بھارت ، گینگ ریپ کیس پر دستاویزی فلم انڈیاز ڈاٹر‘ پر پابندی برقرار،سماعت آئندہ بد ھ تک ملتوی

جمعہ 13 مارچ 2015 09:21

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13 مارچ۔2015ء) بھارت کی ایک عدالت نے 2012ء کے دہلی گینک ریپ سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم ’انڈیاز ڈاٹر‘ پر عائد پابندی ہٹانے سیانکار کر دیا ہے۔فلم پر عائد پابندی ہٹانے سے متعلق درخواست کے جواب میں عدالت نے کہا ہے کہ دلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اس معاملے کی سماعت آئندہ بدھ کو کریں گے۔اس سے قبل دہلی کی ایک ذیلی عدالت نے اس فلم پر یہ کہہ کر پابندی عائد کر دی تھی کہ اس میں کچھ مواد ’متنازع‘ ہے۔

گینگ ریپ کیس پر یہ فلم برطانوی ہدایت کار لیزلی اڈون نے بنائی ہے جو بی بی سی اور انڈیا کے این ڈی ٹی وی چینل سمیت کئی ممالک میں آٹھ مارچ کو یوم خواتین کے موقع پر دکھائی جانی تھی۔اس دستاویزی فلم میں گینگ ریپ کیس کے ایک مجرم مکیش سنگھ کا انٹرویو بھی شامل تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ریپ کے لیے مردوں سے زیادہ عورتیں ذمہ دار ہوتی ہیں اور جس لڑکی کو اس رات ریپ کیا گیا تھا اس نے پوری شدت سے مزاحمت نہ کی ہوتی، اور چپ رہی ہوتی تو اسے تشدد کا نشانہ نہ بنایا جاتا۔

(جاری ہے)

مجرم نے فلم میں ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اور اپنے ساتھیوں کے کیے پر افسوس کا اظہار نہیں کیا بلکہ کہا ہے کہ ان کو سزا دیے جانے سے مستقبل میں لڑکیوں کے لیے مزید پریشانیاں پیدا ہوں گی۔انڈیا میں قانون کے تین طالب علموں نے اس پابندی کے خلاف عدالت میں یہ کہتے ہوئے عرضی داخل کی تھی کہ یہ پابندی اظہار آزادی کے خلاف ہے۔فلم پر عائد پابندی کو نہ ہٹاتے ہوئے عدالت نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ججوں کا تعلق دوسری دنیا سے نہیں ہے وہ بھی لاشوری طور پر میڈیا ٹرائل کا دباوٴ محسوس کرتے ہیں۔

‘فلم کے ناقدین کا کہنا ہے کہ فلم ایک ریپ کرنے والے شخص کو بے وجہ پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے اور اس طرح کے مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ فلم کی ہدایت کار لیزلی اڈون کا کہنا ہے کہ انہوں نے فلم کی شوٹنگ کرنے سے پہلے وزارت داخلہ اور جیل حکام سے باقاعدہ اجازت لی تھی۔واضح رہے کہ دلی میں گینگ ریپ کے اس واقعے کے بعد انڈیا میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے تھے اور ریپ کے خلاف جو مہم شروع ہوئی تھی وہ ابھی بھی جاری ہے۔

حکومت کی جانب سیفلم پر پابندی عائد کرنے کے خلاف نہ صرف بھارتی پارلیمان بلکہ تمام حلقوں میں زبردست تنقید ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا میں حکومت کے اس قدم کو ’سچائی سے منہ موڑنے کے مترادف‘ بتایا گیا تھا۔حکومت کے کہنے پر یوٹیوب نے انڈیا میں اس فلم کو نہیں دکھایا تھا لیکن پابندی کیباوجود نہ صرف انڈیا بلکہ پوری دنیا نے مختلف ذرائع سے اس فلم کو دیکھا اور اپنی رائے دی۔

چونکہ فلم برطانیہ میں بی بی سی فور پر دکھائی گئی تھی اس لیے لوگوں نے اسے ریکارڈ کرکے مختلف سرورز پر فلم کو ڈاوٴن لوڈ کیا اور پوری دنیا میں شیئر کیا۔ خود پورے انڈیا میں لوگوں نے پروکسی سرورز کی مدد سے یہ فلم دیکھی۔این ڈی ٹی وی نے جس دن یہ فلم نشر کرنی تھی اس دن پابندی کے خلاف احتجاجا اپنے ٹی وی کی سکرین کو ایک گھنٹے تک ’بلینک‘ رکھا اور صرف فلم کا ٹائٹل ہی سکرین پر دکھائی دیا۔

این ڈی ٹی وی کی سینیئر اہلکار سونیا سنگھ نے ایک گھنٹے میں متبادل پروگرام نشر کرنے کی بجائے صرف ٹائٹل ہی دکھانے کے فیصلے پرکہا تھا کہ’ ہم اپنی آواز بلند نہیں کر سکتے لیکن ہمیں سنا جا سکتا ہے۔‘سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی ’این ڈی ٹی وی‘ کے فیصلے کو سراہا گیا تھا۔بھارت میں تو دستاویزی فلم نشر نہ ہو سکی لیکن بی بی سی نے یہ دستاویزی فلم برطانیہ میں نشر کی تھی جس پر بھارتی وزیر داخلہ نے احتجاج بھی کیا تھا۔

متعلقہ عنوان :