مسلمانوں کی کفن میں تدفین سولہ میں سے صرف نو جرمن صوبوں میں اجازت ، چار صوبوں میں کسی بھی لاش کو دفنانے کے لیے تابوت میں بند کرنا لازمی ہے

جمعہ 27 مارچ 2015 09:51

برلن ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27 مارچ۔2015ء )یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی کے سولہ میں سے صرف نو وفاقی صوبوں میں مسلمانوں کی کفن میں تدفین کی قانونی اجازت ہے۔ ابھی بھی چار صوبے ایسے ہیں جہاں کسی لاش کو دفنانے کے لیے تابوت میں بند کرنا لازمی ہے۔یہ بات دریائے رائن کے کنارے آباد چھوٹے سے شہر کوئنِگز وِنٹر Koenigswinter سے بدھ 25 مارچ کو ملنے والی کیتھولک نیوز ایجنسی KNA کی رپورٹوں میں بتائی گئی ہے۔

جرمنی میں وفاقی ریاستیں کہلانے والے صوبوں کی مجموعی تعداد 16 ہے۔ ان میں سے نو صوبوں میں مسلم برادری کے نمائندوں کے مطالبات پر اور مسلمانوں کی تکفین و تدفین سے متعلق مذہبی رسومات کا احترام کرتے ہوئے مروجہ قوانین میں استثناء کو قانونی شکل دی جا چکی ہے۔

(جاری ہے)

اس طرح ان نو صوبوں میں مسلمان اپنے انتقال کر جانے والے عزیز و اقارب کو لازمی طور پر کسی تابوت میں بند کرنے کی بجائے صرف کفن میں ہی دفن کر سکتے ہیں۔

ان وفاقی ریاستوں میں اکثر بلدیاتی قبرستانوں میں مسلمانوں کی تدفین کے لیے علیحدہ حصے بھی مختص کیے جا چکے ہیں جرمنی میں انتقال کر جانے والے افراد کی تدفین سے متعلق عام صارفین کی سماجی خواہشات اور مطالبات کی نمائندگی کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ایٹَیرنیٹاس Aeternitas نے آج بدھ کے روز کوئنِگز وِنٹرمیں بتایا کہ جرمنی میں ابھی بھی چار وفاقی ریاستیں ایسی ہیں، جہاں کسی بھی مذہب کے پیروکار کے انتقال کی صورت میں، اگر اس کی تدفین کی جائے تو، تابوت کا استعمال قانونی طور پر لازمی ہے۔

یہ چار صوبے باویریا، رائن لینڈ پلاٹینیٹ، سیکسنی اور سیکسنی انہالٹ ہیں، جہاں کسی میت کو قانوناصرف تابوت کے ساتھ ہی دفنایا جا سکتا ہے۔ باقی ماندہ جرمن صوبوں میں علاقائی قوانینِ تدفین کسی مخصوص شرائط کے متقاضی نہیں ہیں۔Aeternitas کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں مْردوں کی لازمی طور پر تابوت میں تدفین کا قانون صوبائی حکومت کی طرف سے 2003ء سے مکمل طور پر ختم کیا جا چکا ہے۔

اس کے علاوہ سیکسنی انہالٹ وہ صوبہ ہے جہاں قانونِ تدفین میں ترمیم کے ذریعے تابوت کے استعمال کی لازمی شرط جلد ہی ختم کر دی جائے گی۔ اس سلسلے میں وہاں کی صوبائی پارلیمان قانونی ترمیم کے مسودے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔جرمن صارفین کی ایٹَیرنیٹاس نامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق مرنے والا اگر کوئی مسلمان ہو تو اس کی میت کی تدفین کفن میں ممکن ہونی چاہیے۔

لیکن دوسری طرف کسی میت کی تکفین کی وجہ ہمیشہ ہی مذہبی نوعیت کی نہیں ہوتی۔ ایسا اس لیے بھی ممکن ہونا چاہیے کہ اب سماجی روایات اور اجتماعی اقدار کے تصورات بدل چکے ہیں۔اس تنظیم کے مطابق اگر مرنے والے فرد کی اس کی آخری رسومات سے متعلق ذاتی خواہشات کا احترام کیا جائے تو یہ ناممکن ہے کہ متوفی کے انسانی وقار کی اْس کی موت کے بعد بھی کوئی خلاف ورزی ہو سکے۔ ”جہاں تک تدفین کے لیے میت کو کسی گاڑی کے ذریعے صرف قبرستان پہنچانے کا تعلق ہے تو اس کے لیے ابھی بھی تابوت کا استعمال ہی واحد مروجہ اور سب سے مناسب طریقہ ہے۔

متعلقہ عنوان :