حکومت عوامی مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتی تو گھر چلی جائے‘ سپریم کورٹ،جب سرکار کے ذہن میں آتا ہے آرڈیننس جاری ہو جاتا ہے پارلیمنٹ کے اجلاس کا بھی انتظار نہیں کیا ،عوامی بھلائی کی باتوں پر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے‘ وفاقی حکومت نے عدالتی حکم پر عمل نہ کر کے دھوکہ دیا،عوامی ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین خدائی خدمت گار نہیں بتایا جائے ان کا بھی کوئی احتساب ہوتا ہے یا نہیں،جسٹس جواد ایس خواجہ کے قانون کی کتابوں کی غلط اشاعت بارے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس،عدالت نے وفاق کی جانب سے جوائنٹ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی بطور مانیٹرنگ ماہر تقرری بھی مسترد کر دی نیا ماہر مقرر کرنے کا حکم

جمعہ 3 اپریل 2015 07:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3 اپریل۔2015ء) سپریم کورٹ نے قانون کی کتابو ں کی غلط اشاعت اور ترجمہ بارے وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ جوائنٹ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن مطاہر ریاض رانا کو بطور مانیٹرنگ ماہر مسترد کرتے ہوئے نیا ماہر مقرر کرنے کا حکم دیا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف انضباطی کارروائی کر کے رپورٹ 8 اپریل تک طلب کر لی ہے جبکہ کے پی کے نے عاصم ریاض‘ سندھ میں ڈاکٹر جاوید خواجہ‘ بلوچستان میں آئی ٹی انچارج کو مانیٹرنگ ماہر مقرر کیا گیا ہے۔

اردو ترجمے کی مانیٹرنگ کے لئے دو سابق سیکرٹریز پنجاب اسمبلی کو 10 لاکھ روپے پر مقرر کیا گیا ہے۔ دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں جو حکومت عوام الناس کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتی گھر چلی جائے جب سرکار کے ذہن میں آتا ہے آرڈیننس جاری ہو جاتا ہے اور اس کے لئے پارلیمنٹ کے اجلاس کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا مگر جب عوام الناس کی بھلائی کی بات آتی ہے تو کام نہیں کیا جاتا۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل کے سامنے سب کچھ ہوتا رہا اب وہ کہتے ہیں کہ انہیں کچھ معلوم نہیں ہے۔ وفاقی حکومت نے عدالتی حکم پر عمل نہ کر کے دھوکہ کیا ہے۔ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین خدائی خدمت گار نہین ہیں کیا کام نہ کر کے ایسے تنخواہ لینے والوں کا کوئی احتساب بھی ہوتا ہے یا نہیں‘ آئین کا عجب استعمال ہو رہا ہے انتطار کرو پارلیمنٹ میں قانون نہ بنے‘ پارلیمنٹ جس لمحے گھر جائے گی اسی لمحے آرڈیننس جاری ہو جائے گا ہمارے پاس سوائے توہین عدالت کی کارروائی کے اور کوئی طریقہ نہیں ہے اور جہاں ضرورت پڑی اس کو انشاء اللہ ضرور استعمال کریں گے۔

انہوں نے ریمارکس جمعرات کے روز دیئے۔ مطاہر ریاض رانا جوائنٹ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی تقرری پر جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے حکم پر عمل نہیں کیا گیا قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں تو بتا دیں کسی بکر کو کس طرح سے ماہر مقرر کر سکتے ہیں۔ جس کو آپ نے مقرر کیا ہے اس کی سی وی دکھائیں۔ مطاہر ریاض نے بتایا کہ انہیں ماہر مقرر کیا گیا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی ماہر نہیں تھا جسٹس جواد نے کہا کہ اٹارنی جنرل پاکستان کو بلائیں یہ ہو کیا رہا ہے۔

پہلا آرڈر‘ دوسرا آرڈر پر کوئی عمل نہیں کیا گیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ وہ عوام الناس کی خیر خواہ ہے۔ آپ ہماری معاونت کریں کہ کس کو توہین عدالت کا نوٹس جائے گا۔ آج ہماری میٹنگ ہے اٹارنی جنرل کو ساڑھے گیارہ بجے بلائیں اور وہ جواب دیں 13 مارچ تک ماہر مقرر کیا جانا تھا 2 اپریل ہو گئی یہ رویہ پاکستان کے لوگوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

وزارت قانون کے بیک پر کھڑے ہم ہی معاونت کر رہے ہیں باہر سے پڑھ کر آنے والے لوگ ایم ای ڈی ایکسپرٹ تو نہیں ہو سکتے‘ پنجاب بار کونسل نے بتایا کہ بعض وکلاء کا تعلق سپریم کورٹ سے ہے ہم ان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے یہ تو کام پاکستان بار کونسل کا ہے۔ ہمارے پاس آپ کی بنائی گئی فہرست موجود ہے۔ پنجاب بار کونسل کی ممبر بشریٰ نے بتایا کہ مجھے ایکٹ کے ترجمے کا کہا گیا تھا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کے کنڈکٹ ٹربیونلز 2 سال سے غیر فعال ہیں یہ کب تک رہیں گے۔ آپ سپریم کورٹ کے وکلاء کی فہرست دیں ہم سپریم کورٹ بار اور بار کونسل سے بات کریں گے۔ ہمیں ایک وکیل کی کتاب پیش کی گئی۔ میں نے دیکھی تو باہر سے کارآمد تھی بمبئی ہائیکورٹ کے ریٹائر جج کی کتاب تھی جس کو ہو بہو چھاپا گیا ہے اور کاما‘ فل سٹاپ تک تبدیل نہیں کیا گیا وہ چھپ رہی ہے اور بک رہی ہے۔

اٹارنی جنرل وقفے کے بعد پیش ہوئے اور کہا کہ مجھے وقت دے دیں پراگرس کا معلوم نہیں ہے جسٹس جواد نے کہا کہ عوام الناس کے ساتھ یہ ایک مذاق ہے ہم مزید وقت نہیں دیں گے۔ آج ہم توہین عدالت نوٹس جاری کریں گے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ جنہوں نے انڈر ٹیکنگ دی تھی ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔ کاغذی کارروائی نہیں چلے گی اور نہ چلنے دیں گے اس شخص کو ایم اے ڈی کا ماہر مقرر کر دیا ہے جس نے کبھی بھی اس حوالے سے کام نہیں کیا ہم آپ کی تعلیم سے تو استفادہ ضرور کریں گے مگر آپ ماہر تو نہیں ہیں۔

ہم ایک کاوش ناتمام کر رہے ہیں اس کی افادیت سے شاید لوگ آگاہ نہیں ہیں انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ جواب مناسب نہیں ہے اس حد تک عوام الناس کی تضحیک ہو رہی ہے‘ پیسے ان کی جیبوں سے نکالے جا رہے ہیں ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے سب لوگ تنخواہ لے رہے ہیں پھر بھی عدالتی حکم پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ تنخواہ لینے والوں کے لئے کوئی احتساب بھی ہے یا نہیں ہمیں اعداد و شمار دیئے جائیں یہ سب پہلے بھی ہم کہہ چکے ہیں وکلاء کے ناموں کی فہرست پاکستان بار کونسل کو بھی دے دیں تاکہ ان کو بھی پتہ چل سکے کہ ان میں کون کون سے سپریم کورٹ وکلاء ہیں۔

عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین کوئی خدائی خدمت گار نہیں ہیں۔ انہوں نے سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن سے درخواست کا ایک اقتساب پڑھنے کا کہا جس میں کہا گیا تھا کہ لا بکس کی تصیح اور دیگر معاملات کے لئے فریم ورک بارے 31 مارچ تک وقت دیا جائے۔ اٹارنی جنرل آفس کے حوالے سے جسٹس جواد نے بتایا کہ 31 مارچ تک کے حکمنامے پر کوئی عمل نہیں کیا گیا ہمیں طفل تسلی دی جا رہی ہے ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے حوالے سے کیا کارروائی کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوٹس جاری کریں گے کہ عدالتی حکم پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی آگاہ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ماہرین کا تقرر کر دیا جائے گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ سرکار ہمیں جواب دے رہی ہے کہ مطاہر ریاض رانا بطور ماہر مقرر کئے گئے ہیں جنہوں نے ایک دن بھی کام نہیں کیا ہے سی وی کدھر ہے ساڑھے دس بجے مانگا تھا ابھی جائیں اور ہمیں ان کا سی وی دیں میں اپنے بارے میں کہتا ہوں کہ میں خود ایم این ای ایکسپرٹ نہیں ہوں۔

اٹارنی جنرل سے کہا کہ کیا آپ اس کی وضاحت دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس کی وضاحت کر سکیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ سب چیزوں سے آگاہ ہیں سب آپ کے سامنے ہوتا رہا ہے آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو کچھ معلوم نہیں ہے کیا ہو رہا ہے؟ ہر کوئی مصروف ہے اور اس نے 50 ہزار کام کرنے ہیں مگر کوئی عوام الناس کو نہیں بتاتا کہ ان کے کیا حقوق ہیں اور لگتا ہے یہ سرکار کے کاموں میں سے نہیں ہے اگر یہ سرکار نہیں کر سکتی تو گھر چلی جائے اس سے زیادہ کیا اہم چیز ہو سکتی ہے لوگوں کو ان کے حقوق نہیں بتانا چاہتے ہیں اس سے زیادہ کیا کام اہم ہیں۔

ایک نااہلی ہوتی ہے اور دوسرا دھوکہ ہوتا ہے یہ دھوکہ ہے جو عدالت اور عوام کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ آئی ٹی انچارج کو ہی ماہر مقرر کر دیا گیا ہے کے پی کے کی جانب سے بتایا گیا کہ عاصم ریاض نامی ماہر کو مقرر کیا ہے جس کا کام ہی یہی تھا۔ ہمیں 14 مارچ تک مقرر کرنا تھا مگر ہم نے یہ 12 مارچ کو ہی مقرر کر دیا تھا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن رضاکارانہ طور پر حکم کر رہے ہیں اس حوالے سے جو بھی ماہرین مقرر کئے گئے ہیں ان کی سی وی دی جائے۔ پنجاب کی جانب سے بتایا گیا کہ حکومت پنجاب فروری 2015ء کو ماہرین مقرر کر دیئے تھے جو تمام تر معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں دوسرے صوبوں کو بھی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے ڈاکٹر جاوید خواجہ کو مانیٹرنگ ماہر مقرر کیا گیا ہے 5 سال کا ان کا تجربہ ہے وہ اس سارے معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ اب صرف وفاقی حکومت ہی باقی رہ گئی ہے کہ جس نے ہمارے حکم پر عمل نہیں کیا ہے اور ہمیں دھوکہ دینے میں لگی ہوئی ہے۔ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے بتایا کہ انہوں نے پنجاب میں طے شدہ فریم ورک کے تحت ہی وفاق بھی کام کرے گا اور 15 روز میں اس حوالے سے رپورٹ بھی دی جائے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم 24 گھنٹے ہر کسی کی مانیٹرنگ نہیں کر سکتے یہ دھوکہ ہے کیوں نہ دھوکہ دینے والوں کے خلاف فوجداری قوانین کے تحت کارروائی کی جائے۔

سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے بتایا کہ وفاق سمیت صوبوں کی جانب سے غلط کتابیں شائع کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا معاملہ بارے عدالت کے حکم پر وفاق‘ صوبوں کو فہرست بھجوا دی گئی تھی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ابھی تک ہم نے چار چیزیں دیکھی ہیں وفاق نے کچھ نہیں کیا باقیوں نے عمل کرا دیا ہے۔ فریم ورک بنا ہی نہیں تھا جب سرکار کے ذہن میں آتا ہے کہ آرڈیننس جاری ہونا چاہئے وہ جاری ہو جاتا ہے اخبار میں بھی پڑھا ہے کہ ایک آرڈیننس جاری کرنے جا رہا ہے مگر عوام الناس کو صرف دھوکہ ہی دیا جا رہا ہے 25 فروری کو آرڈر جاری کیا تھا اب 2 اپریل ہے 36 دن گزر گئے ہیں آج بتایا جا رہا ہے جو کچھ ہو گیا ہے آرڈیننس کا مسودہ بن گیا ہے جاری ہو جائے گا۔

عوام کا بھلا نہیں ہونے دینا۔ آئین کا عجیب استعمال ہو رہا ہے انتظار کرو پارلیمنٹ میں قانون نہ بنے پارلیمنٹ جس لمحے گھر جائے گی اس لمحے آرڈیننس جاری ہو گا۔ آرٹیکل 89 کہتا ہے کہ آرڈیننس پاس کیا جائے عوام کے بھلے کے لئے جلد آرڈیننس جاری نہیں ہو گا۔ ہمارے پاس ایک ہی طریقہ ہے آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی کارروائی کریں اور تو ہمارے پاس اختیار نہیں ہے عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے مانیٹرنگ ماہر مسترد کر دیا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ایسے لوگوں کو کوئی تنخواہ دے رہے ہیں جو کام ہی نہیں کر رہے ہیں ان سے تنخواہ واپس لیں اور انضباطی کارروائی ہونی چاہئے۔ 36 دن ہو گئے سب سوئے ہوئے ہیں سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے قوانین کے ترجمے اور ان کی ویب سائٹس پر ڈالنے بارے بھی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ کے پی کے میں 1750 میں 15‘ بلوچستان میں 809 میں سے 30‘ پنجاب میں 522 میں سے 35 اور سندھ میں 1400 میں سے 20 پر کام مکمل کیا گیا ہے۔

یہ ایک لمبا پراسس ہے جس پر وقت لگے گا۔ ہر طرح سے پڑتال کی جا رہی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ماہرین اس پر مہر تصدیق بھی ثبت کریں کہ یہ جو کام کیا گیا ہے صحیح ہے۔ اس پر کتنا وقت لگے گا۔ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ قوانین کے ترجمے کے لئے ابھی تک ایڈیٹوریل کمیٹی قائم نہیں ہو سکی ہے اس کے قائم ہونے کے ساتھ ہی معاملات مکمل کر لئے جائیں گے۔ اس حوالے سے نجیفہ عارف کو مقرر کیا گیا ہے باقی ممبران بھی مقرر کئے جانا ہیں۔

200 وکلاء میں سے 35 وکلاء کا ترجمے کے لئے انتخاب کیا گیا ہے۔ دو سابقہ سیکرٹری پنجاب اسمبلی کو اس کی مانیٹرنگ سونپی ہے اور اس کے لئے 10 لاکھ روپے کا بجٹ بھی رکھا ہے۔ پنجاب نے 32 قوانین کا ترجمہ کر کے ویب سائٹ پر ڈالا ہے۔ وفاقی وزارت قانون نے صوبوں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ غلط کتابوں کی اشاعت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اس حوالے سے 20 ہزار جرمانہ اور 6 ماہ سزا تجویز کی گئی ہے۔

اس پر نئی قانون سازی کی ضرورت پڑے گی۔ عدالت نے وفاق میں مانیٹر ماہر مقرر نہ ہونے پر ذمے داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے اس حوالے سے 8 اپریل تک جواب دیا جائے۔ حد ہو گئی‘ ہم عوام الناس کی عظمت بحال کریں گے۔ وفاق کو موقع دے رہے ہیں وہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کرائے۔ صوبوں میں مقرر کئے گئے ماہرین کی سی ویز بھی دی جائیں۔ عدالت نے آرڈر میں لکھوایا کہ ہم نے اپنے سابقہ حکم کی روشنی میں وفاق اور صوبوں کے عملدرآمد کا جائزہ لیا ہے جس میں وفاق اور صوبوں نے ڈائریکٹو بھی جاری کئے تھے۔

عدالت نے اپنے حکم کے نکات 1 تا 6 کا جائزہ لے لیا ہے باقی کے 8 اپریل کو لیا جائے گا۔ عدالت ریاستی امور کی انجام دہی میں مطمئن نہیں ہے۔ عدالت کا حکم نہ ماننے والوں کے خلاف انضباطی کارروائی ہونی چاہئے اس سے قبل عدالت حکومتی اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے۔ حکومت خود ہی عدالتی حکم پر عملدرآمد کرا دے۔