مفادات کا تحفظ نہ ہونے پر امریکہ نے سابق وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کر وایا‘ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ری کلاسیفائیڈ دستاویزات میں انکشاف،امریکی صدر نے لیاقت علی خان کو دھمکی آمیز فون بھی کیا‘ دستاویزات میں انکشاف،امریکیوں کو پاکستان میں کرائے کے قاتل نہ ملے تو افغانستان سے مل کر بندوبست کیا گیا‘ دستاویزات نے پردہ چاک کر دیا،امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ری کلاسیفائیڈ ہونیوالی دستاویزات بارے ڈاکٹر شبیر احمد نے اپنا ویڈیو بیان بھی قوم کے سامنے پیش کر دیا

جمعہ 17 اپریل 2015 04:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17 اپریل۔2015ء) قائد ملت لیاقت علی خان کو امریکہ نے افغان حکومت کے ذریعے قتل کروایا۔ امریکی منصوبے کے تحت افغان حکومت کے تیار کردہ قاتل کو دو ساتھی ملزمان نے قتل کیا اور دونوں معاون قاتل ہجوم نے روند دیئے۔ اس طرح قائد ملت کا قتل ایک سربستہ راز بن گیا۔ یہ انکشاف چند سال پہلے امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ری کلاسیفائیڈ کی گئی دستاویزات میں کیا گیا ہے۔

یہ دستاویزات اگرچہ 59 سال پرانی ہیں مگر پاکستان کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ان دستاویزات مین اس جرم سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ امریکہ اس وقت ایران کے تیل کے چشموں پر نظر رکھتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس دور میں ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت زبردست ہیں اور ان دنوں 1950-51 میں افغانستان‘ پاکستان کا دشمن شمار ہوتا تھا اور افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

(جاری ہے)

اس وقت امریکی صدر نے قائد ملت لیاقت علی خان سے سفارش کی تھی کہ اپنے قریبی دوستوں ایرانیوں سے کہہ کر تیل کے چشموں کا ٹھیکہ امریکہ کو دلوا دیں اس پر لیاقت علی خان نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں ایران سے اپنی دوستی کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا اور نہ ہی انکے داخلی معاملات میں مداخلت کروں گا۔ اگلے روز امریکی صدر ٹرومین کا لیاقت علی خان کو دھمکی آمیز فون موصول ہوا۔

لیاقت علی خان نے جواب میں کہا کہ میں ناقابل خرید ہوں اور نہ کسی کی دھمکی میں آنے والا ہوں یہ کہہ کر فون بند کر دیا اور حکم دیا کہ آئندہ 24 گھنٹوں کے اندر پاکستان میں امریکہ کے جتنے طیارے کھڑے ہیں وہ پرواز کر جائیں اور اپنے ملک کو واپس چلے جائیں ادھر واشنگٹن ڈی سی میں اسی لمحے ایک میٹنگ ہوئی اور طے ہوا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان ہمارے کام کا آدمی نہیں ہے دیکھئے کریکٹر دیکھئے لیاقت علی خان کا نہ وہ لالچ میں آتے ہیں اور نہ کسی دباؤ میں آتے ہیں تو امریکہ نے پاکستان میں ایک کرائے کے قاتل کی تلاش بہت دوڑ دھوپ کے ساتھ شروع کر دی اس زمانے میں اس کا سفارتخانہ کراچی میں تھا جو پاکستان کا دارالخلافہ تھا اور کتنی خوشی کی بات ہے اور حیرت کی کہ امریکہ جیسے ملک کو پورے پاکستان میں کرائے کا ایک قاتل نہیں مل سکا پھر واشنگٹن ڈی سی سے کراچی میں امریکی اور کابل کے سفارتخانے کو فون کیا کہ قاتل کو افغانستان میں تلاش کیا جائے افغانستان کی پاکستان سے دشمنی تھی بھی تو امریکہ نے شاہ ظاہر شاہ کو یہ لالچ دیا کہ اگر تم لیاقت علی خان کا قاتل تیار کر لو تو ہم صوبہ پختونستان کو آزاد کرا لیں گے افغان حکومت فوراً تیار ہو گئی بلکہ 3 آدمی ڈھونڈے ایک تو سید اکبر تھا جسے گولی چلانی تھی دو مزید افراد تھے جنہوں نے اس موقع پر سید اکبر کو قتل کر دینا تھا تاکہ کوئی نشان کوئی گواہ باقی نہ رہے اور قتل کی سازش دب کر رہ جائے تو 16 اکتوبر سے ایک دن پہلے سید اکبر اور اس کے وہ ساتھی جنہیں وہ اپنا محافظ سمجھتا تھا تینوں راولپنڈی آئے ایک ہوٹل میں ٹھہرے اور قبل از وقت کمپنی باغ میں اگلی صفوں میں بیٹھ گئے سید اکبر کے پاس لمبا سا کوٹ تھا جس میں اس نے دو نالی رائفل آرام سے چھپا رکھی تھی اس زمانے میں نہ تو بلٹ پروف شیشے ہوتے تھے نہ میٹل ڈی ٹیکترز ہوتے تھے جلسہ گاہ میں آنے والوں کے جیسے ہی لیاقت علی خان جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور اپنے خاص انداز میں کھڑے ہو کر کہا برادران ملت! تو سید اکبر نے اپنے کوٹ سے رائفل نکال کر 2 فائر کئے جو سیدھے بدقسمتی سے لیاقت علی خان کے سینے پر لگے اور آپ سٹیج پر گرے آپ کے آخری الفاظ یہ تھے ”خدا پاکستان کی حفاظت کرے“ آپ کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے 2 کارٹیجز نکلے جن پر امریکہ کی مہر بھی تھی اور جو 2 گولیاں سینے میں اتری تھیں وہ بھی نکال لی گئیں وہ ایسی گولیاں تھیں جو امریکی فوج کے اونچے درجے کے افسروں کو دی جاتی تھیں کرنلز کو اور ان سے بڑے رینک کے لوگوں کو‘ لیکن ہماری تفتیشی ٹیموں نے یہی سمجھا کہ باڑہ یا لنڈی کوتل کی بنی ہوئی مصنوعی گولیاں اور کارٹیجز ہیں اور ان کو اہمیت بھی نہیں دی ادھر کیا ہوا کہ کمپنی باغ میں جس وقت یہ شوٹنگ ہوئی ادھر سید اکبر کے جو محافظ بھیجے تھے افغانستان والوں نے انہوں نے سید اکبر کو فوری قتل کر دیا لیکن مشتعل ہجوم نے محافظوں اور سید اکبر کو پیروں تلے ایسا روندھا کہ ہمیشہ کے لئے وہ سازش چھپ کر رہ گئی اب ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس نے اس معاملے کو صاف کیا ہے۔

واضح رہے کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے حوالے سے آج تک مختلف کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں کبھی کہا گیا کہ قائد ملت کو گورنر جنرل غلام محمد نے قتل کرایا اور کسی نے ملبہ مشتاق احمد گورمانی پر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس معاملے پر کمیٹیاں بھی بنیں اور کمیشن بھی تحقیقات کرتے رہے مگر نتیجہ صفر ہی رہا۔ اور ایک خیال یہ بھی زبان زدعام رہا کہ لیاقت علی خان کا جھکاؤ روس کی طرف تھا اور امریکہ نے انہیں ہمیشہ کیلئے راستے سے ہٹا دیا جبکہ اس کے برعکس یہ تھیوری بھی پیش کی جاتی رہی کہ لیاقت علی خان نے روس کے دورے سے انکار کر دیا تھا اس لئے روس نے انتقام لیا۔

لیکن 60 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے یہ سارے راز کھول کر رکھ دیئے ہیں اس حوالے سے انکشافات پر مبنی ڈاکٹر شبیر کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں اس محب وطن شہری نے امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ری کلاسیفائیڈ کی گئی دستاویزات پر اپنا ردعمل پیش کیا ہے۔