغور جائزہ لیا گیا ۔ اجلاس میں اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی جب بتایا گیا کہ کمیٹی کے کنونیئر نوید قمر کے وزارت کے دوران وزارت کے ایڈیشنل سیکرٹری نے پٹرولیم انجینئر بن کر دبئی ، لندن ، امریکہ اور یورپ کا تربیتی دورہ کیا اور قومی خزانہ کو 7 ملین سے زائد کا نقصان پہنچایا ۔

پی ٹی آئی ارکان نے نوید قمر کو شدید تنقید کیا لیکن آخر میں یہ آڈٹ اعتراض متفقہ طور پر حل کردیا ۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ بیوروکریسی انجینئر بن کر بیرونی دورے کرتے ہیں جو غیر قانونی اقدام ہے ۔ وزارت پٹرولیم کی طرف سے 4 ارب روپے کی گرانٹ واپس نہ کرنے پر پی اے سی نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور اس مسئلہ کو حل کرنے کی تلقین کی ۔ اجلاس میں وزارت پٹرولیم کی طرف سے اسلام آباد کے پوش علاقوں میں افسران کی رہائش کے لئے کرایہ پر لینے پر شدید اعتراض کیا اور غیر قانونی اخراجات کم کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

پی اے سی نے ہدایت کی تلو ، پی پی ایل اور ماڑی گیس کمپنیوں سے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں اڑھائی ارب روپے کے بقایا جات فوری وصول کر کے رپورٹ دفتر میں جمع کرائی جائے ۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ تلو کمپنی وزارت پٹرولیم کے 2 ارب روپے گزشتہ کئی سالوں میں دبا کر بیٹھی ہے ۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ڈی جی گیس کی نااہلی اور کرپشن کے باعث جی ڈی ایس کی مد میں آئل کمپنیوں سے 33 کروڑ روپے کم وصول کئے گئے ۔

پی اے سی نے اس رقم کو جلد وصولی کی ہدایت کی ہے ۔ آئل کمپنیوں نے ورکرز فنڈز کو بھی آپریٹنگ اخراجات میں شامل کر کے قومی خزانہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور اس کرپشن میں وزارت پٹرولیم کے افسران ملوث ہیں ۔ سیکرٹری پٹرولیم نے بتایا کہ گیس کمپنیوں کو سالانہ منافع 17.5 فیصد ہے سالانہ 22 ارب روپے کی گیس چوری ہوتی ہے اوگرا نے یو ایف جی 4.5 فیصد مقرر کی پھر یہ شرح 5 فیصد اور پھر 11 فیصد مقرر کی ہے تاہم یہ معاملہ عدالت میں ہے ۔

گیس چوری سب سے زیادہ کے پی کے ضلع کرک میں ہے جہاں لوگوں نے ڈائریکٹ گیس پائپ لائنیں لگا رکھی ہیں ۔ سوئی نادرن کی ایک لاکھ لمبی گیس پائپ لائن ہیں ۔ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں زیادہ گیس چوری ہوتی ہے ۔ پی اے سی سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ سیلاب متاثرین کی طرف سے کراچی میں 1000 فلیٹس پر قبضہ جلد ختم کرائے اور رپورٹ جمع کرائی جائے ۔