کراچی، پھانسی پرچڑھنے والے صولت مرزا کو ماں کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا

بدھ 13 مئی 2015 08:14

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13 مئی۔2015ء) ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد سمیت تہرے قتل میں ملوث صولت مرزا 17 سال اسیر رہنے کے بعد بلا آخر پھانسی چڑھ کر ماں کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا،تین اپلیں مسترد ہوئیں اوردو مرتبہ سزائے موت موخر ہوئی۔تفصیلات کے مطابق صولت مرزا کی میت پی آئی اے کی پرواز PK-363کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی ائیر پورٹ لائی گئی ،ائیر پورٹ پر فلائٹ کے پہنچنے کا وقت تین بجے کا تھا تاہم پرواز 15 منٹ تاخیر سے کراچی پہنچی ،جہاں پر ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار ایدھی کو میت کو وصول کرنا تھا تاہم وہ کسی وجہ سے نہ آسکے،کوئٹہ سے میت کے ہمراہ صولت مرزا کے تین بھانجے ساتھ آئے تھے جبکہ کراچی ائیر پورٹ پر صولت مرزا کی اہلیہ نگہت صولت مرزا اور ان کے دیگر اہل خانہ میت کی وصولی کے لئے موجود تھے۔

(جاری ہے)

میت وصول کرنے کے بعد صولت مرزا کی میت ایدھی ایمبولینس کے ذریعے ایدھی سینٹر سہراب گوٹھ لے جائی گئی جہاں پر انہیں غسل اور کفنانے کے بعد میت کو ان کی رہائش گا ہ گلشن معمار حسین آباد سیکٹر4/3 لے جائی گئی جہاں پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے ، ایس پی گلشن معمار علی آصف بھی اس موقع پر موجو د تھے جبکہ دو ڈی ایس پیز 80 پولیس اہلکار سیکیورٹی پر مامور تھے،صولت مرزا کی میت گھر پہنچنے پر اہل خانہ اور عزیز و اقارب نے ان کا آخری دیدار کیا،اس موقع پر رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے میں آئے،بعد ازاں میت کو جامع مسجد قباء سیکٹر 4/3لے جایا گیا جہاں پر بعد نماز مغرب نماز جنازہ اد ا کی گئی،نماز جنازہ مولانا عزیز الرحمان نے پڑھائی،نماز جنازہ میں صولت مرزا کے قریبی عزیز و اقارب اور اہل علاقہ نے شرکت کی ،نماز جنازہ کے بعد صولت مرزا کو نارتھ کراچی انڈا موڑ کے قریب واقع محمد شاہ قبرستان میں ان کی والدہ کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔

تدفین کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صولت مرزا کے بڑے بھائی فرحت علی خان اورنصرت علی خان کا کہنا تھا کہ آج کراچی کا سب سے بڑا نقصان ہواہے ، صولت مرز ا کی پھانسی کے بعد اس کے انکشافات کا کوئی فائدہ نہیں رہا ہے ،ان کا کہنا تھا کہ صولت کوریلیف نہ بھی دیا جاتا مگر اس کے انکشافات پر ایکشن ضرور لیا جاتا ، مگر اب وہ ایکشن ہونے کا امکان بھی نہیں ہے ۔

یاد رہے کہ صولت مرزا کو 5 جولائی 1997 کو کراچی کے علاقہ ڈیفنس میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن(کے ای ایس سی) کے ایم ڈی شاہد حامد کو ان کے ڈرائیور اشرف بروہی اور سیکیورٹی گارڈ خان اکبر کے تہرے قتل کی واردات میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے 1999 میں سزائے موت سنائی تھی تاہم پاکستان میں سزائے موت پر پابندی کے باعث اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکا تھا جبکہ اس دوران اپنی اسیری کے دوران ان کی جانب سے تین مرتبہ سزائے موت کی معافی کے لئے اپیلیں کی جاچکی تھیں جو ہر مرتبہ مسترد کی گئی ،پہلی مرتبہ انہوں نے سندھ ہائیکورٹ میں سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی جو کہ مسترد کر دی گئی،جس کے بعد انہوں نے 2002 میں سپریم کورٹ میں سزائے موت کی معافی کی درخواست دی جسے پھر مسترد کر دیا گیا ،بعد ازاں 2013 میں صولت مرزا کی اہلیہ کی جانب سے صدر مملکت ممنون حسین سے سزائے موت کی معافی کے لئے رحم کی اپیل کی گئی تھی تاہم اسے بھی مسترد کر دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق صولت مرزا کے اہل خانہ نے اس دوران مقتول شاہد حامد کے اہل خانہ سے بھی رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے کسی قسم کی نرمی نہیں دکھائی گئی اور وہ شاہد حامد کے قتل میں ملوث ملزم کو نشان عبرت بنانے کے لئے ثابت قدم رہے۔ صولت مرزا کی پھانسی دو مرتبہ موخر ہو چکی تھی ،پہلی مرتبہ ان کے ڈیتھ وارنٹ 19 مارچ کے لئے جاری ہوئے تھے تاہم ان کا ایک ویڈیو بیان 18 اور 19 مئی کی شب میڈیا کے سامنے آیا جس پر ان کی پھانسی موخر کر دی گئی تھی جس کے بعد ایک مرتبہ پھر ان کے ڈیتھ وارنٹ یکم اپریل کے لئے جاری ہوئے لیکن پھر ان کی جسمانی حالت کی وجہ سے دوسری مرتبہ بھی ان کی پھانسی موخر کر دی گئی تھی۔

اور پھر عدالت کی جانب سے تیسر ی مرتبہ 12 مئی کی صبح ساڑھے چار بجے پھانسی کا ڈیتھ وارنٹ جاری کیا جس پر عمل کرتے ہوئے تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انہیں مچھ جیل میں پھانسی دیدی گئی۔مچھ جیل حکام کے مطابق صولت مرزا کو پھانسی کے لئے علی الصبح چار بج کر 30 منٹ پر پھانسی گھاٹ پر لایا گیا اور ٹھیک ساڑھے چار بجے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا،قانون کے مطابق 15منٹ تک لاش کو لٹکا رہنے دیا گیا اور پھر جیل کے میڈیکل آفیسر سجاد حیدر نے ان کی لاش کا معائنہ کر کے موت کی تصدیق کی جس کے بعد لاش صولت مرزا کے قانونی لواحقین ان کے بھانجوں کے حوالے کی گئی جہاں سے انہیں سی ایم ایچ کوئٹہ پہنچایا گیا جہاں پر سرد خانہ میں رکھا گیا۔

متعلقہ عنوان :