سزائے موت پانے والے شفقت حسین کی عمر جرم کے وقت 14سال قراردینے کادعویٰ غلط ہے‘ ایف آئی اے نے شفقت کی عمر کی تحقیقاتی رپورٹ وزارت داخلہ کوبھجوادی ،رپورٹ (آج) صدر‘ وزیراعظم اور سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو بھیجی جائے گی،جرم سرزد ہوتے وقت شفقت حسین کی عمر 23سال ،کریمینل ریکارڈ آفس،حلیہ فارم، ملازمت جوائن کرتے وقت کی تصاویر اور ریکارڈ حاصل کرلیا گیا

پیر 20 اپریل 2015 06:21

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20 اپریل۔2015ء)سزائے موت پانے والے شفقت حسین کی عمر جرم کے وقت 14سال قراردینے کادعویٰ غلط ہے۔ ایف آئی اے نے شفقت کی عمر کی تحقیقاتی رپورٹ وزارت داخلہ کوبھجوادی جو (آج) صدر‘ وزیراعظم اور سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو بھیجی جائے گی‘جرم سرزد ہوتے وقت شفقت حسین کی عمر 23سال ،کریمینل ریکارڈ آفس،حلیہ فارم، ملازمت جوائن کرتے وقت کی تصاویر اور ریکارڈ حاصل کرلیا گیا۔

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی 3رکنی تحقیقاتی ٹیم نے سزائے موت پانے والے شفقت حسین کی عمر کے حوالے سے اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ وزارت داخلہ کو بھجوا دی ۔ انکوائری کمیٹی نے مقتول کے خاندان، شفقت حسین کے عزیز و اقارب، آبائی علاقے، بلڈنگ آنر،متعلقہ تھانہ، جیل اور عدالتی ریکارڈ سمیت دیگر افراد سے ملاقاتیں کیں۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرائل کورٹ کے وقت حلیہ فارم میں شفقت حسین کی عمر 23 سال درج تھی، اس فارم کے اندر اس کا قد و کاٹھ، وزن اور باڈی اسٹرکچر سمیت تمام تفصیلات درج تھیں، جبکہ کریمینل ریکارڈ آفس میں بھی شفقت حسین کی عمر 23سال لکھی گئی اور اس وقت کا فوٹو گراف بھی لگایا گیا تھا جو کہ اس وقت بھی کسی صورت 23سال سے کم نہ تھا، شفقت حسین کے ساتھ ہی ایک اور قیدی ذیشان مسیح جو کہ قتل کے الزام میں پیش ہوا تھا ، اسے معزز عدالت نے 14 سال عمر ہونے کے باعث یوتھ انڈسٹریل سکول بھجوا دیا گیا تھا جبکہ شفقت حسین کو نارمل بھجوا دیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شفقت حسین کی عمر 23سال ہی تھی، جرم کے وقت ایڈمیشن رجسٹر اور جیل کی اوریجنل ہسٹری ٹکٹس میں بھی اس کی یہی عمر لکھی گئی تھی، سیکشن 342(1)کریمینل پروڈیوز کوڈ 1898کے تحت شفقت حسین نے خود دستخط کئے اور ان کے عزیز ارشد نور نے معزز جج اینٹی ٹیررازم کوڈ 3کراچی کے سامنے یہ تسلیم کیا کہ جرم کے وقت اس کی عمر 23سال تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جن لوگوں کی جانب سے شفقت حسین کی عمر کا ایشو اچھالا گیا تھا وہ کسی بھی جگہ کوئی ثبوت نہ دے سکے، یہ بتایا گیا تھا کہ شفقت حسین اپنے گھر میں آخری نمبر پر تھااور1996میں یہ چوتھی جماعت کا طالب علم تھا، اور اس کا چھوٹا بھائی عبدالمجید 2000ء میں دوسری کلاس میں تھا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ 11سال کی عمر میں دوسری کلاس میں تھا تو شفقت حسین 5 سال کی عمر میں چوتھی جماعت کا طالب علم کیسے ہو سکتا ہے، یہ بھی کہا گیا کہ جرم کے وقت اس کی عمر ساڑھے بارہ سال تھی اور وہ 9 سال کی عمر میں چوکیدار تھا، انکوائری ٹیم نے دورہ کر کے بلڈنگ کے مالک سمیت دیگر لوگوں سے انٹرویوز کئے جس کے مطابق شفقت حسین کی عمر 23 سال تھی اور وہ ایک صحت مند چوکیدار کے طور پر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا، اس کا آفیشل فوٹوگراف بھی بلڈنگ سے حاصل کرلیا گیا ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ ٹرائل کے دوران شفقت حسین کو سرکاری وکیل بھی دیا گیا تھا اس لئے وہ اپنی عمر درست نہیں لکھوا سکا اور نہ ہی اس وقت اس مسئلے کو اٹھایا گیا تھا۔ مسٹر مقبول منصور الحق سولنگی نے یہ تصدیق کی ہے کہ وہ کورٹ میں شفقت حسین کے وکیل تھے اور اس کیلئے شفقت حسین کے بھائی نے انہیں مقدمہ لڑنے کیلئے دیا تھا اور فیس بھی ادا کی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ انکوائری کمیٹی کو کوئی ایک بھی دستاویزی ثبوت کم ہونے کا نہیں دکھایا گیا، ایک برتھ سرٹیفکیٹ سامنے آیا ہے جو پہلے ہی جعلی قرار دیا جا چکا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شفقت حسین کے لیگل قونصلر نے کمیٹی کے قیام کو ویلکم کرتے ہوئے مکمل تعاون کا دعویٰ کیا تھاتاہم وہ اپنے مفاد سے پھر گئے اور وہ کمیٹی کے سامنے پیش بھی نہیں ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ شفقت حسین کسی بھی طرح جرم کے وقت 23سال سے کم عمر کے نہیں تھے۔ اور اس حوالے سے پاکستان کے عدالتی نظام پر اٹھائے جانے والے سوالات و انگلیاں بے بنیاد ہیں۔

مذکورہ رپورٹ صدر،وزیراعظم اور سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل سمیت غیر سرکاری تنظیموں کو بھی دی جائے گی۔ واضح رہے کہ شفقت حسین کی پھانسی رکوانے کیلئے منظم انداز میں ایک مہم چلائی جا رہی تھی جس میں پاکستان کے عدالتی نظام کو نشانہ بنایا جا رہا تھا جس پر ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے غلام ناصر وڑائچ، شیخ اعجاز احمد اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے اور انسپکٹر رانا محمد اکرم شامل تھے۔