سانحہ صفورا گوٹھ کی تین سمتوں میں تحقیقات کر رہے ہیں،چو ہدری نثار،”را“یا غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے بارے حتمی بیان دینا قبل از وقت ہو گا، تین یا چار گرفتاریاں ہوئی ہیں ، وضاحت نہیں کر سکتا ، کراچی میں قیام امن کے لیے اہم آپریشنل فیصلے کر لیے گئے، آپریشن ضرب عضب کے بعد ملک بھر میں 10 ہزار انٹیلی جنس آپریشز میں 36 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ، برطانیہ کے ساتھ مجرمان کی تحویل کے لیے بات چیت ہو رہی ہے، معظم علی کی جے آئی ٹی بارے تفصیلات دو سے تین روز میں جاری کروں گا ، اسلحہ لائسنس اجراء کے لیے یکساں پالیسی بنائی جائے گی،گورنر سندھ کے لیے حالات معمول پر ہیں، گورنر ہاوٴس میں پریس کانفرنس سے خطاب

منگل 19 مئی 2015 06:44

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19 مئی۔2015ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سانحہ صفورا گوٹھ کی تین سمتوں میں تحقیقات کر رہے ہیں ۔ بھارتی خفیہ ایجنسی (را ) یا غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کے بارے میں حتمی بیان دینا قبل از وقت ہو گا ۔ سانحہ صفورا گوٹھ کی تحقیقات کے دوران تین یا چار گرفتاریاں ہوئی ہیں ، جن کے بارے میں وضاحت نہیں کر سکتا ہوں ۔

کراچی میں قیام امن کے لیے اہم آپریشنل فیصلے کر لیے گئے ہیں ۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد ملک بھر میں سکیورٹی اداروں نے 10 ہزار انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن کرکے 36 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا ہے جبکہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بعد 3 ہزار آپریشن کیے گئے ہیں ۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرمان کی تحویل کے لیے بات چیت ہو رہی ہے ۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار ملزم معظم علی کی جے آئی ٹی کے بارے میں تفصیلات آئندہ دو سے تین روز میں جاری کروں گا ۔

پورے ملک میں اسلحہ لائسنس کے اجراء کے لیے یکساں پالیسی بنائی جائے گی ۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے لیے حالات معمول پر ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو گورنر ہاوٴس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی آنے کا مقصد سانحہ صفورا گوٹھ پر ہونے والی تحقیقات پر بریفنگ حاصل کرنا تھی ۔ دہشت گردوں نے اسماعیلی برادری کو نشانہ بنایا ہے ، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔

پولیس ، رینجرز اور خفیہ اداروں نے اس واقعہ پر ہونے والی تحقیقات سے آگاہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ تحقیقات مثبت سمت میں جاری ہے ۔ تحقیقات سے قبل کوئی حتمی بیان دینا مناسب نہیں ہے ۔ تحقیقاتی اداروں کو وقت دیا جائے ۔ جو بھی واقعہ میں ملوث ملزم ہو گا ، اسے سامنے لائیں گے اور اس کے پیچھے موجود ہاتھ کو بھی بے نقاب کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے سکیورٹی ادارے برسرپیکار ہیں ۔ یہ ٹی ٹوئنٹی یا 50 اوورز کا میچ نہیں ہے ، جو آسانی سے جیت لیا جائے ۔ 14 برس سے ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے ۔ اس جنگ کا آغاز 2001 کے بعد ہوا ۔ 2009ء سے 2011ء تک ملک میں بدترین حالات تھے ۔ جب سے ہم حکومت میں آئے ہیں ہم نے پہلے پر امن طریقے سے حالات ٹھیک کرنے کی کوشش کی ۔

مذاکرات کیے ۔ لیکن دوسری جانب سے ڈبل گیم اور منافقت دیکھنے میں آئی ، جس کے بعد ہم نے فوجی آپریشن شروع کیا ۔ انہوں نے کہا کہ جون 2013 سے پہلے پاکستان میں روزانہ 5 سے 7 دھماکے ہوتے تھے ۔ لیکن ہم برسراقتدار آئے ۔ دہشت گردی کے خلاف ہم نے منظم پالیسی بنائی ۔ سکیورٹی ادارے اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ اب ہفتوں ہفتوں گزر جاتے ہیں ۔ ملک میں دھماکے نہیں ہوتے ہیں ۔

میں یہ نہیں کہتا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔ اگر ایک دھماکہ ہو جاتا ہے تو سکیورٹی اداروں کی مہینوں کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے لیکن ہم پر عزم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب جون 2014ء میں شروع ہوا ، جس کے بعد سے سکیورٹی اداروں نے 10 ہزار انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن کرکے 36 ہزار دہشت گردوں اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا ۔ یہ آپریشن فوج نے کے پی کے اور فاٹا میں کیے ۔

بلوچستان میں ایف سی اور دیگر علاقوں میں پولیس اور رینجرز نے کیے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان آپریشنز کے باعث کراچی ، بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں حالات بہتر ہوئے ہیں ۔ بہت دہشت گرد مارے گئے ہیں ۔ کچھ سرحد پار کرکے فرار ہو گئے ہیں ۔ کچھ زیر زمین چلے گئے ہیں ۔ کچھ گاوٴں دیہاتوں اور شہروں میں چھپ گئے ہیں ۔ چوہدری نثار نے کہا کہ دشمن آسان ہدف کو ٹارگٹ بنا رہے ہیں ۔

میں نے وزیر اعلیٰ سے معلوم کیا کہ اسماعیلی کمیونٹی کو سکیورٹی فراہم کیوں نہیں کی گئی ۔ وزیر اعلیٰ اس حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں ۔ اسماعیلی کمیونٹی کی بس پر حملے میں غریب اور دو وقت کی روٹی کمانے والوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ یہ دہشت گرد آخرت میں تو جہنم میں جائیں گے لیکن ہم انہیں عبرت کا نشان بنا دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیاں ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔

300 سے زائد کراچی میں ہیں ۔ ان میں بھرتی افراد تربیتی یافتہ نہیں ہیں اور ان کے نظام میں شفافیت نہیں ہے ۔ اس لیے ہم پورے ملک میں پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیوں کی رجسٹریشن اور اسلحہ لائسنس کے اجراء کے لیے صوبائی اور حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر یکساں پالیسی بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے آپریشنل فیصلے کرلیے ہیں ۔

جس کے بارے میں آگاہ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے دشمن کو فائدہ ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ دہشت گردی کرکے وہ قوم کو تقسیم کر دے لیکن ہماری ، سیاسی ، سول اور عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے متحد ہیں ۔ جو خامیاں ہیں ، ان کو دور کیاجائے گا ۔ اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف پالیسی کے لیے مزید اہم فیصلے کیے جائیں گے ۔

پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ۔ پوری قوم کا عزم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک جاری رہے گی ، جب تک آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ۔ ایک سوال کے جواب میں چوہدری نثار نے کہا کہ سانحہ صفوراگوٹھ کی تین سمتوں میں تحقیقات جاری ہیں ۔ کراچی بہت بڑا شہر ہے ۔ یہاں پرپناہ گزین افراد کی تعداد زیادہ ہے ۔ میں ان کو پیغام دیتا ہوں کہ وہ خودکو رجسٹرڈ کر والیں ورنہ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی ۔

انہوں نے کہا کہ نارا کو نادرا میں ضم کر دیا گیا ہے ۔ غیر ملکی افراد کی رجسٹریشن کے قانونی فریم ورک پر سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت کریں گے ۔ انہوں نے کہاکہ 2013ء سے پہلے ملک میں کوئی سکیورٹی پالیسی نہیں تھی تاہم اب سکیورٹی پالیسی بن گئی ہے ، اسی پالیسی کے تحت سکیورٹی ادارے کام کر رہے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیو یارک ٹائمز کی خبر پر تبصرہ نہیں کر سکتا ہوں کیونکہ میں نے اس خبر کو پڑھا نہیں ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم سے میری کوئی ناراضی نہیں ۔ پارٹی پالیسی پر کوئی بات نہیں کروں گا ، جس دن سانحہ صفورا ہوا ، اس دن وزیر اعظم پوری حکومت کے ساتھ کراچی آ گئے ۔ اہم فیصلے ہوئے ۔ میری طبعیت خراب تھی اس لیے نہیں آ سکا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سے استعفیٰ مانگنا مناسب نہیں ۔ امریکا ، برطانیہ ، فرانس اور اسپین میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے لیکن وہاں تو کسی نے استعفیٰ طلب نہیں کیا ۔

جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی جاتی ہے تو اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میری گورنر سندھ سے ملاقات ہوئی ہے ۔ پریس کانفرنس مجھے کرنا تھی ، اس لیے وہ نہیں آئے ۔ گورنر سندھ کو ہٹانے کے حوالے سے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ پہلے وزیر اعظم آئے تھے ، اب میں آیا ہوں ۔ گورنر سندھ سے ملاقات ہوئی ہے ۔ گورنر سندھ کے لیے حالات نارمل ہیں ۔