شدت پسندی کے مقابلے میں علما کا آ ن لائن میگزین، اس آ ن لائن میگزین کا مقصد انٹرنیٹ پر شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی لہر کا مقابلہ کرنا ہے

ہفتہ 28 مارچ 2015 02:52

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28 مارچ۔2015ء)برطانیہ میں شدت پسندی کے مقابلے میں ’انٹرنیٹ پر دوبارہ اپنی جگہ حاصل‘ کرنے مقصد کے تحت ایک نئے آ ن لائن میگزین کا اجرا کیا گیا ہے۔حقیقہ نامی یہ میگزین برطانوی علمائے دین نے شروع کیا ہے اور اس کے نام کا مطلب سچائی یا حقیقت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد نوجوانوں کو شدت پسند تنظیموں کی حقیقت کے بارے میں مزید آگاہی فراہم کرنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ دولت اسلامیہ جیسے شدت پسند گروہوں کے عمل کا براہ راست جواب ہے۔دولت اسلامیہ اپنے پیغامات پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتی ہے۔’امامز آ ن لائن‘ نامی ویب سائٹ کی جانب سے شروع کیے گئے اس میگزین کے اجرا کے لیے لندن میں ایک سو سے زائد امام اکٹھے ہوئے۔

(جاری ہے)

امامز آ ن لائن ڈاٹ کام کے سینیئر ایڈیٹر قاری عاصم کے مطابق: ’کسی نہ کسی کو اس جگہ سے دولت اسلامیہ کا قبضہ ختم کرانا ہو گا، اور ایسا صرف امام اور مذہبی رہنما کر سکتے ہیں جو اپنے معاشرے کی اصلاح کرتے ہیں۔

‘ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہم ایک ڈیجیٹل دنیا میں رہتے ہیں، کچھ نوجوان مسجد میں نہیں آتے اور ہم نے ان تک پہنچنا ہے اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں یہ مسلمانوں کا کردار ہو گا۔‘ایک اندازے کے مطابق ٹوئٹر دولت اسلامیہ کے حمایتیوں کے 70 ہزار سے زائد اکاوٴنٹ ہیں ۔اس میگزین کے لیے لکھنے والے ماہرین کا دولت اسلامیہ اور دیگر شدت پسند گروہوں کے مقابلے میں بیانیہ پیش کرنے اور قرآن کی ان آیات کی تشریح کرنے کا ارادہ ہے جنھیں شدت پسند یورپ اور اسلامی دنیا سے نوجوانوں کو شام اور عراق میں لڑنے اور مرنے کے لیے مائل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

امامز آ ن لائن ڈاٹ کام کے چیف ایڈیٹر شوکت وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’ہم لہر کا رخ موڑ رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا: ’ابھی ایک طویل سفر کرنا باقی ہے، ہم جانتے ہیں کہ آ ن لائن مسلم آبادی کی مدد کرنے اور ان کو متحد کرنے کی کوششوں سے ہم پرتشدد آوازوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ کے ابلاغ کے حجم اور رفتار نے سب کو حیران کر دیا ہے کیوں کہ شام اورعراق سے فیس بک اور ٹوئٹر پر روزانہ کی بنیاد پر ایک لاکھ سے زیادہ پوسٹیں نشر کی جاتی ہیں۔

شوکت وڑائچ کا کہنا تھا کہ اماموں کے لیے حقیقی دنیا سے بڑھ کر آ ن لائن اپنی موجودگی کا احساس دلانا ناگزیر تھا، جہاں سے بیشتر مسلمان نوجوان معلومات حاصل کرتے ہیں۔لندن میں ہونے والی تقریب کے منتظمین کا کہنا تھا کہ انھوں نے اسلام کے تمام گروہوں، دیوبندی، صوفی، سنی، شیعہ اور بشمول ثقافتی گروہوں جن میں صومالی، عرب، پاکستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے نووارد مسلمانوں کو اکٹھا کیا ہے۔

یہ میگزین شدت پسندی کی وکالت کرنے والے گروہوں کی بڑھتی ہوئی لہر کا مقابلہ کر رہا ہے۔دولتِ اسلامیہ اپنا پیغام پہنچانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ٹوئٹر پر دولت اسلامیہ کے حمایتیوں کے 70 ہزار سے زائد اکاوٴنٹ ہیں، جبکہ یہ گروہ دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکس مثلاً ’ڈااسپورا‘ کا استعمال بھی کرتا ہے اور اس کا اپنا میگزین بھی ہے۔دولت اسلامیہ سوشل میڈیا کا استعمال نہ صرف اپنے پیغامات پھیلانے کے لیے کرتا ہے بلکہ دہشت گرد حملوں کی حوصلہ افزائی اور قتال کی ویڈیوز نشر کرنے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔دولت اسلامیہ کے خلاف ٹوئٹر پر اٹھنے والی دیگر اہم آوازوں میں ہیش ٹیگ notinmyname# اور wewillinspire@ شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :