سانحہ صفورا میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے ،شواہد وزارت داخلہ کو دیدیئے،ڈی جی رینجرز سندھ ،سانحہ صفورا کا ماسٹر مائنڈ طاہر منہاس عرف سائیں پہلے بھی گرفتار ہوچکا۔ملزم رہا نہ ہوتا تو ایسا سانحہ نہ ہوتا،کراچی میں 4500 مدارس میں سے 3 سے 5 فیصد دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہیں، کراچی میں امن کے لئے 5 برسوں میں جاری کئے گئے تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کیے جائیں،میجر جنرل بلال اکبر

جمعہ 22 مئی 2015 06:52

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22 مئی۔2015ء)ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے کہاہے کہ سانحہ صفورا میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں جو وزارت داخلہ کو بھیج دیئے ہیں ، سانحہ صفورا ملزمان کی رہائی کے باعث پیش آیا، سانحہ صفورا کا ماسٹر مائنڈ طاہر منہاس عرف سائیں پہلے بھی گرفتار ہوچکا ہے۔ملزم رہا نہ ہوتا تو ایسا سانحہ نہ ہوتا،کراچی میں 4500 مدارس ہیں جن میں سے 3 سے 5 فیصد مدارس دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہیں، کراچی میں امن کے لئے 5 برسوں میں جاری کئے گئے تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کیے جائیں۔

وہ جمعرات کو چیف سیکریٹری سندھ آفس میں امن و امان سے متعلق منعقدہ اعلی سطحی اجلاس کے دوران بریفنگ دے رہے تھے۔کراچی میں سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا جس کی سربراہی سینیٹرنسرین جلیل نے کی، اجلاس میں سینیٹر ستارا ایاز، سحرکامران، صائمہ وحید اور جہانزیب جمالدینی کے علاوہ آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی، ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اور صوبائی سیکرٹری داخلہ بھی شریک ہوئے۔

(جاری ہے)

اجلاس کے دوران کراچی میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دی گئی بریفنگ میں کہا گیا کہ کراچی میں 4 ہزار مدارس ہیں، جن میں سے چند مدارس طلبہ کو دہشت گردی کی تربیت دے رہے ہیں،اسکولوں اور مدارس سے غائب ہونے والے بچوں کو دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ اجلاس میں ڈی جی رینجرز نے انکشاف کیا کہ سانحہ کا ماسٹر مائنڈ طاہر منہاس عرف سائیں پہلے بھی گرفتار ہوچکا ہے۔

ملزم رہا نہ ہوتا تو اتنا بڑا سانحہ نہ ہوتا،ملزم کی رہائی کی تحقیقات کررہے ہیں میجر جنرل بلال اکبر نے کہا کہ سانحہ صفورا کے دہشت گردوں کی گرفتاری بڑی کامیابی ہے۔ شہر میں امن قائم کرنے کے لئے اسلحہ لائسنسز کی جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے، کراچی میں امن کے لئے اسلحہ لائنسز کی جانچ پڑتال بہت ضروری ہے، حکومت ضروری سمجھے تو گزشتہ 5 برسوں میں جاری کئے گئے تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کردیئے جائیں۔

اس کے علاوہ رینجرز کو اپنے طور پر کارروائی کا اختیار دیا جائے۔میجر جنرل بلال اکبر کا کہنا تھا کہ کراچی میں ہونے والے واقعات میں 15 فیصد فرقہ وارانہ جرائم ہیں جبکہ 70 فیصد جرائم آپس کے جھگڑے اور تنازعات ہیں جبکہ شہر میں قائم بعض مدارس دہشت گردی میں بھی ملوث ہیں۔قبل ازیں اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے آئی جی سندھ نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

واقعے میں 10 دہشت گرد ملوث ہیں جبکہ انکا گروہ 125 ملزمان پر مشتمل ہے۔کراچی شہر میں 14 سے 15 فیصد پڑھے لکھے افراد بھی جرائم میں ملوث ہیں۔کراچی میں 4500 مدارس ہیں جن میں سے 3 سے 5 فیصد مدارس دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ختم کر دی ہیں۔