ورلڈ کپ کے خاتمے کے ساتھ مصباح الحق ، شاہد آفریدی کا ون ڈے کیرئیرکا بھی اختتام،سست طرز بیٹنگ کی وجہ سے شائقین کرکٹ نے انہیں مسٹرٹک ٹک کا بھی خطاب دیا، ماہرین کرکٹ نے انہیں “مسٹرپرفیکٹ” اور “موسٹ کنسسٹنٹ” پلئیر کے اعزاز سے نوازا ہے، مصباح الحق کی قیادت میں قومی ٹیم نے ایشیا کپ کا ٹائٹل بھی اپنے نام کیا،19 سالہ کیرئیر میں شاہد آفریدی پر کئی بار پابندیاں بھی لگیں اور انہیں گراوٴنڈ سے باہر بیٹھ کر میچ دیکھنے کی سزا بھی ملی

ہفتہ 21 مارچ 2015 07:25

ایڈیلیڈ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21 مارچ۔2015ء) قومی ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے آسٹریلیا کے خلاف اپنے آخری میچ کے بعد ایک روزہ کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کرلی تاہم وہ ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی قیادت کرتے رہیں گے۔41 سالہ مڈل آرڈر بلے باز مصباح الحق نے 2002 میں نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں میچ سے اپنے ون ڈے کیرئیر کا آغازکیا اور 13 سالہ کیرئیر میں 162 ایک روزہ میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی جس میں 43.48 کی اوسط سے 5 ہزار 112 رنز بنائے جب کہ ان کا سب سے زیادہ انفرادی اسکور 96 رنز ناٹ آوٴٹ ہے۔

مصباح الحق اپنی بیٹنگ کے انداز سے شائقین کرکٹ کو بھلے نہ لگتے تھے تاہم ماہرین کرکٹ انہیں عظیم کرکٹراور مرد بحران سمجھتے ہیں جو تن و تنہا مخالف ٹیم کے خلاف مزاحمت کرتے دکھائی دیتے، متعدد میچز میں مصباح الحق نے تنہا بیٹنگ کرتے ہوئے قومی ٹیم کو سرخرو بھی کیا۔

(جاری ہے)

مصباح الحق کے پورے ون ڈے کیرئیر میں ایک بھی سنچری کا نہ ہونا ان کی خامیوں میں شمار کیا جاتا ہے جب کہ مصباح دنیائے کرکٹ کے واحد بیٹسمین ہیں جو 5 ہزار سے زائد رنز بناچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کی کسی بھی اننگ میں تہرا ہندسہ نہ آسکا اور شاید یہی وجہ ہے کہ سست طرز بیٹنگ کی وجہ سے شائقین کرکٹ نے انہیں مسٹرٹک ٹک کا بھی خطاب دیا لیکن ماہرین کرکٹ نے انہیں “مسٹرپرفیکٹ” اور “موسٹ کنسسٹنٹ” پلئیر کے اعزاز سے نوازا ہے۔

مصباح الحق کا خاصہ یہ ہے کہ وہ ٹھنڈے مزاج اور پرسکون انداز میں کھیلنے والے کھلاڑی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں قومی ٹیم کی قیادت ایسے موقع بھی سونپی گئی جب گرین شرٹس پر اسپاٹ فکسنگ کے سائے منڈلا رہے تھے اور 2010 میں انگلینڈ کے خلاف سیریز کے دوران سابق کپتان سلمان بٹ، فاسٹ بولر محمد عامر اور محمد آصف اسپاٹ فکسنگ کے شکنجے میں جکڑے گئے تو شدید دباوٴ کے باوجود مصباح الحق نے نہ صرف قومی ٹیم کو مشکلات سے نکالا بلکہ انہیں دوبارہ فتوحات کے ٹریک پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

قومی ٹیم نے مصباح الحق کی قیادت میں 76 میچز کھیلے جس میں گرین شرٹس کو 40 میں کامیابی اور 33 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ 3 میچز کا فیصلہ نہ ہوسکا، مصباح الحق کی قیادت میں قومی ٹیم نے ایشیا کپ کا ٹائٹل بھی اپنے نام کیا۔ادھر قومی ٹیم کے جارح مزاج آل راوٴنڈرصاحبزادہ شاہد خان آفریدی کا ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کا 19 سالہ سنہری دور عروج و زوال کے بعد بالاخر اختتام پذیر ہوگیا۔

بوم بوم کے نام سے دنیائے کرکٹ میں پہنچانے جانے والے شاہد آفریدی یکم مارچ 1980 کو خیبرپختونخوا میں پیدا ہوئے اور1996 میں کینیا کے خلاف میچ سے انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغازکیا لیکن اگلے ہی میچ میں سری لنکا کے خلاف صرف 37 گیندوں پر سنچری داغ کر انہوں نے تیز ترین سنچری بنانے کا اعزاز اپنے نام کیا وہیں بولروں کے لئے خوف کی علامت بن گئے۔ شاہد آفریدی جب کریز پر آتے تو یا تو خود بولر کا شکار بننتے یا بولروں کا ایسا شکار کرتے جس سے شائقین گرما جاتے۔

35 سالہ آل راوٴنڈر نے 27 ٹیسٹ، 398 ون ڈے اور 59 ٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی۔ گو کہ بوم بوم آفریدی اب ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ سے کنارہ کش ہوچکے ہیں لیکن وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں قومی ٹیم کی قیادت کرتے رہیں گے۔اپنے کیرئیر میں جہاں شاہد آفریدی نے قومی ٹیم کی قیادت کی وہیں انہیں پابندیوں اور تنازعات کا سامنا بھی کرنا پڑا، دلچسپ 19 سالہ کیرئیر میں شاہد آفریدی پر کئی بار پابندیاں بھی لگیں اور انہیں گراوٴنڈ سے باہر بیٹھ کر میچ دیکھنے کی سزا بھی ملی۔

نومبر 2005ء میں انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں پچ کو دانستہ نقصان پہنچانے کے الزام میں شاہد آفریدی پر ایک ٹیسٹ اور دو ایک روزہ میچز کی پابندی لگی، 8 فروری 2007ء کو ایک تماشائی کی جانب دھمکی آمیز طریقے سے بیٹ اْٹھانے پر کھیل کو بدنام کرنے کے الزام میں انہیں 4 ایک روزہ میچز میں شرکت سے محروم کیا گیا یہی نہیں 31 جنوری 2010ء کو آسٹریلیا میں ایک روزہ سیریز کے دوران بال چپانے کے الزام میں شاہد آفریدی پر 2 ٹی ٹوئنٹی میچز کی پابندی لگائی گئی۔

سابق چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ کے ساتھ بھی شاہد آفریدی کی نوک جھوک ایک عرصے تک جاری رہی اور اکثر یہ لفظی جنگ میڈیا کی شہہ سرخیاں بھی بنتی رہیں جس کی وجہ سے انہیں میڈیا سے بات کرنے سے بھی روکا گیا۔شاہد آفریدی نے 27 ٹیسٹ میچز کی 48 اننگز میں 5 سنچریوں اور 8 نصف سنچریوں کی بدولت 36.51 کی اوسط سے 1716 رنز بنائے جب کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ان کا سب سے زیادہ انفرادی اسکور 156 رہا جب کہ ایک روزہ میچز میں بوم بوم آفریدی نے 397 میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 23.58 کی اوسط سے 8 ہزار 41 رنز بنائے جس میں 6 سنچریاں اور 39 نصف سنچریاں شامل ہیں اور آسٹریلیا کے خلاف اپنے آخری میچ میں بھی انہوں نے صرف 23 رنز بنائے جو ان کی اوسط ہے۔

آل راوٴنڈ بلے باز نے شاندار بولنگ کرتے ہوئے ٹیسٹ میچز میں 48 اور ایک روزہ میچز میں 395 وکٹیں بھی حاصل کیں۔