صدر کسی جج کو اس کے عہدے سے نہیں ہٹا سکتے،جسٹس میاں ثاقب نثار ، آئین اچھا ہے یا برا ہم اس کے تحت حلف اٹھاتے ہیں ہم نے دوسرے ملک کا نہیں اپنے ملک کا آئین دیکھنا ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ کے آئینی ترامیم کیس کی سما عت کے دورا ن ریمارکس ، بنیادی آئینی ڈھانچے سے متعلق حکومتی وکیل خالد انور کے دلائل پر سماعت آ ج بھی جاری رہے گا

منگل 19 مئی 2015 06:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19 مئی۔2015ء) سپریم کورٹ کا 17 رکنی فل کورٹ بینچ آج منگل کو بھی بنیادی آئینی ڈھانچے سے متعلق حکومتی وکیل خالد انور کے دلائل پر سماعت جاری ر کھے گا ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا حکومت اعلیٰ عدلیہ کا اختیار ختم کرسکتی ہے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعداد مقرر کرنے کا اختیار صدر کے پاس ہونے کے باوجود وہ کسی جج کو اس کے عہدے سے نہیں ہٹا سکتے ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین اچھا ہے یا برا ہم اس کے تحت حلف اٹھاتے ہیں ہم نے دوسرے ملک کا نہیں اپنے ملک کا آئین دیکھنا ہے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے آج تک ایک بھی جج کیخلاف کارروائی نہ کرنے کی بات درست ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سوشلزم اسلام کا حصہ ہے جبکہ خالد انور نے دلائل میں کہا ہے کہ امریکہ میں ملٹری کورٹس بنائی گئی کسی نے مخالفت نہیں کی اگر وہاں بن سکتی ہیں تو یہاں کیوں نہیں ؟پچاس سالوں میں سپریم جوڈیشل کونسل نے کسی ایک جج کو بھی سزا نہیں دی انہوں نے یہ دلائل گزشتہ روز دیئے ۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے پیر کے روز اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف دائر مختلف درخواستوں کی سماعت کا آغاز کیا تو مسلم لیگ (ن) کی طرف سے حکومت کے وکیل خالد انور پیش ہوئے اور انہوں نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ ملک میں آئین کا بنیادی آئینی ڈھانچہ تو موجود ہے مگر آج تک اس پر کوئی عمل نہیں ہوا آئینی ڈھانچہ ان حدود کا تعین خود کرتا ہے یہ کسی قانون کے لیے ہوتا ہے خود قانون نہیں ہوتا آئین موجودہ شکل میں ماضی سے کہیں بہتر ہے پچاس سال کا عرصہ گزر گیا سپریم جوڈیشل کونسل آج تک کسی ایک بھی جج کیخلاف کارروائی نہیں کرسکی ہی اس کی فعالیت ہے اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ آپ یہ درست کہہ رہے ہیں خالد انور نے آئین پاکستان کے حوالے سے تاریخ بیان کرے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا جو بہت مقبول ہوا اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ اس ملک کا کوئی بنیادی آئینی ڈھانچہ ہے یا نہیں آپ اس بارے بتائیں باقی باتیں چھوڑیں ۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ بات کریں مجھے تاریخ سے بہت دلچسپی ہے آپ اس بارے ضرورت بات کریں ۔ اس پر خالد انور نے کہا کہ ملک کا بنیادی آئینی ڈھانچہ تو موجود ہے مگر اس پر آج تک عمل نہیں ہوا آئین کے آرٹیکل تین کو سوویت یونین کے آئین سے لیا گا ہے اس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ایسا نہیں ہے یہ آرٹیکل سوویت یونین کے آئین سے نہیں لیا گیا خالد انور کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ میں فوجی عدالتیں بنائی گئیں کسی نے مخالفت نہیں کی اگر وہاں بن سکتی ہیں تو یہاں پر کیوں نہیں جبکہ ہمارے حالات ان سے بھی قدرے مختلف ہیں دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بالاآخر اقدامات کرنا ہوں گے حالات یہ ہیں کہ دنیا بھر سے ٹیمیں حالات کی وجہ سے ہمارے ہاں آنے کو تیار معاملات عجیب اجاز سے چل رہے ہیں ججز کے تقرر میں صرف ججز کو ہی اختیر دینے سے معاملات پتہ نہیں ہوں گے اس دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ علامہ اقبال نے اپنے خط میں کہا تھا کہ سوشلز اسلام کا حصہ ہے خالد انور کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے مزید سماعت آج منگل تک کے لئے ملتوی کردی گئی ۔

متعلقہ عنوان :