سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے دی گئی سزاوٴں پر عمل درآمد روک دیا،ہمارے علم میں نہیں کہ فوجی عدالتوں میں کیا کارروائی ہورہی ہے، جب تک ہم اس کا فیصلہ نہیں دے دیتے اس وقت ان سزاو ں پرعملدرآمد معطل رہے گا ، چیف جسٹس آف پاکستان کے ریما رکس ،جلدی کس بات کی ہے یہ سزائیں تو بعد میں بھی دی جا سکتی ہیں پہلے ہمیں فیصلہ کرنے دیں،جسٹس جواد ایس خواجہ،اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری،بینچ میں موجود ایک جج کی اہلیہ کو دل کا دورہ پڑنے سے فل کورٹ بینچ ٹوٹ گیا، 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت 22 اپریل تک ملتوی

جمعہ 17 اپریل 2015 04:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17 اپریل۔2015ء)سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں کی جانب سے چھ افراد سمیت دیگر افرادکی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا ۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ جب تک ہم اس کا فیصلہ نہیں دے دیتے اس وقت عملدرآمد رکا رہے گا ۔اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کر دیا گیا ہے اور ان سے جواب طلب کیا گیا ہے۔بینچ میں موجود ایک جج کی اہلیہ کو دل کا دورہ پڑنے سے فل کورٹ بینچ ٹوٹ گیا ۔

18 ویں اور 21 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی گئی ۔ اٹارنی جنرل پاکستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 22 اپریل تک عاصمہ جہانگیر کا جواب عدالت میں پیش کرے ۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے ہوئے کہاہے کہ ہم چونکہ کسی ترمیم کو چیلنج کئے جانے کے معاملے کی سماعت کر رہے ہیں یہ بہت ضروری ہے ان سزاؤں کو روک دیا جائے اگر ہم ان درخواستوں کو منظور کرتے ہیں اس دوران کسی کو لٹکایا جاتا ہے تو وہ واپس کیسے آئے گا جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں آرٹیکل 9 کے تحت اس شخص کی زندگی کو تحفظ حاصل ہے اتنی جلدی کس بات کی ہے کہ یہ سزائیں تو بعد میں بھی دی جا سکتی ہیں پہلے ہمیں یہ فیصلہ کرنے دیں جبکہ آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک اپیل کا ذکر جس میں صرف اخبار کی حد تک آتا ہے کہ وہ خارج ہو گئی ہے تو اس پر معاملہ کیسے چھوڑ دیا جائے ۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے جب فوجی عدالتوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا تو اس وقت بھی دو افراد کو لٹکایا جا چکا تھا اور یہ بہت افسوس ناک امر ہے ہم اب ایسا نہیں چاہتے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سزائے موت کو حتمی قرار دینے کے لئے کوئی طریقہ کار موجود ہے یا نہیں ۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دیئے ہیں جبکہ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے عبوری ریلیف کے لئے دائر درخواست کی سماعت کی ۔

اس دوران اٹارنی جنرل سے عدالت نے پوچھا کہ سزائے موت کو روکنے کے لئے جو درخواست آئی ہے اس کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی عدالتوں کو 21ویں ترمیم کے تحت حق حاصل ہے کہ اس طرح کے مقدمات میں ملزمان کو سزائیں دیں ۔ یہ تاثر غلط ہے کہ فوج سمیت بعض ادارے مقدس گائے ہیں فوجی عدالتوں کو یہ مینڈیٹ آئین نے دیا ہے اور آرمی ایکٹ کی دفعات 133-b کے تحت جن کا کورٹ مارشل ہو جاتا ہے ان کو اپیلٹ فورم میں جانے کا حق حاصل ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ہم 21 ویں آئین ترمیم سے متعلقہ مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے اس درخواست کے تحت ان سماعت پر عملدرآمد روک دیا جائے اس پر اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا اور کہا کہ آپ اس طرح نہیں کر سکتے جب ملزمان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپیل کر سکے تو پھر آپ کیوں روک رہے ہیں اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جس اپیل کا پتہ ہی نہیں چلتا سزا دینے یا دیگر معاملات کا علم اخبارات سے ہو تو اس پر کیسے یقین کیا جائے کہ آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت جو فیئر ٹرائل کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اس کا کیا ہو گا ہم نہیں چاہتے کہ عدالتی فیصلہ سے قبل ہی کسی کو سزائے موت دی جائے ۔

بعدازاں عدالت نے عاصمہ جہانگیر کی درخواست جو انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کی تھی پر عبوری حکم جاری کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کی جانب سے چھ سزائے موت کے قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد روک دیا واضح رہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ نے اکیسویں ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کیخلاف مقدمے میں ایک اور متفرق درخواست دائر کردی ۔

جس میں وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے اور موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میڈیا میں آیا ہے کہ فوجی عدالتوں نے چھ دہشتگردوں کو سزائے موت اور ایک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ میڈیا نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ ملزمان کے حوالے سے اورکوئی معلومات نہیں ہیں اکیسویں آئینی ترمیم بذات خود آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کو ختم نہیں کرتی تمام تر ترامیم بنیادی انسانی حقوق کی روشنی میں کی جاتی ہیں کیا قومی عدالت نے آئین کے آرٹیکل 10، 10اے ، 12،13 اور 14کواختیار کرتے ہوئے ملزمان کو معلومات کی فراہمی کی کوشش کی کیا گرفتار کردہ قیدی دشمنوں کے طور پر گرفتار کئے گئے تھے کیا ملزمان کو چوبیس گھنٹے میں مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا گیا تھا قیدیوں کو آئین کے آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیاجاسکتا درخواست کے آخر میں عاصمہ جہانگیر نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائے موت کی سزا پانے والوں کی سزا پر عملدرآمد پر ایک عبوری حکم جاری کرکے روک دیا جائے ۔

بعدا زا ں ایک جج کی اہلیہ کو دل کا دور ہ پڑنے کی اطلا ع ملنے پر سما عت22اپر یل تک ملتو ی کر دی گئی