سلمان تاثیر قتل کیس ،ملزم ممتاز قادری کی سزائے موت بر قرار ، ملز م کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم ،ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی عدالت سے یکم ستمبر 2011 ء کو دو مرتبہ سزائے موت کا حکم سنایا گیا تھا

منگل 10 مارچ 2015 10:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10 مارچ۔2015ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل میں گرفتار ممتاز قادری کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ہونے والی سزائے موت کے خلاف دائر کی گئی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم کر دیا جبکہ عدالت نے سلمان تاثیر قتل کیس میں ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ہونے والی سزائے موت کو بحال رکھتے ہوئے اپیل خارج کر دی۔

سوموار کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بنچ جسٹس نور الحق این قریشی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل میں گرفتار ممتاز قادری کیس پر 11 فروری 2015ء کو اپیل پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا گیا۔ عدالت نے درخواست گزار کی جانب سے جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف عدالت میں پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نور الحق این قریشی نے ممتاز قادری کیس پر اپیل کا فیصلہ پڑھ کر سنایا عدالت نے ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس میں ہونے والی سزائے موت کو بحال رکھتے ہوئے ملزم کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت سے لگائی گئی دہشت گردی کی 7ATA کی دفعہ ختم کر دی۔ جبکہ عدالت نے ملزم کو سزائے موت بحال رکھنے کے احکامات جاری کر دیئے۔

سلمان تاثیر قتل کیس میں ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی عدالت سے یکم ستمبر 2011 ء کو دو مرتبہ سزائے موت کا حکم سنایا گیا تھا جس کو درخواست گزار نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا اسلام آباد ہائیکورٹ اس وقت کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمان اور جسٹس محمد انور خان کانسی نے اپیل پر سماعت کرتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا تھا۔

بعد ازاں دو سال کے عرصے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں ممتاز قادری کی اپیل کو سماعت کے مقرر کیا گیا تھا جس پر ممتاز قادری کی جانب سے سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف اور جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر نے ممتاز قادری کے حق میں تقریباً سات دنوں تک اپنے دلائل مکمل کئے تھے۔ جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل میاں عبدالرؤف نے وفاق کی نمائندگی کرتے ہوئے دلائل مکمل کئے تھے۔

درخواست گزار کے وکیل خواجہ محمد شریف نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا تھا کہ میرے موقل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے غیر قانونی طور پر سزا دی گئی ہے کیونکہ انہوں نے سابق گورنر پنجاب کو توہین رسالت کا مرتب سمجھتے ہوئے قتل کیا تھا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت سے لگائی گئی دہشت گردی کی دفعات بھی غیر قانونی ہیں جس پر عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سلمان تاثیر قتل کیس کا فیصلہ 11 فروری 2015 ء کو محفوظ کر لیا تھا۔

متعلقہ عنوان :