ملک میں با د شا ہت نہیں کہ عوام کو حقو ق دے کے واپس لے لئے جائیں ،جج جسٹس جواد ایس خواجہ، اسمبلیوں میں بیٹھے سیاستدان عوامی خواہشات کے برعکس ترامیم کرتے ہیں تو پھر عوام ان سے نمٹے گی ،جسٹس آصف سعید خان کھوسہ،عدالت اپنا کام نہ کرے تو خون خرابہ ہوتا رہے گا ، 3 نومبر 2007 کو نہیں بھولنا چاہئے، سپر یم کو رٹ کا مشرف کو آئین میں ترمیم اور مرضی مسلط کرنے کی اجازت کا فیصلہ عدلیہ پر داغ ہے، آئین بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتاہے ۔ پارلیمنٹ ان کو کس طرح سے ختم کر سکتی ہے، آ ئینی تر میم کیس میں ججز کے ریما رکس ،عدلیہ ہر بیماری کا علاج نہیں ،سب کام آپ نے کرنے ہیں تو پھر باقی آئین کو کہاں رکھ دیں، خالد انور کے دلائل

جمعرات 21 مئی 2015 05:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21 مئی۔2015ء) سپریم کورٹ میں 18 ویں اور 21 ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر اسمبلیوں میں بیٹھے سیاستدان عوامی خواہشات کے برعکس کوئی ترامیم کرتے ہیں تو پھر عوام پر چھوڑ دیا جائے عوام ان کو خود دیکھ لیں گے ۔ سیاستدان عوامی نمائندے ہیں اور ان کی نبض پر عوام کا ہاتھ ہے اگر وہ عوام کا خیال نہیں رکھیں گے تو عوام ان کو دوبارہ پارلیمنٹ میں نہیں آنے دے گی ۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ فیصلہ میں کہہ دیا گیا ہے کہ اگر پارلیمنٹ عوام کی خواہشات کو پورا نہیں کرتی تو تب بھی فیصلہ سپریم کورٹ نے نہیں عوام نے ہی کرنا ہے جبکہ سینئر ترین جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر عدالت اپنا کام نہ کرے تو خون خرابہ ہوتا رہے گا ، 3 نومبر 2007 کو نہیں بھولنا چاہئے جب 7 ججز پرویز مشرف کے اقدام کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے ۔

(جاری ہے)

یہاں کوئی بادشاہت نہیں کہ پہلے حقوق دیئے جائیں بعد میں لے لئے جائیں ۔ عوام کے ہاتھ میں تلوار یا بندوق نہیں کہ غیر آئینی معاملات کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے جبکہ مسلم لیگ ن کے وکیل خالد انور نے کہا ہے کہ ساری بیماریوں کا حل سپریم کورٹ نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم اور اپنی مرضی مسلط کرنے کی اجازت کا جو فیصلہ دیاوہ عدلیہ پر داغ ہے اس کو مٹا دینا چاہئے ۔

عوام کے معاملات کی نگہبان پارلیمنٹ ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آئین بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتاہے ۔ پارلیمنٹ ان کو کس طرح سے ختم کر سکتی ہے انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ خالد انور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈھانچہ وہ ہوتا ہے جسے کسی صورت گرنے نہ دیا جائے ۔

بھارتی آئین گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے ۔ عدالتوں نے آئین ترامیم کی کی وجہ سے ڈھانچے کی وجہ سے ترامیم کو ختم نہیں کیا ۔ خالد انور نے دلائل میں کہا کہ اکتوبر 1999 میں نظریہ ضرورت کے پیش نظر فیصلہ دیا گیا ہے ۔ 1973 کا آئین برقرار رکھا گیا مگر کچھ آرٹیکلز پر پابندی لگائی گئی ۔ اعلی عدلیہ کو قانون کے مطابق کام جاری رکھنے کے لئے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا کہا گیا ۔

جب یہ پی سی او آتا ہے تو وجیہہ الزمان صدیقی چیف جسٹس ہوتے ہیں دو آڑمی جنرلز ان کے گھسر گئے ہیں اور ان کو نئے حلف کے تحت کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہاکہ کہ اکتوبر 1999 میں فوجی مداخلت ہوئی مگر حلف توجنوری 2002 میں ہوا ۔خالد انور نے کہا کہ چیف جسٹس کے ساتھ 5 ہزار ججز بھی تھے یہ ججز استعفیٰ دے دیا اور گھر چلے گئے اور ان کو دوبارہ نہ بلایا گیا ۔

چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ آپ جو پڑھنا چاہ رہے ہیں کیا وہ اس سماعت سے متعلقہ ہے ۔ خالد انور نے کہا کہ جی ہاں پرویز مشرف نے ایمرجنسی کا نفاذ کیا اور اکتوبر 1999 میں پی سی او جاری کیا ۔ یہ شرمناک فیصلہ تھا جس میں کہا گیا ۔ ملٹری آمر کو سپریم کورٹ نے تحفہ دیا کہ آپ 1973 ء کے آئین میں جو مرضی چاہیں تبدیلی اور ترمیم کر سکتے ہیں ۔ حفیظ پیرزادہ پیش ہوئے تھے ۔

اس فیصلے کو مٹا دینا چاہئے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ یہ فیصلہ سندھ ہائی کورٹ سے لیا گیا اور یہ فیصلہ جاری کیا گیا ۔ خالد انور نے کہا کہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی تمام تر اقدامات کرنے کی اجازت دی گئی ۔ جس نظریئے کو اجاگر کیا گیا اس کا آئین و قانون سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ عدلیہ کی آزادی ، وفاقیت اور بنیادی حقوق کے حوالے سے کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی ۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اس کیس میں آپ نے ماورا اقدامات اٹھائے گئے اس دوران بنیادی آئین کا ڈھانچہ کہاں رہ سکتا تھا ۔ خالد انور نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ ماضی میں مشرف کے اقدامات کو درست قرار دیتے ہوئے مستقبل کے لئے بھی فوجی آمریت کا دروازہ کھول دیا گیا ۔ جسٹس جواد نے کہاکہ فوجی آمر نے جو کچھ کیا وہ قابل مذمت تھا مگر بعض ججز نے اس کو قبول نہیں کیا ۔

3 نومبر 2007 کی بات نہ کریں ۔خالد انور نے کہا کہ سب کاموں کو جائز قرار دلانے کے لئے ترامیم کی گئیں ۔ جس میں ان اقدامات کو تسلیم کیا گیا ۔ جسٹس جواد نے کہاکہ میں 3 نومبر 2007 کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جب 7 ججز پرویز مشرف کے اقدام کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے ۔ خالد انور نے کہاکہ پارلیمنٹ نے تمام اقدامات کی توثیق کر کے آئین کے بنیادی خدوخال کے خلاف کام کیا ۔

بنیادی خدوخال کے حوالے سے کوئی بھی ترمیم سپریم کورٹ سمیت کوئی اعلی عدلیہ کا اقدام قرار نہیں دے سکتی ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہاکہ ممکن ہے کہ یہ سیاسی سوال ہو ۔ ایک سوال سیاسی ہوتا ہے اور دوسرا آئینی ہوتا ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے آپ سے بھی پوچھا تھا کہ اگر صرف ایک سنگل فیچر آئین کار ہو تو کون سا ہو سکتا ہے ؟ آپ نے جمہوریت کہا تھا ۔ اگر وہ فیچر پاکستان کے لوگوں سے ترمیم کے ذریعے سے لیا جاتا ہے پاکستانی لوگوں کے لئے جمہوریت نہیں بادشاہت ہو گی تو اس صورت میں تصیح کرنے کا میکنزم حاصل رہے گا ۔

خالد انور نے کہاکہ جی ہاں ۔ باقی رہے گا ۔ خالد انور نے 1977 میں بھٹو کے دور میں انتخاب کی دھاندلی ہوئی تھی یہ سب عدلیہ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اگر پارلیمنٹیرینز خود ہی حالات خراب کر دیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عوام کے ہاتھ میں تلوار یا بندوق نہیں ہو گی وہ جڑیں آئیں کی اکھاڑ دیں گے ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آرٹیکل 238 بالکل واضح ہے جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ آئین کیاہے کہ آئین ہم نے بنایا ہے ہم نے فیصلہ کرنا ہے اور قانون ساز ادارہ آئین بنائے گا اگر اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ عوامی خواہشات کے برعکس کوئی ترامیم کرتے ہیں تو پھر یہ ان پر چھوڑ دیا جائے جو اس کا فیصلہ کریں گے یہ سیاسی نہیں دائرہ کار کا معاملہ ہے ۔

خالد انور نے کہاکہ عدلیہ ہر بیماری کا علاج نہیں ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت اپنا کام نہ کرے اور خون خرابہ ہوتا رہے ۔ خالد انور نے کہاکہ یہ مقصد نہیں تھا کہ اگر سب کام آپ نے کرنے ہیں تو پھر باقی آئین کو کہاں رکھ دیں ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ سیاستدان ان لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں لوگ ضرور چاہتے ہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف نہ کیا جائے اور پارلیمنٹ ان کی خواہشات کا خیال نہیں رکھتی تو پھر کسی کو تو فیصلے کرنا ہوتا ہے خالد انور نے کہا کہ آپ کا یہ اقدام خطرناک ہو گا آگے جا کر تمام تر ذمہ داری سپریم کورٹ پر آ جائے گا ۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر پارلیمنٹ عوام کی خواہشات کو پورا نہیں کر پاتی تو تب بھی فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے ۔ سپریم کورٹ نے نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم جمعرات کو آئین پر مزید بات کریں گے جسٹس سلیم اختر کا فل کورٹ ریفرنس بھی ہے اور دو بجے جوڈیشل کمیشن نے بھی کام کرنا ہے ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ سیاستدان عوامی نمائندے ہیں اور ان کی نبض پر عوام کا ہاتھ ہے اگر وہ خیال نہیں رکھیں گے تو عوام ان کو دوبارہ پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیں گے اگر عوامی نمائندے عوامی خواہشات کے برعکس کوئی ترمیم کرتے ہیں تو اس پر عوام کہتے ہیں کہ ہم خود دیکھ لیں گے ۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ ہم نے اپنا آئین دیکھنا ہے ہمیں بھارتی آئین کی طرف دیکھنے کی ضرو رت نہیں ہمارا آئین ہمارے حالات کی وجہ سے ہے ۔خالد انور کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے کیس کی مزید سماعت آج جمعرات تک کے لئے ملتوی کردی ۔

متعلقہ عنوان :