عراقی فورسز کی تکریت پر چار اطراف سے چڑھائی ،سابق صدر صدام حسین کے آبائی شہر کا 360 ڈگری سے محاصرہ کر لیا گیا ہے،سامراء آپریشنز کمانڈ

بدھ 11 مارچ 2015 09:08

بغداد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11 مارچ۔2015ء)عراقی فورسز نے مسلح قبائلیوں اور شیعہ رضا کاروں کے ساتھ مل کر منگل کو داعش کے زیر قبضہ شمالی شہر تکریت کے مرکز کی جانب چار اطراف سے چڑھائی کردی ہے۔العربیہ نیوز چینل نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ عراقی فورسز نے شہر کے جنوب میں واقع تکریت اسپتال کی عمارت پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔سامراء آپریشنز کمانڈ نے العربیہ کو بتایا ہے کہ سابق صدر صدام حسین کے آبائی شہر کا 360 ڈگری سے محاصرہ کر لیا گیا ہے۔

عراقی فورسز نے تکریت پر دوبارہ کنٹرول کے لیے گذشتہ ہفتے اس بڑی فوجی مہم کا آغاز کیا تھا اور یہ جون 2014ء میں دولت اسلامی عراق وشام کے جنگجووٴں کی شام کے شمالی شہروں میں یلغار کے بعد سرکاری فوج اور اس کی اتحادی ملیشیاوٴں کی پہلی بڑی جوابی کارروائی ہے۔

(جاری ہے)

عراقی فورسز نے اس دوران تکریت کے شمال میں واقع قصبے العلم پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔

فوجی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجو العلم کے شمالی حصے میں مکانوں میں چھپے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود فوج اور شیعہ رضاکاروں نے شہر کے وسط پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ باقی حصے پر قبضے کے لیے داعش کے جنگجووٴں کے ساتھ گلیوں اور بازاروں میں لڑائی کی تیاری کررہے ہیں۔عراقی فوج کے ایک کپتان وسام ابراہیم نے العلم سے ٹیلی فون کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ''عمارتوں میں چھپے ہوئے ماہر نشانہ بازوں اور قصبے میں نصب کیے گئے کھلونا بموں کی وجہ سے ہماری پیش قدمی سست روی کا شکار ہے اور ہم محفوظ طریقے سے آگے بڑھنے کے لیے فوج کے ہیلی کاپٹروں کے منتظر ہیں''۔

داعش نے اپنے زیر قبضہ دوسرے علاقوں سے تکریت کے دفاع کے لیے کمک بھیجی ہے لیکن انھیں تیل کی دولت سے مالا مال شمالی شہر کرکوک میں بھی کرد سکیورٹی فورسز کے حملوں کا سامنا ہے۔ کرد فورسز نے سوموار کو داعش کے جنگجووٴں کو کرکوک سے پیچھے دھکیل دیا تھا۔اس دوران امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک کے طیاروں نے داعش کے ٹھکانوں پر شدید بمباری کی تھی جس سے کرد فورسز کو پیش قدمی میں مدد ملی تھی۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق کے گروپ تکریت کی بازیابی کے لیے آپریشن میں شہریوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔اس آپریشن میں عراقی سکیورٹی فورسز ،شیعہ ملیشیاوٴں اور سنی قبائل پر مشتمل رضاکار دستوں کے قریباً تیس ہزار اہلکار اور جنگجو حصہ لے رہے ہیں۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک مشیر ڈونٹیلا رویرا کا کہنا ہے کہ ''شیعہ ملیشیاوٴں کے نیم فوجی دستے اکثر سنی شہریوں کے خلاف انتقامی حملے کرتے رہتے ہیں حالانکہ ان شہریوں کا اہل تشیع کے خلاف حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔اب ہمیں دوبارہ ایسے حملوں کے رونما ہونے پر تشویش ہے''۔