عدلیہ کیلئے آئین سے باہر جانا مشکل ہے، ججز تقرری کی پارلیمانی کمیٹی ختم کرنے سے نیا خلا پیدا ہوگا،سپریم کورٹ،کسی کے کہنے پر آئین سے کوئی چیز نکالی یا ڈالی نہیں جا سکتی۔پارلیمنٹ آئین کے کن آرٹیکلز میں ترمیم کر سکتی ہے اور کن میں نہیں ، اس کی تفریق کہیں نہیں گئی ،جسٹس جواس ایس خواجہ، انتظامیہ ذمہ داری پوری نہ کرے ،بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتو عدلیہ آئین کے آرٹیکل184(3) کا استعمال کر سکتی ہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ، سیاست دان اتنے بالغ النظرنہیں کہ ججز تقرری کامعاملہ سمجھ سکیں، ،پارلیمانی کمیٹی مداخلت بے جاکی مرتکب ہورہی ہے ،حامد خان کے دلائل،سماعت 12مئی تک ملتوی

جمعہ 8 مئی 2015 06:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8 مئی۔2015ء)سپریم کورٹ میں اٹھارہیوں اوراکیسویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران سینئرترین جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ججز تقرری کی پارلیمانی کمیٹی ختم کرنے سے نیا خلا پیدا ہوگا ، عدلیہ کیلئے آئین سے باہر جانا مشکل ہے کسی کے کہنے پر آئین سے کوئی چیز نکالی یا ڈالی نہیں جا سکتی۔

پارلیمنٹ آئین کے کن آرٹیکلز میں ترمیم کر سکتی ہے اور کن میں نہیں ، اس کی تفریق کہیں نہیں گئی ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں انتظامیہ ذمہ داری پوری نہ کرے ،بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتو عدلیہ آئین کے آرٹیکل184(3) کا استعمال کر سکتی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ قرارداد مقاصد کے نکات آئین کے خدوخال بیان کرتے ہیں ، ان پر آئینی ترمیم کیسے کالعدم کریں۔

(جاری ہے)

جبکہ سانگھڑبار ا یسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے موقف اختیار کیاہے کہ سیاست دان اتنے بالغ النظرنہیں کہ ججز تقرری کامعاملہ سمجھ سکیں، آئین میں آزادعدلیہ کی ضمانت دی گئی ہے ۔عدلیہ کی آزادی پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا،پارلیمانی کمیٹی ججز کے بارے فیصلہ کرکے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت بے جاکی مرتکب ہورہی ہے بہترہوگاکہ ججزکے تقررمیں پارلیمانی کمیٹی کاکردار نہ رکھاجائے انھوں نے یہ دلائل گزشتہ روزدیے گئے ہیں ۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17رکنی فل کورٹ بنچ نے 18ویں ، 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کیخلاف کیس کی سماعت جمعرات کے روزکی۔ درخواست گزار حامد خان نے کہا کہ آئین کے دیباچے میں عدلیہ کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی آزاد عدلیہ اور پارلیمانی نظام کے اصولوں کے منافی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ قرارداد مقاصد کے نکات آئین کے خدوخال بیان کرتے ہیں ، ان پر آئینی ترمیم کیسے کالعدم کریں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کیلئے آئین سے باہر جانا مشکل ہے۔ پارلیمانی کمیٹی ختم کرنے سے نیا خلا پیدا ہوگا ، عدلیہ نے آئین سے اندر رہ کر معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے۔ کسی کے کہنے پر آئین سے کوئی چیز نکالی یا ڈالی نہیں جا سکتی ، پارلیمنٹ آئین کے کن آرٹیکلز میں ترمیم کر سکتی ہے اور کن میں نہیں ، اس کی تفریق کہیں نہیں۔

درخواست گزار حامد خان نے کہا کہ عدلیہ ریاست پاکستان کا ایک ستون ہے ، ملکی نظام دو حصوں میں تقسیم ہے ، ایک میں انتظامیہ اور مقننہ جبکہ دوسرے میں عدلیہ آتی ہے۔ پاکستانی آئین میں ریاست کا جو تصور ہے اس میں عدلیہ شامل نہیں ، انہوں نے کہا کہ سیاستدان اتنے میچور نہیں کہ ججز تقرری کا معاملہ سمجھ سکیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انتظامیہ ذمہ داری پوری نہ کرے تو عدلیہ آرٹیکل 184، تین کا استعمال کر سکتی ہے۔ کیس کی سماعت 12 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ عنوان :