توانائی بحران اور محاصل میں کمی ملک کی مجموعی کارکردگی پر اثر انداز ہورہی ہے ، اسٹیٹ بینک،صنعتوں میں توانائی کی قلت بدستور سنگین مسئلہ ہے جس نے صنعتی ترقی کو روکے رکھا ہے،مرکزی بینک کی رواں مالی سال کی دوسری سہہ ماہی کی اقتصادی رپورٹ ،رپورٹ میں معیشت کے مثبت پہلوؤں کواجاگر کیا گیا

ہفتہ 16 مئی 2015 08:32

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔16 مئی۔2015ء)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ توانائی بحران اور محاصل میں کمی ملک کی مجموعی کارکردگی پر اثر انداز ہورہی ہے ، صنعتوں میں توانائی کی قلت بدستور ایک سنگین مسئلہ ہے جس نے صنعتی ترقی کو روکے رکھا ہے،ملک میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی صورتحال زیادہ خوش کن نہیں حالانکہ ہمعصر ممالک میں بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

مرکزی بینک کا کہنا تھا کہ مالی سال کے ابتدائی مہینوں میں معیشت نے کچھ دشواریوں کا سامنا کیا تاہم مالی سال کی پہلی ششماہی کے اختتام پر کچھ مثبت پہلو بھی دیکھے گئے۔تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کے باعث ترسیلات زر میں اضافہ ہوا جس نے جاری کھاتے کے خسارے کو قابو میں رکھا،آئی ایم ایف سے قرض کی رقوم کی وصولی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں صکوک کے کامیاب اجراء نے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جمعہ کو جاری کردی رواں مالی سال کی دوسری سہہ ماہی کی اقتصادی رپورٹ میں معیشت کے مثبت پہلوؤں کواجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پورے عشرے کی پست ترین مہنگائی، بجٹ خسارے کا قابو میں رہنا نیز مالکاری آمیزے (financing mix) میں بہتری، توازن ادائیگی میں تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کی بنا پر بہتری، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور شرحمبادلہ میں استحکام وہ عوامل ہیں جو معیشت کے بہتر ہونے کی جانب واضح اشارہ ہے تاہم رپورٹ یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ مسلسل ساختی کمزوریاں، خصوصاً توانائی کی قلت، بیرونی براہ راست سرمایہ کاری کی پست سطح اور ٹیکس جی ڈی پی کی کم شرح ابھی تک ملک کی مجموعی معاشی کارکردگی پر اثر انداز ہورہی ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے اندازے کے مطابق پورے رواں مالی سال کی اوسط گرانی 4 سے 5 فیصد تک رہے گی جبکہ ہدف 8 فیصد رکھا گیا تھا،مزید برآں حقیقی جی ڈی پی میں نمو گذشتہ سال کی سطح سے بلند رہنے کی توقع ہے۔ خریف کی فصلوں کی سست کارکردگی کا ازالہ گندم کی بہتر فصل سے ہونے کی امید ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں پہلے سے زیادہ رقوم جاری کی ہیں جس سے تعمیرات کے شعبے میں بہتری آئے گی۔

بڑے پیمانے کی اشیا سازی کو درپیش مشکلات برقرار رہ سکتی ہیں، تاہم امکان ہے کہ بحیثیت مجموعی خدمات کا شعبہ گذشتہ سال کی نمو کی رفتار برقرار رکھے گا۔ رپورٹمیں کہا گیا ہے کہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے اور معیشت کو بلند نمو کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے بہتر مجموعی نظم و نسق کے ساتھ جرات مندانہ پالیسی اقدامات ناگزیر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گندم کی بہتر پیداوار کے امکانات اور چھوٹی فصلوں میں تھوڑی بہتری سے کپاس اور گنے کی کارکردگی کا اثر زائل ہونے کا امکان ہے، تاہم خام مال (خصوصاً کھاد)کی بلند لاگت اور نقد آور فصلوں کی پیداواری قیمتوں میں کمی سے کاشتکاروں کی آمدنی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے، دوسری جانب صنعتی شعبہ توانائی کے مسائل سے دوچار ہے جیسا کہ بڑے پیمانے کی اشیا سازی(LSM) میں2.3 فیصد کی معتدل نمو سے ظاہر ہوتا ہے۔

شعبہ خدمات میں بعض ذیلی شعبوں(جیسے تھوک اور خردہ تجارت) کے لیے اپنا شرح نمو کا ہدف حاصل کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے جبکہ بعض(جیسے بینکاری) کی کارکردگی اچھی ہوسکتی ہے۔کمرشل بینکوں نے طویل مدتی تمسکات کی بنیادی نیلامی میں خوب حصہ لیا کیونکہ انہیں پالیسی ریٹ میں کٹوتی کی توقع تھی اور انہوں نے پی آئی بیز پر بھرپور منافع کا بھی فائدہ اٹھایا۔

پالیسی کے حوالے سے پست گرانی کے منظر نامے نے مرکزی بینک کو نومبر 2014اور اس کے بعد مسلسل زری پالیسی اعلانات میں شرح سود کم کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اسٹیٹبینک اب تک پالیسی ریٹ کو ایک دہائی کی پست ترین سطح8.0 فیصد پر لاچکا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے ان فیصلوں کے ساتھ بازارِ زر کے سودوں کے ادخالات (OMO injections )بھی بڑھائے۔ملک کی مالیاتی کارکردگی کے لحاظ سے سال کی پہلی ششماہی کے دوران بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی فیصد کے لحاظ سے 2.2 فیصد تھا جو گذشتہ برس کی سطح سے تھوڑا سا زیادہ ہے۔

حکومت (وفاقی و صوبائی) اس مدت کے دوران اخراجات میں نمو کو صرف 4.8 فیصد تک رکھ سکی جو ایک سال قبل 10.7 فیصد تھی۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ جاری اخراجات پر قابو پا لیا گیا اور ترقیاتی اخراجات میں بلند نمو ہوئی۔ بجٹ خسارے کی مالکاری کے آمیزے میں بھی بیرونی وسائل کی دستیابی کی بلند سطح اور بینکاری نظام پر کم دباؤ کے باعث بہتری دیکھی گئی۔ محصولات کی وصولی بدستور تشویش کا باعث ہے،سال کی پہلی ششماہی کے دوران مجموعی محاصل (وفاقی و صوبائی ) میں صرف 5.0 فیصد نمو ہوئی جو گذشتہ برس 13.9 فیصد تھی۔

اگرچہ حکومت نے متعدد ٹیکس اقدامات متعارف کرائے تھے، تاہم ایف بی آر کے محاصل میں اس مدت کے دوران صرف 13.6 فیصد اضافہ ہو سکا، اس کا ایک جزوی سبب تیل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی ہو سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق آئندہ مہینوں کے دوران ملک کے بعض شعبوں میں مثبت صورتحال کا تسلسل برقرار رہے گا۔ مالی سال 15کی دوسری ششماہی کے دوران زرمبادلہ کی بعض رقوم موصول ہوئی ہیں جن میں اتحادی سپورٹ فنڈ، ایچ بی ایل کی بے سرمایہ کاری (divesture)، آئی ایم ایف سے رقوم کی موصولی شامل ہیں جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور دیگر ذرائع سے مزید رقوم ملنے کی توقع ہے، مزید برآں امکان ہے کہ سال کے باقی حصے میں ترسیلات زر میں بلند نمو جاری رہے گی اور پورے سال کے لیے مقررہ ہدف سے تجاوز کر جائے گی۔

توازنِ ادائیگی میں اس اطمینان کے نتیجے میں امید ہے کہ شرحِ مبادلہ بھی مستحکم رہے گی، جس کے ساتھ ساتھ ایندھن کی کم قیمتیں مہنگائی کی توقعات کو کمزور کرتی رہیں گی۔

متعلقہ عنوان :