قومی اسمبلی میں گیس انفراسٹرکچر ترقیاتی محصول بل 2014 اپوزیشن کے شورشراب میں منظور،ایم کیو ایم ، پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی کی سخت مخالفت ، ایم کیو ایم بل کی منظوری کو غیر آئینی قرار دے دیا

بدھ 20 مئی 2015 06:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20 مئی۔2015ء)قومی اسمبلی میں گیس انفراسٹرکچر ترقیاتی محصول بل 2014 سپیکرنے اپوزیشن کے شورشراب میں منظورکر لیا۔ایم کیو ایم ، پاکستان پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی نے بل پر سخت مخالفت کر دی ۔ ایم کیو ایم بل کی منظوری کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ نوید قمر نے کہاکہ بل پیش کرنے سے پہلے اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔

نفیسہ شاہ نے کہا کہ پاکستان و ایران گیس پائپ لائن پر توجہ دینی چاہئے ۔ منگل کو قومی اسمبلی میں گیس انفراسٹرکچر بل 2014 حکومت نے اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود منظور کر لیا ۔ بل پر مخالفت کرتے ہوئے نوید قمر نے کہا کہ بل پیش کرنے کے بعد اپوزیشن کو بولنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن سپیکر صاحب نے خلاف قانون تحریک کو اس سے قبل ہی پاس کر لیا اس دوران نفیسہ شاہ نے کہا کہ اس ملک میں وج اس وقت سازش چل رہی ہے قابل قبول نہیں ۔

(جاری ہے)

پاکستان قدرتی وسائل کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہو گا آج بلوچستان اور خیبرپختونخوا اپنے حق کے لئے لڑ رہے ہیں اس کی وجہ ان کو ان کا حق نہیں مل رہا ہے ۔ پنجاب میں جو انڈسٹری چل رہی ہے دوسرے صوبوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا ۔ آپریشن سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی نے آ کر دھرنا دیا وہاں 15 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے وہاں کے لوگوں کو گیس پانی بجلی نہیں مل رہی سینٹ کو پاکستان پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو لے کر آئے اس کا مقصد یہ ہے کہ سینٹ میں تمام صوبوں کی برابر نمائندگی ہے ۔

میں مذمت کرتی ہوں کہ این ایف سی کو ایک سال پچھلے دھکیل رہے ہیں ۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اس حکومت نے معطل کر دیا ہے اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو ہمارے انرجی کے تمام مسائل حل ہوجائے ۔ جے آئی ٹی سی نے کہا کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا کیابنا ۔ تمام صوبوں کو ان کے برابر کا حق ملنا چاہئے ۔ بلوچستان اپنے حقوق کے لئے آج بھی چیخ رہا ہے کوئی بھی زبردستی سے قانون نہ لے کر آئیں ۔

فنانس کمیٹی کچھ نہیں کر رہی میٹروبس کے لئے 55 ارب تو ہیں لیکن کراچی کے لوگ پانی کو ترس رہے ہیں اس پر عارف علوی نے کہا ہے کہ جو بل لایا جاتا ہے اس کے بارے میں سب کو بتایا جانا چاہئے تھا اس بل کا اثر چھوٹے صوبوں پر پڑے گا اس کا مطلب ہے کہ اس بل کے مطابق کسی بھی کمپنی کو اس منصوبے کے اندر ڈال دیا جائے ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں ۔ پاکستان میں پہلے ہی بہت سے ایشو ہیں مزید ایشو نہ بنائیں ۔

بل پر اعتراض کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ گیس انفراسٹرکچر ترقیاتی محصول بل 2014آئین کے متصادم ہیں اس بل کو سینٹ سے منظور کروا کر پاکستان کا نقصان کیا جا رہا ہے صوبوں کے پاس یہ اختیار ہے کہ جس صوبے میں گیس پیدا ہو رہی ہے اس میں اس کا حصہ ہوتا ہے ۔ ایم کیو ایم اس بل کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں ۔ ایران سے گیس لانے پر 4 ارب روپے خرچہ آ رہا ہے حکومت گیس کی امپورٹ پر ٹیکس لگا کر ملک میں روزگار اور سرمایہ کاری کے مواقع بند کر رہی ہیں ۔

میٹروبس پر سالانہ 100 ارب روپے خرچ کرنے کی بجائے ایران گیس پائپ لائن ، انڈیا اور دوسرے ممالک کے ساتھ گیس معاہدے کروا کر اس پر خرچ کیا جائے ۔ آرٹیکل 148 مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانی چاہئے اور اس میں چاروں صوبوں کے وزیر اعلی کی موجودگی ہونی چاہئے ۔ مشترکہ مفادات کونسل کے نوٹس میں لائے بغیر اس بل کو منظور نہیں کروایا جا سکتا ہے گیس انفراسٹرکچر کو صوبوں کے مرضی کے خلاف نہیں لایا جا سکتا جوکہ مکمل طور پر آئین کے خلاف ہے یہ بل صوبوں میں تصادم پیدا کرنے کی سازش ہے اس وقت کراچی میں گیس کے 10 ہزار کنکشن روکے ہوئے ہیں ۔

2 ارب روپے کا بھتہ وفاق حکومت گیس کی بلوں کی مد میں کراچی سے وصول کر رہے ہیں ۔ کراچی کو امپورٹڈ گیس ایل این جی اور ایل ایم جی کی ضرورت نہیں ہے ہمارے پاس سرپلس گیس مو جود ہیں اس وقت سندھ ، بلوچستان اور کے پی کے کے پاس سرپلس گیس موجود ہیں تو ہمؤں اپنی گیس دے دیں اور پنجاب کے لئے امپورٹڈ گیس خرید لیں ۔ پورا ملک ایک فیڈریشن ہے بادشاہت نہیں ہے یہ میرا سلطان ڈرامہ نہیں ہے جہاں پر ماہ حورم حکم چلا رہی ہے سارے صوبوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے انڈسٹری کے لئے گیس فراہم کریں ۔

انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج پہلے ہی سے فرٹیلائز انڈسٹری پر لگا چکے ہیں ۔ کسانوں پر بھی ٹیکس لگا کر ڈیڑھ سو ارب کسانوں سے لوٹے گئے ہیں یہ ظلم ہیں غریب کسانوں کے ساتھ یہ پیسے گیس پر لگائے جائیں ۔ انڈیا ، بنگلہ دیش اور ترکی سے پاکستان میں پہلے ہی سے گیس مہنگی ہے تو مزید سرچارج لگوا کر مزید مہنگا ہو جائے ۔ زرمبادلہ کے ذخائر 25 ارب سے کم ہو کر 19 ارب روپے ہو گئے ہیں ۔

اس پر توجہ کی ضرورت حکومت زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لئے کام کریں ۔بجٹ میں حصہ لیتے ہوئے جماعت اسلامی کے صاحب زادہ طارق اللہ نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں اقتصادی راہداری کے منصوبے کو حکومت خود متنازعہ بنا رہی ہے ۔ وزیر اعلی خیبرپختو نخوا نے قومی اسمبلی کے باہر دھرنا دیا پھر پتہ نہیں کہ ان کو کس طرح سے مطمئن کیا گیا میں آپ کو گرانٹی کے ساتھ کہتا ہوں کہ خیبرپختونخوا کی حکومت 25 ہزار میگاواٹ بجلی تیار کر سکتی ہے اگر ان کو بجلی تیار کرنے کی اجازت دی جائے ہم اس بل کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے یوسف تالپور نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد گیس کے سلسلے میں جو فیصلے کئے گئے ہیں ان پر عملدرآمد ہونا چاہئے ہر صوبے کے قدرتی وسائل ہیں سندھ میں سمندر کے علاوہ جو ہمارے پاس ہے وہ گیس ہے ۔ 70 فیصد سندھ کے دیہی علاقوں سے گیس ملتی ہے پرموشن پر بہت زیادتی کی گئی ہے ۔ میرٹ کو نظرانداز کیا گیا ۔ بل کو مفادات کونسل میں لائیں اس میں سب صوبے ہوں گے ۔

میرا خیال ہے پھر اس کا کوئی بہتر حل نکل آئے گا اس بل سے این ایف سی ایوارڈ کا فیصلہ ہوا اس کو دھچکا لگے گا ۔ ایگری کلچر پر جو 30 فیصد ڈیوٹی لگی ہے اس کو ختم کیا جائے ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ حکومت ایران گیس پائپ لائن کے لئے 400 ارب وصول کرنے جا رہی ہے یہ سراسر ظلم ہے اس وقت ملک میں بیروزگاری کو صرف پرائیویٹ سیکٹر ختم کرسکتے ہیں پاکستان انوسٹرین سے اس وقت 400 ارب وصول کرنا زیادتی ہے یہ پیسے کسی اور مد میں لئے جائیں یہ پیسے حکومت کو وقفے وقفے سے چاہئے اس وقت ایران گیس پائپ لائن اتنے بڑے علاقے سے ہوتے ہوئے آ رہی ہے تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ محفوظ رہے گی ۔

کراچی میں 70 فیصد انڈسٹری ہے ۔ 100 بلین اس وقت موجود ہیں صرف 300 بلین روپے چاہئے یہ انڈسٹری سے نہ لیا جائے ۔ بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ انفراسٹرکچر ترقیاتی محصول بل 2014 صوبوں کے ساتھ زیادتی ہے اور 18 ویں ترمیم کے تحت یہ اختیار صوبے کے پاس ہے کہ وہ 50 فیصد حصہ لیں گے جہاں پر گیس ہو لیکن اس وقت محصول لگوا کو صوبوں کے ساتھ مشاورت نہیں کی جا رہی ہے یہ اجلاس صرف اس بل کو منظور کروانے کے لئے بلایا گیاہے ۔

اقتصادی راہداری پر اجلاس نہیں بلایا جا رہا ہے کیونکہ اس بل کو منظور کروانے پر حکومت جلدی کیوں کر رہی ہے یہ بہت بڑی ناانصافی ہو گی ۔ یہ کسی نہ کسی طرح غریب عوام پر اس کا بوجھ پڑے گا ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ واپس آ کر خوشخبری سنائیں گے لیکن واپس آکر ٹیکس لگوا دیا جاتا ہے حکومت کے پاس انڈسٹری کے 3 چار سو ارب روپے پڑے ہوئے ہیں وہ بھی واپس نہیں کروائے جاتے ہم اس بل کو مسترد کرتے ہیں اس کا بوجھ انڈسٹری اور عوام پر ڈالا جا رہا ہے ۔

بل پر اعتراض کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری نے کہا کہ گیس انفراسٹرکچر ترقیاتی محصول بل 2014ء آئین کے متصادم ہے حکومت کو چاہیے کہ اس بل کو بجٹ کے بعد لیکر آئے تب اس بل پر سیر حاصل بحث کی جائے گی انہوں نے کہا کہ پوری اپوزیشن اس بل کی مخالفت کررہی ہے حکومت کو چاہیے کہ اس بل پر اپوزیشن کے تحفظات دور کرے پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ حکومت کو بل پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے مشترکہ مفاد کونسل میں اس بل کو لیکر جایا جائے تو پاکستان کی ترقی عوام کو بیوقوف بنا کر نہیں کی جاسکتی اپنے ضمیر کے مطابق کام کرنا چاہیے انجینئر خلیل نے کہا کہ ہمارے تمام صوبے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں میں اپنے صوبے کی بات کروں گا ہمارے صوبے کی ضرورت 2400 میگا واٹ کی ضرورت ہے لیکن ہم کو 1200 میگا واٹ مل رہا ہے اس بل پر مشاورت کی بہت ضرورت ہے نواز لیگ حکومت جب بھی آئی اپنا ٹائم پورا نہیں کرسکی ۔

خیبر پختونخواہ میں میٹرک اور اے ایف کے امتحانات ہورہے ہیں بچے بجلی کے لیے رو رہے ہیں بجلی ہم دے رہے ہیں گیس ہم دے رہے ہیں اگر سب صوبوں کو ساتھ لیکر چلیں گے تو معاملات چلیں گے نوید قمر نے کہا کہ اس بل پر بہت بحث ہوچکی ہے اس بل میں بہت ساری خامیاں ہیں اس بل کو لانے کاطریقہ کار بھی عجیب و غریب ہے اصل میں یہ ا یک ٹیکس ہے اس کو آپ جو بھی نام دے دیں آپ اس کو پپو ٹیکس کا نام دے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے سیر کیا تو انہوں نے سوا سیر کردیا آ پ باہر سے مہنگی گیس لے کر آئیں اور پھر اس پر سبسڈی دے دیں اس گیس کو ہم کس جگہ پر استعمال کریں گے اس بل کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری تو بند ہی ہوجائے گی ایم کیو ایم اور پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نامنصور کے نعرے لگاتے ہیں مک مکا نامنظور کے نعروں سے ایوان گونجتا رہا ہے سندھ کا سودا نہ منظور ، بلوچستان کا سودا نہ منظور خیبر پختونخواہ کا سودا نہ منظور حکومتی ارکان بل کی منظوری پر ڈیسک بجاتے رہے ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے ارکان کھڑے ہوکر نعرے بازی کرتے رہے سپیکر نے کہا کہ آپ لوگ لگتا ہے کھانا کھا کے آئے ہیں نعروں کی گونج نے سپیکر اسمبلی کو خاموش کرادیا وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے منانے کی کوشش کی لیکن وہ نعرے بازی کرتے رہے ۔

وفاقی وزیر برائے پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے بل پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ یہ بل 2011ء میں اسی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا یہ حکومت کا ذاتی بل نہیں پچھلے تین سال سے سیس پر پیسے وصول کئے جارہے ہیں بل کے اندر اس پیسے کے استعمال کے حوالے سے بھی بتایا گیا ہے جو پالیسی منظور کی گئی تھی اس کے مطابق کام کرنا تھا لیکن ہم نے ایسا کیا کہ جو کہ ایل ایم جی کو استعمال کرے گا وہی استعمال کرے گا ہمارے ملک کو آٹھ بلین ایم ایم سی بی کی ضرورت ہے جبکہ چار بلین ایم ایم سی بھی بنائی جاتی ہے ایل ایم جی میں ایک سو ارب روپے کا حصہ ڈالنا ہوتا ہوگا متبادل نظام کے لیے دو ارب کی ضرورت ہے کل سو کروڑ روپے چاہیے بل کے اندر واضح لکھا گیا ہے کہ سیس سے اکٹھے ہونے والا پیسہ کا استعمال کہاں ہوگا مختلف کمپنیاں گیس کے استعمال کے حوالے سے آگاہ کریں گیس پر سبسڈی بجٹ میں نہیں دی بلکہ گھریلو صارفین جن کی تعداد 47فیصد ہے ان کو سبسڈی دی جائے گی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ایل ایم جی کو گیس میں تبدیلی کرینگے تو معیاری گیس ملے گی یہ بل سی سی آئی کو بھجوایا گیا تھا لیکن انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے اضافی ٹیکس نہیں اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے بل کے اندر جو ترمیم کی گئی ان کو دیکھیں گے اس بل پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا اپوزیشن کے تمام تحفظات دور کرینگے ہمارے ملکی تاریخ میں پہلی بار چار بلین ڈالرز کے منصوبے سرمایہ کاری ہوئی ہے اس پر بھی اس ایوان میں اعتراضات کئے تھے سب کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے لہذا اپوزیشن اس بل پر ہمارا ساتھ دے تاکہ انرجی کے بحران کا خاتمہ کرسکیں ۔