ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات انتہائی اہم مرحلے میں داخل ، ڈیڈ لائن ختم ہو نے سے قبل فریقین کے معاہدے پر اتفاقِ رائے کی قوی امید

پیر 30 مارچ 2015 09:25

تہرا ن (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30 مارچ۔2015ء)ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر امریکہ اور چھ عالمی طاقتوں کے ایرانی حکام سے مذاکرات انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں اور کل منگل کو ختم ہونے والی ڈیڈ لائن سے قبل ہی فریقین کے معاہدے پر اتفاقِ رائے کی قوی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطا بق سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں جاری مذاکرات میں برطانیہ، روس اور چین کے وزرائے خارجہ بھی شامل ہو رہے ہیں جبکہ جرمنی، فرانس اور امریکہ کے وزرائے خارجہ پہلے ہی وہاں موجود ہیں۔

ادھر بات چیت میں شامل روس کے مرکزی مذاکرات کار اور روس کے نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ریبکوو نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں امریکہ کے حمایت یافتہ سعودی اتحاد کی ایران نواز باغیوں کے خلاف کارروائی جوہری مذاکرات کے ماحول پر اثرانداز ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے ایک روسی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بدقسمتی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس ملک(یمن) میں پیش آنے والے المناک واقعات کا اثر بات چیت کے ماحول پر پڑ رہا ہے۔

تاہم انھوں نے امید ظاہر کی کہ یمن کی صورتحال ’بات چیت کے کچھ شرکا‘ کے موقف میں تبدیلی نہیں لائے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ معاہدے پر اتفاقِ رائے کے امکانات اب 50/50 سے زیادہ ہیں۔ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ’ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔انھوں نے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں ہم تمام معاملات حل کر کے، معاہدے کو تحریری شکل دینے کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔

‘جرمنی کے وزیرِ خارجہ فرینک والٹر سٹینمیئر نے بھی کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات ’آخری مرحلے‘ میں داخل ہوچکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’طویل مذاکرات کا آخری مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور ایران کے ساتھ 12 سالہ مذاکرات کے بعد اب ہمارے سامنے فیصلہ کن دن ہیں۔‘فرانسیسی وزیر خارجہ لوراں فیبیوس کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کچھ معاملات میں پیش رفت کی ہے لیکن کچھ میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔

خیال رہے کہ مذاکرات کے لیے 31 مارچ اور حتمی معاہدے کے لیے 30 جون کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے۔حالیہ جوہری مذاکرات میں ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے دورانیے، معاہدے کی میعاد اور ایران اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی کس حد تک اجازت دیتا ہے جیسے معاملات شامل ہیں۔ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے تاہم عالمی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ وہ اسے فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :